کشمیری وفد کا دورئہ ترکیہ:قائد وفد عبدالرشید ترابی سے خصوصی گفتگو

گزشتہ دنوں ترکیہ کے دورے پر آئے کشمیری وفد سے مجھے ملاقات کا اتفاق ہوا جس کی قیادت عبدالرشید ترابی (امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے مشیر برائے امور کشمیر و جماعت اسلامی کشمیر کی مرکزی شوریٰ کے رکن) کررہے تھے۔ میں نے ان سے ترکیہ آمد کا مقصد اور دیگر امور پر ایک خصوصی انٹرویو کیا۔

ان کے وفد میں پاکستان ترکیہ یک جہتی فورم کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم چودھری، تحریک کشمیر ترکیہ کے کنوینر شیخ طلحہ، حریت کانفرنس کے رہنما اعجاز احمد شاہ، انقرہ سے ڈاکٹر کمال، ڈاکٹر شوکت اور TRT کے نمائندہ فہد شامل تھے۔

عبدالرشید ترابی جماعت اسلامی آزاد کشمیر، حکومتِ آزاد کشمیر اور کشمیر کی ساری سیاسی جماعتوں اور کشمیری عوام کے نمائندہ بن کر ترکیہ تشریف لائے تھے۔

ان کی آمد کا مقصد متاثرینِ زلزلہ ترکیہ کے ساتھ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور پاکستان کے باشعور مسلمانوں کی طرف سے اظہار یکجہتی کرنا تھا اور یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان کا بچہ بچہ ترک بھائیوں کے غم میں برابر کا شریک ہے اور متاثرین کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال، بھارتی مظالم اور عزائم خصوصاً ڈیموگرافی کی تبدیلی کے حوالے سے ترکیہ حکومت کو آگاہی دینا تھا۔ ترکیہ میں یہ ان کا دس دن کا دورہ تھا۔

میرے پہلے سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کوئی امدادی فنڈز بھی لائے ہیں؟

عبدالرشید ترابی نے بتایا کہ کشمیری عوام کی طرف سے فنڈز الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے فوری طور پر زلزلہ زدگان کے لیے بھیجے جا چکے ہیں، اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی جانب سے 55 کروڑ روپے کی امداد کا چیک بھی ترکیہ کے سفیر کو اسلام آباد میں دیا جاچکا ہے۔

میرا دوسرا سوال تھا کہ ترکیہ میں آپ کی اب تک کس کس رہنما سے ملاقات ہوچکی ہے؟

اس کا جواب دیتے ہوئے عبدالرشیدترابی نے مجھے مکمل تفصیل سے ترکیہ میں مختلف رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں کا احوال بالترتیب بتایا۔

سب سے پہلے کشمیری وفد کی ملاقات عبدالرشید ترابی کی سربراہی میں ترکیہ پاکستان پارلیمانی فرینڈ شپ کے چیئرمین اور صدر رجب طیب اردوان کے مشیر علی شاہین اوغلو سے ان کے دفتر میں ہوئی۔ علی شاہین اوغلو نے وفد سے ملاقات کے دوران اپنے بہترین جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”سری نگر کے آنسو ہمارے آنسو ہیں، کشمیر کا مسئلہ ہمارا مسئلہ ہے۔ کشمیر، پاکستان اور ترکیہ جسدِ واحد ہیں، ہم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں منزل کے حصول تک ان کے شانہ بشانہ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر طیب اردوان نے بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے اور اس کے فوری حل کا تقاضا کیا ہے۔ترکیہ کی پوری قوم اس برحق جدوجہد میں اہل کشمیر کا ساتھ دینا ملّی اور انسانی فریضہ سمجھتی ہے۔“

علی شاہین اوغلو نے تشکرانہ طور پر کہا کہ پوری امت اور انسانیت،دکھ کی اس گھڑی میں ہماری مدد کو آئی لیکن پاکستان کے عوام اور حکومت کا کردار تاریخی ہے اور الخدمت کا کام بھی قابلِ تحسین رہا ہے، ہم آپ کا (پاکستان کا) شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اب اس وفد کی اگلی ملاقات مصطفیٰ کمال اکایا سے ان کے ہیڈ کوارٹر میں ہوئی جو کہ سینئر وائس پریذیڈنٹ سعادت پارٹی ہیں ۔

ملاقات میں وفد کو مصطفیٰ کمال آکایا نے بتایا کہ سعادت پارٹی استاذ نجم الدین اربکان کے ایجنڈے کو لے کر چل رہی ہے، استاذ اربکان نے ہمیشہ کشمیر و فلسطین کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس لیے سعادت پارٹی کا ہر کارکن مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی اور پشتیبانی کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ سعادت پارٹی اپنی کانفرنسوں اور سیمینارز میں مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے کا مستقل حصہ رکھتی ہے۔ مصطفیٰ کمال اکایا نے وفد کو مزید بتایا کہ سعادت پارٹی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ استاد نجم الدین اربکان نے ترکیہ میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کشمیر کی ترجمانی کی ہے۔

وفد نے انہیں بتایا کہ مودی حکومت کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے، بھارتی مسلمانوں کو بھی تیسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔

مصطفیٰ کمال آکایا نے عبدالرشید ترابی اور ان کے وفد کو تحریک آزادیِ کشمیر کی لازوال جدوجہد میں شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

عبدالرشیدترابی نے نیو رفاہ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل پروفیسر دوگان ہیکن سے ملاقات کا احوال بھی بتایا۔ اس ملاقات میں دوگان ہیکن نے پارٹی کے صدر فاتح اربکان(استاذ اربکان کے صاحب زادے) کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بھرپور تعاون کا وفد کو یقین دلایا۔ دوگان نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کی پشتیبانی نیو رفاہ پارٹی کے بنیادی لائحہ عمل کا حصہ ہے۔ استاذ اربکان کے تشنہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہی یہ پارٹی تشکیل دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امت مسلمہ کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے D 8 یعنی آٹھ اہم مسلم ممالک کا فورم قائم کیا گیا تھا تاکہ نیوکلیئس بنا کر مسلم ممالک کی مشترکہ منڈی اور کرنسی قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو مجتمع کرکے کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو حل کیا جائے۔ استاد اربکان کشمیر کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے زندگی بھر ہر سطح پر کوشش کرتے رہے۔

قاضی حسین احمد کی قیادت میں دنیا کے منظرنامے پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا تھا اور انھوں نے ترک قوم و حکومت کو کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کیا تھا۔

ترک قیادت کے نزدیک کشمیر کی آزادی پوری امتِ مسلمہ کے لیے چیلنج ہے، اس مسئلے کو حل کرنا ان کی ملّی اور انسانی ذمہ داری ہے۔

میں نے ترابی صاحب سے پوچھا کہ کیا ترکیہ کے کسی رفاہی ادارے کے سربراہ سے بھی ملاقات ہوئی؟

جواب میں انھوں نے بتایا کہ استاد نجم الدین اربکان کی ہی قائم کردہ رفاہی تنظیم ”جانسو“ جو دنیا کے ستّر ممالک میں خدمت کا نیٹ ورک رکھتی ہے، کے ممبر پارلیمنٹ پروفیسر مصطفیٰ آکو ٹیلو سے بھی وفد نے ملاقات کی تھی۔ مصطفیٰ اکو ٹیلو نے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو عظیم المیہ قرار دیا اور کہا کہ مسلم اور دیگر بین الاقوامی این جی اوز کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدترین انسانی بحران کا نوٹس لینا چاہیے، نیز انسانی حقوق کی بدترین پامالی، لاکھوں متاثرہ خاندانوں کی بحالی میں کردار ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ ریاست میں یتامیٰ اور بے سہارا خاندانوں کی بحالی میں کردار ادا کرنے والے ادارے اور رضاکار بند کیے جا رہے ہیں۔ راحت فراہم کرنے والے اداروں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے کشمیر کو نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔

میں نے ترابی صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ نے زلزلے کی جگہوں کا بھی دورہ کیا ہے؟

جواب میں زلزلے کی جگہوں کے دورے کا احوال بتاتے ہوئے ترابی صاحب نے مجھے بتایا کہ ترکیہ زلزلے میں سب سے متاثرہ شہر قہرمان ماراش ہے، اسی لیے وفد نے وہیں کا دورہ کیا اور مقامی این جی او کے مرکز میں زلزلہ متاثرین میں گرم ملبوسات تقسیم کیے۔ دورے کے دوران انہیں پتا چلا کہ صرف اس شہر میں ہی اٹھارہ ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ اکثر عمارتیں گر گئیں اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کی تباہی لرزہ خیز تھی۔ یہاں پر مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز بھرپور سرگرمی سے بحالی کا کام کررہی ہیں۔ پچاس ہزار افراد کے لیے بیک وقت سحری و افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ترک لوگوں کے پاکستان کے لیے بہت دعائیہ جذبات ہیں، خصوصاً الخدمت فاؤنڈیشن اور پاک فوج کے کردار کو انتہائی تحسین کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ حکومتِ پاکستان اور سمندر پار پاکستانیوں کے تعاون کی بھی تعریفیں ہیں، بالخصوص امریکہ میں مقیم گمنام پاکستانی جس نے تیس ملین ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی تھی، اس کا ہر جگہ تذکرہ ہے۔ پیما پاکستان کے میڈیکل مشن کی خدمات کو بھی جگہ جگہ سراہا جا رہا ہے۔

5- میں نے سوال کیا کہ کیا کاروباری افراد سے بھی آپ کی کوئی ملاقاتیں ہوئیں؟

اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ استنبول میں چیمبر آف کامرس موسیاد اور بزنس فورم کے چیئرمین ہارون ماجد اور سلیمان اوغلو کی طرف سے افطار ڈنر میں شرکت کی تھی جس میں ترکی کے اہم دانشور اور کاروباری ایگزیکٹوز بھی شریک ہوئے تھے۔ وہاں کشمیر کی صورت حال پر بریف کرتے ہوئے عالمی سطح پر ان کے وفد نے بھارت کے خلاف تجارتی بائیکاٹ کی مہم کا تقاضا کیا تاکہ بھارت پر سفارتی اور معاشی دباؤ کے ذریعے اسے مظالم سے روکا جائے۔ اگر روس یوکرین جنگ میں روس کے خلاف مغربی ممالک پابندیاں عائد کرسکتے ہیں تو مسلم ممالک اور بزنس کمیونٹی کیوں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کا قتلِ عام رکوانے کے لیے بھارت پر دباؤ کا اہتمام کرنے میں تاخیر کررہے ہیں؟ تاجر رہنماؤں نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پرمشاورت کریں گے۔ مسلم دنیا ایک بہت بڑی کاروباری منڈی ہے جسے باہمی روابط سے مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ موسیاد کا فورم اس سلسلے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ترکیہ کے تاجر رہنماؤں نے کہا کہ بدقسمتی سے مسلم حکمران مغربی آقاؤں کی تابع داری میں اپنی طاقت کماحقہ بروئے کار لانے سے قاصر ہیں۔ امتِ مسلمہ کو اپنے اپنے ممالک میں حقیقی قیادت سامنے لانا ہوگی جو امت کے جذبات اور مفادات کی ترجمانی کا حق ادا کرسکے۔ انہوں نے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی سے مکمل اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

گفتگو کے آخر میں ایک سوال ایسا بھی پوچھ لیا جو قارئین کے ذہن میں عبدالرشید ترابی کا نام پڑھ کر آجاتا ہے… اور وہ سوال تھا کہ گزشتہ عام انتخابات میں آپ نے بحیثیت امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر، تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیوں اور کس تناظر میں کیا تھا؟

ترابی صاحب نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ انتخابی مفاہمت میں ایک نشست پر حمایت کے بدلے طے پایا تھا کہ تمام جماعتوں، حریت کانفرنس اور بین الاقوامی محاذ پر کام کرنے والے کشمیری رہنماؤں پر مشتمل ایک پلیٹ فارم ہماری رہنمائی میں تشکیل دیا جائے گا جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ذرائع ابلاغ اور سفارتی حلقوں کو متحرک رکھے گا۔

ہمیں توقع تھی کہ کشمیر کاز کے لیے جماعت اسلامی اس فیصلے کی تائید کرے گی، یوں ہم تمام کشمیری قیادت اور حریت کانفرنس کی مشاورت سے جامع حکمت عملی تشکیل دیتے۔ حکومت بھی فیصلوں کی پابند ہوتی۔ دنیا کے مختلف مراکز میں بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد کے علاوہ مظفرآباد میں ایک بین الاقوامی پارلیمانی کانفرنس بھی زیر تجویز تھی۔ اسی طرح دنیا بھر کے اہلِ دانش کو مسئلہ کشمیر کی آگاہی کے علاوہ حکومتِ پاکستان اور اس کے پالیسی ساز اداروں کو اجتماعی دباؤ سے تحریکی مقاصد سے ہم آہنگ رکھنا بھی ایک ہدف تھا، لیکن جب جماعت اسلامی نے فیصلے کی توثیق نہ کی اور پابند کیا کہ ایسے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے تو جماعت کے فیصلے کے مطابق میں نے نہ فالواپ کیا اور نہ حکومت سے کوئی رابطہ رکھا، ورنہ ہم اس تدبیر سے یقیناً کچھ پیش رفت کرتے۔ اس لیے یہ اطلاعات غلط ہیں کہ میں حکومت کا اتحادی ہوں۔ میری کوئی اتحادی حکومت نہیں اور نہ اس کی کشمیر کے حوالے سے کارکردگی بیان کرنے کی کسی پوزیشن میں ہوں۔

وزیراعظم آزاد کشمیر نیا فرد ہے جس کا زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے۔ البتہ سید علی گیلانی اور جماعت اسلامی کے کردار کی ہمیشہ تحسین کرتے ہیں۔ ان کا آزاد کشمیر یونیورسٹی سید علی گیلانی کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے۔