سوڈان: فوج اور ملیشیا کا خوں ریز تصادم

زیر زمین سونے کے ذخائر پر اجارہ داری کی شیطانی ہوس نے معصوم شہریوں کو یہ دن دکھائے ہیں

سوڈان گزشتہ کئی ہفتوں سے بدترین خونریزی کی لپیٹ میں ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اس ہلاکت خیز جنگ کا آغاز ہوا۔ تادم تحریر چار سو سے زیادہ شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں سوڈانی فوج اور قوات الدعم السريع (انگریزی مخفف RSF) کے عنوان سے منظم نیم فوجی دستے اقتدار کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ بظاہر یہ سوڈانی فوج اور RSFکے درمیان اختیار و اقتدار کی جنگ ہے، لیکن زیر زمین سونے کے ذخائر پر اجارہ داری کی شیطانی ہوس نے معصوم شہریوں کو یہ دن دکھائے ہیں۔

بحر قُلزم (یااحمر) کے ساحل پر واقع جنوب مشرقی افریقہ کے اس ملک کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کے قریب اور مسلمانوں کا تناسب 97 فیصد ہے۔ سوڈانیوں کو اپنی کالی رنگت پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔ یہ خطہ پہلے بلادالسودان یا سیاہ فاموں کی سرزمین کہلاتا تھا۔ سترہویں صدی میں جب یورپ کے ”مہذب“ لوگوں نے غلاموں کے شکار کا آغاز کیا اُس وقت عمدہ خدوخال کی وجہ سے سوڈانی اور حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت پسند تھیں۔ سورہ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مطالعاتی و مشاہداتی دورے کا تذکرہ ہے۔ اس موقع پر حضرت خضرعلیہ السلام سے ملاقات کے لیے مجمع البحرین ( دودریاکے سنگم) کے عنوان سے جو نشانِ منزل طے ہوا تھا وہ سید مودودیؒ کے خیال میں سوڈانی دارالحکومت خرطوم کے قریب دریائےالنیل الابیض (White Nile)اور دریائے النيل الأزرق (Blue Nile)کا سنگم ہے۔ (حوالہ تفہیم القرآن، جلد 3 ،تفسیر سورہ الکہف حاشیہ 57)

خلافت ِراشدہ ہی کے دور میں سوڈان نورِ ہدایت سے جگمگا اٹھا جب مصر سے آنے والے مبلغین نے یہاں کے لوگوں کو دینِ حق سے روشناس کیا۔ عثمانی ترکوں نے 1821ء میں سوڈان کے بڑے حصے کو ولایاتِ مصر کا حصہ بنالیا۔ آٹھ دہائیوں بعد 1899ء میں سوڈان اور مصر کے پورے علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ یکم جنوری 1956ء کو سوڈان کو آزادی دے دی گئی۔

دنیا کے دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح سوڈان میں بھی آزادی کے پہلے دن سے وردی والوں کی مداخلت شروع ہوگئی اور مئی 1969ء میں کرنل جعفرالنمیری نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سولہ سال بعد 1985ء میں جنرل عبدالرحمان سوارالذہب نے جعفرالنمیری کو برطرف کرکے انتخابات کا انعقاد کیا اور اقتدار صدر احمد المغیرنی اور وزیراعظم صادق المہدی کے حوالے کرکے بیرک واپس چلے گئے۔ منتخب حکومت صرف چار سال چلی اور جون 1989ء میں جنرل عمر البشیر نے وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سات سال بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اخوانی فکر سے وابستہ حزب الموتمر الشعبی یا پاپولر کانگریس پارٹی کو برتری حاصل ہوئی اور ممتاز اسکالر و دانشور ڈاکٹر حسن ترابی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ تاہم صدارت جنرل صاحب ہی کے پاس رہی۔ حسبِ توقع بہت جلد ڈاکٹر ترابی، جنرل عمر کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہوگئے۔ غداری، انتہا پسندوں سے تعلقات، اختیارات کے ناجائز استعمال اور اس نوعیت کے دوسرے الزامات عائد کرکے ترابی صاحب کو جیل بھیج دیا گیا اور 2016ء میں انتقال تک ترابی صاحب وقفے وقفے سے جیل یاترا کرتے رہے۔

اسی دوران جنوبی سوڈان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی جسے ایتھوپیا کی حمایت حاصل تھی، جلد ہی لیبیا اور یوگینڈا بھی علیحدگی پسند سوڈان پیپلز لبریشن آرمی (SPLA) کی حمایت پر کمربستہ ہوگئے۔ جنوری 2011ء کے ریفرنڈم میں98 فیصد افراد نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی اور سوڈانی پارلیمنٹ نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جنوبی سوڈان کو آزاد ملک تسلیم کرلیا۔ جنوبی حصے کی علیحدگی نے سوڈان کو بڑی آمدنی سے محروم کردیا کہ تیل اور گیس کے سارے میدان جنوبی سوڈان میں، جبکہ تیل صاف کرنے کے کارخانے خرطوم اور اس کے مضافات میں ہیں۔ خام تیل کی ترسیل رکنے سے جہاں آمدنی ختم ہوگئی وہیں یہ عظیم الشان کارخانے ملک پر بوجھ بن گئے اور لاکھوں کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنا پڑا۔ جنوبی سوڈان میں ڈیم اور چھوٹے بڑے بندوں کی تعمیر سے دریائے نیل میں پانی کا حجم متاثر ہوا اور سوڈان کے لیے اپنے عوام کو غلہ و سبزی فراہم کرنا بھی مشکل ہوگیا۔

جنوبی سوڈان کے ساتھ مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ یہ عرب افریقی فور قبیلے کا مسکن ہے، جو سارے کے سارے مسلمان ہیں، اسی بنا پر اس علاقے کو پہلے اقلیمِ فور کہا جاتا تھا۔ فور اور روح پرست (Animist) افریقی قبائل کی کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ اپنے گھروں اور کھیتوں کی روح پرستوں سے حفاظت کے لیے فور قبیلے نے جنجوید ملیشیا قائم کرلی۔ جنجوید کو قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر سوڈانی حکومت نے اگست 2013ء میں RSFترتیب دے دی۔ یہ نیم فوجی دستے براہِ راست سوڈانی فوج کی کمان میں تھے۔

جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی مشکلات اور دارفور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے11 اپریل 2019ء کو جنرل احمد عواد ابن عوف نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور عمرالبشیر معزول کرکے جیل بھیج دیے گئے۔ دوسرے ہی دن جنرل عبدالفتاح برہان نے جنرل ابن عوف کا تختہ الٹ دیا، ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر عبداللہ حمدوک وزیراعظم مقرر ہوئے اور طے پایا کہ 2022ء میں انتخابات منعقد ہوں گے جس کے بعد اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائے گا۔

یہ وہ وقت تھا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔ سوڈان کو ترغیب دی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ جنرل صاحب نے اسرائیل کو تسلیم کرکے تسلسلِ اقتدار کو یقینی بنالیا۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم حمدوک نے شرعی قوانین منسوخ کرکے سوڈان کو ایک سیکولر ملک قرار دے دیا۔ دلچسپ اور خوش آئند بات کہ ملک کو سیکولر قرار دینے کے باوجود قومی ترانے کو تبدیل نہیں کیا گیا، جس کا آغاز نحن جنداللہ (ہم اللہ کے سپاہی ہیں) سے ہوتا ہے۔

ان دو اقدامات پر مغرب کی جانب سے گل پاشی جاری ہی تھی کہ جنرل برہان کو وزیراعظم کے طرزِ حکومت سے شکایت پیدا ہوئی اور 25 اکتوبر 2021ء کو جنرل صاحب نے عبوری حکومت تحلیل کرکے وزیراعظم عبداللہ حمدوک اور کابینہ کے ارکان کو ان کے گھروں پر نظربند کردیا۔ قوم سے خطاب میں جنرل عبدالفتاح البرہان نے کہا کہ یہ قدم نہ تو فوجی انقلاب ہے اور نہ مارشل لا، بلکہ نااہلی اور بدعنوانی کی بنا پر انھوں نے حکومت کو گھر بھیجا ہے۔ انھوں نے وعدہ دہرایا کہ جولائی 2022ء میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ عوام نے اس نئے بندوبست کو قبول نہ کیا اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ فوج نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ جنرل صاحب نے ہنگامے کا الزام اخوان المسلمون پر دھر دیا جو اُن کے خیال میں اسرائیل سے تعلقات اور شرعی قوانین کی منسوخی پر ناراض ہے۔ تشدد اور الزامات کے باوجود تحریک جاری رہی اور عوامی دبائو پر جنرل صاحب نے 21 نومبر 2021ء کو وزیراعظم حمدوک کی حکومت بحال کردی لیکن اقتدار اپنے ہی پاس رکھا۔ جنوری 2022ء کو بے اختیار وزیراعظم خود ہی مستعفی ہوگئے۔

گزشتہ سال جولائی میں اقوام متحدہ نے فوج اور سیاسی رہنمائوں کے درمیان ثالثی کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں 5 دسمبر 2022ء کو فوجی جنتا اور قوۃ الحريۃ والتغيير یا Forces for Freedom and Change (FFC) کے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا۔ ایف ایف سی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، طلبہ یونینوں، وکلا تنظیموں اور مزدور انجمنوں پر مشتمل ہے۔ معاہدے کے تحت عبوری حکومت یعنی خود مختار کونسل (Transitional Sovereignty Council) کی قیادت سیاسی و عوامی عناصر کے ہاتھوں میں ہوگی۔ فوج صرف دفاعی امور سنبھالے گی اور جنرل برہان مئی 2023ء تک کونسل کی سربراہی سے سبک دوش ہوجائیں گے۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے جنرل برہان نے پُرعزم انداز میں اعلان کیا کہ ”بہت جلد اہلِ سیاست پولنگ اسٹیشن اور فوجی بیرکوں کی طرف جاتے نظر آئیں گے۔“

تاہم عام لوگوں نے اس بندوبست کو قبول نہیں کیا۔ جب سیاسی رہنما جرنیلوں کے ساتھ شرکتِ اقتدار کے معاہدے پر دستخط کررہے تھے، سارے ملک میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے جرنیلی سیاست نامنظور، مارے جانے والے شہریوں کے قتل کا مقدمہ جرنیلوں پر قائم کرو، اور اسرائیل سے تعلقات نامنظور کے نعرے لگائے۔

اِس سال جنوری میں معاہدے پر عمل درآمد کے لیے فوج اور سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ایف ایف سی کو RSFکی سکھا شاہی پر اعتراض تھا جو سمجھتے ہیں کہ RSF کی وردی میں جنجوید ملیشیا لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔ سویلین عناصر کا مطالبہ تھا کہ ار ایس ایف کو سوڈانی فوج میں ضم کردیا جائے۔ اقوام متحدہ کے خیال میں بھی جنجوید ملیشیا اور آر ایس ایف کا کردار شائستہ نہیں، اور ان کے جوان دارفور میں قتل عام اور خواتین پر مجرمانہ حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں، چنانچہ ثالثوں نے اس معاملے پر ایف ایف سی کے مطالبے کی حمایت کی اور جنرل برہان نے آر ایس ایف کو فوج کے ماتحت کرنے کی ہامی بھرلی۔ لیکن معاملہ اتنا آسان نہ تھا۔ آر ایس ایف کے 70 ہزار جوان مشین گنوں سے مزین ایک ہزار ٹرکوں پر دارالحکومت میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ انھیں عوامی مظاہرے کچلنے کے لیے جنرل برہان نے خود ہی یہاں تعینات کیا تھا۔

اس خبر پر آر ایس ایف مشتعل ہوگئی اور اس کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی نے جو خودمختار کونسل کے ڈپٹی چیئرمین بھی ہیں، کہا کہ یہ سب جنرل برہان کی سازش ہے جو نت نئے شوشے اٹھاکر انتقالِ اقتدار سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برہان حکومت بدعنوان و بے ایمان عمرالبشیر سرکار کا تسلسل ہے اور 2019ء کا فوجی انقلاب ایک ڈراما تھا۔

15 اپریل کو خرطوم دھماکوں سے گونج اٹھا۔ آر ایس ایف کے دستوں نے خرطوم ائرپورٹ اور ایوانِ صدر کو گھیرے میں لے لیا۔ ٖآر ایس ایف کو پسپا کرنے کے لیے سوڈانی فضائیہ نے میزائیل برسانے شروع کردیے جس سے خرطوم میں کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔ دارفور میں بھی سوڈانی فوج اور آر ایس ایف میں خونریز تصادم ہوا۔ لڑائی اب تک جاری ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کے لیے جنرل برہان تو رضامند ہوگئے لیکن حمیدتی نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ شدید بمباری کے باوجود ایوان صدر اب بھی آر ایس ایف کے نرغے میں ہے اور ائرپورٹ پر حمیدتی فوج کی گولہ باری میں شدت آگئی ہے۔ اکثر ہسپتالوں نے گنجائش سے تین گنا زیادہ بھر جانے کی بنا پر اپنے دروازے مقفل کردیے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے کی مبارک راتیں بدنصیب سوڈانیوں نے اعتکاف و شب بیداری کے بجائے آیتِ کریمہ کا ورد کرتے زیرزمین پناہ گاہوں اور کھلے میدانوں میں گزاریں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 50 ہزار سوڈانی ہجرت کرکے پڑوسی ملک چاڈ جاچکے ہیں۔

سوڈان سونا برآمد کرنے والا سب سے بڑا افریقی ملک ہے۔ گزشتہ برس ڈھائی ارب ڈالر مالیت کا 41.8 ٹن سونا برآمد کیا گیا لیکن سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سوڈانی برآمدات کا مجموعی حجم صرف 77 کروڑ ڈالر تھا، یعنی پونے دوارب ڈالر وردی والے ڈکار گئے۔ سونے کی زیادہ تر منافع بخش کانیں حمیدتی اور آر ایس ایف کے کنٹرول میں ہیں۔ آر ایس ایف کے وسائل کا بڑا حصہ کانوں کی حفاظت اور طلائی سلاخوں کی نقل و حمل اور برآمد کے لیے وقف ہے یا یوں کہیے کہ آر ایس ایف کا کلیدی بلکہ تزویراتی کردار کانوں اور ان کی تجارت کا تحفظ ہے۔ عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ حمیدتی نے کچھ

عرصہ قبل سونے سے ہونے آمدنی میں فوج کا حصہ کم کردیا ہے جس نے کشیدگی کی چنگاری پر تیل کا کام کیا۔ فوج کے لیے سونا اگلتی کانوں سے دست بردار ہوجانا ممکن نہیں، چنانچہ دونوں فریق آخری حد تک جانے کے لیے پُرعزم نظرآرہے ہیں۔ جنرل برہان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے تحلیل ہونے تک لڑائی جاری رہے گی، جبکہ آر ایس ایف نے تمام فوجی اڈوں پر قبضے تک لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

20 اپریل کو حمیدتی نے ایوانِ صدر کے تحفظ پر تعینات سوڈانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں عام معافی، ورنہ عبرتناک انجام کی نوید سنائی، جواب میں جنرل برہان نے قومی ترانے کا پہلا مصرع دہرایا کہ ‘ہم اللہ کا لشکر ہیں۔ ڈھٹائی کی انتہا کہ سونے کی لڑائی ان مفسدین کے خیال میں جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ سوڈانی عوام کی دولت دونوں وردی والے کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں اور اب مالِ مسروقہ کے تحفظ کی جنگ میں مصروف لٹیروں کے نشانے پر بھی یہی نہتے بدنصیب ہیں۔

……………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔