عید ہے تو عربی الاصل لفظ، مگراب دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جس میں عید کا لفظ جوں کا توں شامل نہ ہوگیا ہو۔ غیر بھی جانتے ہیں کہ ’عید‘ مسلمانوں کے جشن کا دن ہے۔ یکم شوال کو دنیا بھر کے مسلمان ماہِ صیام کے فرائض کی تکمیل کا جشن مناتے ہیں۔ مسلمانوں کے جشن بھی خوب ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر معاملہ توحید کے گرد گھومتا ہے۔کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق۔ روزانہ پانچ وقت تو اُس کے حضور میں سربسجود ہوتے ہی ہیں، مگر آج جشن کا دن ہے تو مارے خوشی کے آج چھٹی نماز بھی پڑھیں گے۔ مرد، عورتیں، بچے سب… حتیٰ کہ سال بھر نماز نہ پڑھنے والے بھی کنکھیوں سے دائیں بائیں دیکھ کر دوگانۂ عید ضرور ادا کریں گے۔ ایسے لوگ ’عیدُو‘ کہلاتے ہیں۔
عید کی اصل ’عَود‘ ہے۔ عَود کا مطلب ہے لوٹ آنا، بار بار آنا، اِعادہ کرنا یا دُہرانا۔ یہاں ایک وضاحت کرتے چلیں۔ عَود اور عُود کا املا ایک ہونے کے باوجود دونوں کے تلفظ و معنیٰ میں فرق ہے۔ ع پر پیش کے ساتھ عُود لکھا یا بولا جائے گا تو اس سے مراد ایک خوشبو دار لکڑی ہوگی۔ عُود کی کئی اقسام ہیں۔ عید پر عُود کا عطر لگانا پسند کیا جاتا ہے۔ بربط(Harp) نامی ساز کو بھی عُود کہتے ہیں۔ ع پر زبر کے ساتھ جو عَود ہے، اُس کا مطلب ہے لوٹ آنا۔ ’’اب لوٹ آ، بدل گئی رُت، پُھول کھل گئے‘‘[پِٹ پِٹا کر بھاگنے والے محبوب کو عَود کر آنے کی دعوت دی جارہی ہے، شاید حالات بدل گئے ہیں] اسلام سے پہلے بھی عرب عید مناتے تھے۔ ان کے لیے ہر وہ دن عید کا دن تھا، جس دن وہ اپنے کسی صاحبِ فضل کی یا کسی بڑے واقعے کی یاد مناتے۔ چوں کہ یہ دن ہر سال عَود کر آتا تھا، چناں چہ وہ اِسے ’عید‘ کہتے تھے۔
اسلام سے پہلے عید منانے کا ثبوت بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ احادیث میں مذکور ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا، میرے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمارے گھر تشریف لائے۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم بھی گھر میں آرام فرما تھے۔ انصار کی دو لڑکیاں دف پر جنگِ بعاث کے ترانے گا رہی تھیں۔ یہ گانے والیاں نہیں تھیں۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے یہ منظر دیکھا توڈانٹا: ’’رسول اللہؐ کے گھر میں یہ شیطانی گانے باجے؟‘‘ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ’’ابوبکرانھیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
اُردو میں عید کا لفظ خوشی منانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’روزِ عید‘ سے مراد عیش و طرب کا دن لیا جاتا ہے۔ کسی کی کوئی آرزو پوری ہوجائے یا کوئی نعمتِ غیرمترقبہ مل جائے تو کہتا ہے ’’ہماری تو عید ہوگئی‘‘۔ مشہور شعر ہے:
اگر حضورؐ کے روضے کی دید ہو جائے
قسم خدا کی غریبوں کی عید ہو جائے
عید ہی نہیں، عید کا چاند بھی خوشی کی نوید لاتا ہے۔ ’پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے‘۔ جس دوست کا مدت سے انتظارتھا وہ اچانک نظر آجائے تو سمجھیے ’عید کا چاند نکل آیا‘۔ مگر جو شخص سال میں فقط ایک، دو باردکھائی دیتا ہو اُس سے گلہ کیا جاتا ہے ’’میاں! تم تو عید کا چاند ہوگئے‘‘۔ بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ سال میں ایک بار بھی نظر آجائیں تو لگتا ہے محرم کا چاند دیکھ لیا۔ ہمارے ہاں چاند دیکھنے اور اُس کی رویت کا شرعی و سرکاری اعلان کرنے کے لیے علمائے کرام کی ’رویتِ ہلال کمیٹی‘ قائم ہے۔ اس کمیٹی کو بھی معلوم ہے کہ اِن دیاروں میں محبوب کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے، خواہ منگیتر ہو یا اولاد۔ شاید اسی وجہ سے کمیٹی بھی آدھی رات کو اپنا چاند نکالتی ہے۔ رئیس ؔ امروہوی مرحوم جو مشاعروں میں بھی نیم دراز ہوجایاکرتے تھے، ایسے جید کاہل ثابت ہوئے کہ محبوب کو کھوجنے تاکنے کا کام بھی سرکاری کمیٹی کو سونپا اور سو گئے:
مدت سے میرا چاند دکھائی نہیں دیا
اے رویتِ ہلال کمیٹی کدھر ہے تُو؟
یکم شوال کو منائی جانے والی عید ’عیدالفطر‘ کہلاتی ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات عیدالفطر کے فطر کو اکثر ’فِطَر‘ (بروزنِ تیتر) ادا کرتے ہیں۔ جب کہ اسی تلفظ سے ’فطرہ‘ کہنا اُن کے لیے بھی مشکل ہے۔ لہٰذا سہولت اسی میں ہے کہ فِطر کے ف کو زیر کرکے بقیہ دونوں حروف سکون سے رہنے دیے جائیں۔ وِتر، فِطر اور عِطر کا تلفظ یکساں ہے۔ فطر کا مطلب ہے اِفطار کرنا، روزہ کھولنا۔ عیدالفطر جس دن منائی جاتی ہے اُس دن سے روزہ کھل جاتا ہے۔ ماہِ صیام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ ٹیلی وژن کا ہر چینل بے چینی سے ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے کہ ہر قسم کی پابندیاں اُٹھ چکی ہیں، اب ہم کُھل گئے ہیں۔
عید الفطر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ نمازِ عید سے پہلے پہلے صدقۂ فطر (روزہ کھولنے کا صدقہ) ادا کرنا ہر کس و ناکس پر فرض کردیا گیا ہے۔ صدقۂ فطر کی ادائی سے روزے کی حالت میں ہونے والی غلطیاں اورکوتاہیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ صدقۂ فطر ہمارے ہاں فطرہ بھی کہلاتا ہے اور فطرانہ بھی۔ ماہِ صیام کی کوتاہیوں کا ازالہ صدقۃ الفطر کی صورت میں اس غرض سے رکھا گیا ہے کہ معاشرے کا محروم سے محروم فرد بھی عید منانے سے محروم نہ رہ جائے۔ اسی لیے فطرہ امیر غریب، بچے بڑے سب پر فرض ہے۔ حتیٰ کہ چاند رات بلکہ صبح نمازِ عید سے پہلے پہلے ولادت کا شرف حاصل کرلینے والے نومولود کا بھی فطرہ ادا کیا جائے گا۔ نومولود کاکے یا کاکی کی اگلی عید ’عیدِمولود‘ ہوجائے گی۔
کالم کے شروع میں ہم نے دوگانۂ عید کا ذکر کیا ہے۔ دوگانہ کے لفظی معنی ہیں جڑواں یا دوہری چیز۔ یہاں نماز کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ ’دوگانہ پڑھنا‘ بھی بولا جاتا ہے اور ’دوگانہ ادا کرنا‘ بھی۔ داغؔ کہتے ہیں:
گر مے کدے میں عید منائی تو کیا ہوا
ایسا ہی شیخ تیرا دوگانہ قضا ہوا
حالاں کہ شیوخِ فقہ کا فتویٰ ہے کہ نہیں ہوا۔ دوگانۂ عید کی قضا نہیں ہے۔ نماز نکل گئی تو نکل گئی۔ اکیلے نہیں پڑھی جاسکتی۔ باجماعت ہی ادا ہوگی۔ عید کی نماز کے لیے خواتین کو بھی عید گاہ ہی جانا پڑتا ہے۔ اے لو، ایک نیا لفظ آگیا’عید گاہ‘۔مگر خیر، ابھی کسی کی اُردو اتنی بھی نہیں بگڑی کہ اتنا نہ بتاسکے:’ جس میدان میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے اُسے عیدگاہ کہتے ہیں‘۔ہمارے کراچی میں تو’ عید گاہ کلاتھ مارکیٹ‘ بھی ہے، جہاں عید سے پہلے ہی خواتین عید منا لیتی ہیں۔ وہیںاُن کے شوہرانِ کرام مہنگائی کا ماتم کرتے ہوئے محرم منالیتے ہیں۔
عید گاہ کلاتھ مارکیٹ در اصل کراچی کی قدیم مرکزی عیدگاہ کے پاس ہے۔ مشفق محترم و برادرم اقبال اے رحمٰن مانڈویا اپنی معرکہ آرا کتاب ’’اِس دشت میں اِک شہر تھا … کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان‘‘میںسنہرے دنوں کی عید کا ایک منظر دکھاتے ہیں:
’’اُس زمانے میں یعنی قیامِ پاکستان سے قبل عید کی صبح عجیب نظارہ ہوتا، جب مسلم محلّوں سے جلوس نکلتے اور پھر باہم مل کر عید گاہ پہنچتے۔ طریقۂ کار یہ تھا کہ پہلے ایک جلوس والینٹروں کا نکلتا، وہ جس محلّے کے قریب پہنچتا اس محلّے کے لوگ جلوس میں شامل ہو جاتے۔ یوں محلہ در محلہ لوگوں کی آمد ہوتی اور کارواں بنتا چلاجاتا۔ایک منظم جلوس عید گاہ کی جانب رواں دواں ہو تا۔ نعرۂ تکبیر کی گونج ہوتی، شاداں چہرے ہوتے اور عید کی نماز کے بعد غباروں اور کھلونوںکی برسات ہوتی۔اسی لیے یہ علاقہ یا بس اسٹاپ ’’عید گاہ‘‘ سے معروف ہوا۔قیامِ پاکستان کے بعد بھی اس عید گاہ کو مرکزی عید گاہ کا درجہ حاصل رہا، جہاں عید کی نماز کی امامت و خطابت قاضی عبدالعزیز صاحب فرماتے تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد عید کی پہلی نماز حضرت قائداعظم نے اسی عید گاہ میں مولانا ظہورالحسن کی اقتدا میں ادا کی جس کا خطبہ مولانا شاہ احمد نورانی کے والد شاہ عبدالعلیم صدیقی نے دیا تھا‘‘۔(ص: 689)