مسلمانانِ ہند کا گلِ سرسبد مولانا محمد رابع حسنی ندوی

ملال یہ ہے کہ دہلیز عاشقاں بھی گئی

شعراء کو موسم بہار بہت پسند ہے، سبزہ زار پسند ہے،گلزار پسند ہے، پھولوں کا نکھار پسند ہے۔ وہ ہمیشہ بہار کا اور پھولوں کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن اِس بار رمضان کی بہار آئی تو وہ گل شگفتہ گلچین قدرت کے ہاتھوں توڑ لیا گیا جو جانِ بہار تھا، جس کے دم سے گلستاں کا نکھار تھا، جو مسلمانانِ ہند کا گلِ سرسبد تھا،جو مسلمانانِ ہندکی آبرو تھا، جس کے لیے ”ترکش مارا خدنگ آخریں“کا عنوان زیب دیتا تھا،21رمضان المبارک 1444 ہجری کو ان کا انتقال ہوگیا، اس وقت ان کی عمر94 سال تھی۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے چوتھے صدر تھے۔ قاری طیب صاحب، مولانا علی میاں اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے بعدوہ صدر ہوئے۔ رابع کا مطلب بھی چوتھا ہوتا ہے، ان کا انتخاب بھی اس طرح ہواتھا کہ وہ خودبر سرِ موقع موجود نہیں تھے، انہیں انتخاب کی خبر کی گئی اور عہدہ قبول کرنے پر اصرار کیا گیا۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی کے انتقال سے اسلامیانِ ہندکا چمن اجڑ گیا، لاکھوں لوگ ندوۃ العلماء کے وسیع میدان میں نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے جمع تھے، ڈالی گنج سے موتی محل کے پل تک انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا،حدِّ نظر تک سر ہی سر۔ لکھنؤ اور ندوہ والوں کے غم میں شریک ہونے کے لیے لوگ ممبئی سے، کشمیر سے، حیدرآباد سے، بھوپال سے بھی پہنچ گئے تھے، دہلی سے بہت سارے لوگ کار ڈرائیو کرکے پہنچ گئے، مرکز نظام الدین سے لوگ شریک ہوئے، مولانا صدیق صاحب باندوی، مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کے خانوادے کے لوگ نمازِ جنازہ میں نظر آئے۔ حضرت مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو لوگ ندوہ نہیں پہنچ سکے وہ فجر سے پہلے رائے بریلی آگئے تاکہ یہاں نمازجنازہ اور تدفین میں شریک ہوں۔ یہاں نماز جنازہ مولانا بلال حسنی نے پڑھائی جو اب ندوۃ العلماء کے ناظم ہیں، لکھنؤ میں لاکھوں کا مجمع اور یہاں بھی ہزاروں کا مجمع۔ مولانا محمد رابع حسنی کی شخصیت ایسی ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی تھی۔ جب کسی کی مقبولیت آسمان پر لکھ دی جاتی ہے تو اہلِ زمین بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

حسن کی جنس خریدار لیے پھرتی ہے
ایک بازار کا بازار لیے پھرتی ہے

مولانا محمد رابع حسنی ندوی مولانا ابوالحسن علی ندوی کے تربیت یافتہ انسان تھے۔ وہ مولانا علی میاں کے بھانجے تھے اور سفر وحضر میں ان کے شریک تھے۔ وہ مولانا علی میاں کی طرح مصنف بھی تھے، مفکر بھی تھے، عربی کے انشا پرداز بھی تھے۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ان کی خصوصیت تھی۔حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم،وہ مسلمانوں کے اتحاد کی علامت تھے۔ راقم سطور کے نزدیک مسلم پرسنل لا بورڈ نے بہت سے اچھے کام کیے لیکن بہت سے فیصلے غلط بھی کیے تھے، لیکن چونکہ اجماع اور اتحاد غلط فیصلے ہی پر ممکن تھااس لیے مولانا رابع صاحب نے اسے مانا، اسے قبول کیا ”متفق گردید رائے بو علی بارائے من“۔ مولانا محمد رابع صاحب مسلمانانِ ہند کے علماء کے ذہن کو بدل نہیں سکتے تھے اور کوئی بھی بدلنے کی کوشش کرتا تو یہ اتحاد کی قیمت پر ہوتا۔ جن لوگوں نے عرب دنیا اور دیگر اسلامی ملکوں کے علماء کی کتابیں پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے نقطہ نظر اور ہندوستانی علماء کے نقطہ نظر میں بڑا فرق ہے۔ یہ غلط ہے کہ ہندوستان کے علماء عالم اسلام کے تمام علماء سے زیادہ قابل، فاضل، اسرارِ دین اور مقاصدِ شریعت کو سمجھنے والے ہیں۔ تحزب، تعصب، جمود، خمود، تنگ نظری اور احساسِ برتری… یہ ساری برائیاں ہیں جو ہندوستان کے علماء میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوستان کے علماء عام طور پر وسیع المطالعہ بھی نہیں، وہ باہر کے علماء کی کتابیں نہیں پڑھتے، وہ اپنے حلقے سے باہر کے اہلِ علم کی تصنیفات بھی نہیں پڑھتے، بہاں ہر جگہ، ہر مدرسہ فکر میں کچھ شخصیتیں اپنے طلبہ اور مریدوں کے درمیان ”نازشِ ملت“ اور ”بقیۃالسلف“ بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عقیدتوں کا ہالہ ان کے چاروں طرف ہوگا۔ حضرت مولانا محمد رابع حسنی صاحب کو مسلم پرسنل لا بورڈ کی شکل میں ایسے ہی علماء کی قیادت کرنی پڑی۔ انہوں نے اپنی نرم مزاجی سے اتحاد کو ٹوٹنے نہیں دیا لیکن بورڈ بہرحال پرسنل لا کی حفاظت نہیں کرسکا۔ اس میں غلطی حضرت مولانا محمد رابع صاحب کی نہیں تھی، گاڑی کے پہیّے اگر سست رو اور زنگ خوردہ ہوں تو انجن بے چارہ کیا کرے! ناکامی کی ذمہ دار غلط مزاجی اور غلط روی ہے، لکیر کا فقیر بنے رہنا ہے، اور مجتہدانہ نظر سے محروم ہوجانا ہے۔ بقول اقبال:

نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی و ملا کی ناخوش اندیشی

مولانا محمد رابع حسنی رابطہ ادب اسلامی کے صدر بھی تھے، یہ ایک ادبی تنظیم ہے جس کی شاخیں دنیا کے مختلف ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اور ان کے ہم خیال عرب ادباء نے اس کی داغ بیل ڈالی تھی، ہندوستان میں بھی اس کے جلسے ہوتے ہیں۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی ایک معدن علم و روحانیت کے لولوے لالہ تھے، ان کے خاندان کی نامور شخصیت وہ ہے جسے دنیا سید احمد شہید کے نام سے جانتی ہے، مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ان کے حقیقی ماموں تھے، مولانا محمد رابع صاحب کی تربیت مولانا علی میاں نے کی تھی، وہ ان کے ساختہ پرداختہ تھے۔ وہی نرمی، وہی لینت اور ملاطفت، دوسروں کے شیشہ دل کا خیال، وہی شیریں زبانی، خندہ پیشانی، شگفتہ روئی، وہی عبادات میں انہماک، ذکر ودعا اور تلاوت کا اہتمام اور ورع و ابتہال، وہی اخلاصِ عمل اور خلقِ حسن، گفتگو میں ایسی احتیاط کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو، غیبت سے دور اور نفور، رشتوں کا پاس و لحاظ، مسکینوں کی حاجت روائی، اسلام کی برتری کی فکر، عالم اسلام سے واقفیت، مسلمانوں کی اعانت، کثرتِ عبادت کے ساتھ ادائیگیِ حقوق، استحضار نیت، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور علماء کی توقیر، دولت و حشمت کے معاملے میں استغنا، اور زاہدانہ کردار، اور بے شمار خوبیاں جو ان میں تھیں وہ مولانا علی میاں کی خصوصی تربیت کا نتیجہ تھیں۔ مولانا علی میاں عربی اور اردو دونوں زبانوں کے مصنف تھے، مفکر تھے۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی بھی عربی اور اردو دونوں زبانوں کے مصنف اور مفکر تھے۔ وہ مولانا الیاس، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کی مجلسوں میں بھی بیٹھ چکِے تھے اور ان شخصیتوں سے انہوں نے پورا استفادہ کیا۔ انہوں نے عالم عرب کے دورے کیے اور وہاں طویل عرصے تک قیام کیا، اور وہاں کی شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں۔ مولانا علی میاں کے ساتھ انہوں نے دنیا کے ملکوں کا سفر کیا۔ دنیا کے مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ عرب علماء کے افکار وخیالات سے واقف ہوئے۔ اعلیٰ تصنیفی ذوق خاندان میں موجود تھا، اس ذوق کو جلا ملی۔ انہوں نے مولانا عبدالباری ندوی کی کتاب ”تجدید تصوف وسلوک“ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا، اُس وقت ان کی عمر 20 یا 22 سال تھی،اس کے بعد ان کی کتابیں لگاتار شائع ہوتی رہیں عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ عربی زبان میں ان کی پندرہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کی کتاب ”الادب العربی بین عرض وتقد“ اور”منثورات من الادب العربی“ بہت سے مدارسِ اسلامیہ میں نصاب میں داخل ہے۔ ان کی کتاب ”جزیرۃ العرب“ کا موضوع جغرافیہ ہے۔ ان کی کتاب ”حج اور مقاماتِ حج“ بھی مقبول کتاب ہے اور حج کے موضوع پر واحد کتاب ہے جو جغرافیائی ذوق اور تحفیق کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ ان کی کتاب ”امریکہ کا سفرنامہ“ بھی بہت معلوماتی کتاب ہے۔ سیرتِ نبویؐ کے موضوع پر ان کی کتاب ”رہبر انسانیت“ بہت اہم کتاب ہے اور دعوتی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے، اردوکے علاوہ انگریزی اور ہندی میں بھی موجود ہے۔ ان کی کتاب”قرآن مجید ایک رہبر کامل“ بھی بہت اہم کتاب ہے۔ ان کا پورا خاندان اہلِ علم اور اہلِ قلم کا خاندان ہے۔ ان کے بھائی محمد واضح حسنی ندوی عربی زبان کے ادیب اور مفکر تھے اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے ایک اور بھائی محمد ثانی حسنی بہت اچھے شاعر، ادیب اور مصنف تھے جنہوں نے ندوہ کا ترانہ بھی لکھا ہے۔ مولانا محمد الحسنی ان کے ماموں زاد بھائی نامور ادیب اور عربی کے صحافی تھے، اور ان کے ماموں مولانا ابو الحسن علی ندوی کو تو دنیا جانتی ہے۔ پورا خاندان ”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“ کا مصداق ہے۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی بہت آسان زبان میں لکھتے تھے،لیکن فکر کے آبدار موتی پروتے تھے، انہوں نے مسلمانوں کے مسائل پر بہت لکھا اور بہت مفکرانہ انداز میں انہوں نے رہبری کی، ان کے یہ مفکرانہ مضامین عام طور پر”تعمیر حیات“ میں شائع ہوتے تھے۔مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا انتقال بیک وقت علمی، ادبی، فکری اور روحانی قیادت کا خاتمہ ہے۔مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی خوبیوں کاچاند غروب ہوگیا، ایسے میں اب عید کا چاند طلوع بھی ہوا تو کیا خوشی اورکیسی فرحت!

وفات پا چکے سب مرشدانِ کوئے جنوں
ملال یہ ہے کہ دہلیزِ عاشقاں بھی گئی