جامعہ پشاور میں ہڑتال کا دوسرا مہینہ

جامعہ پشاور میں اساتذہ،کلاس تھری، کلاس فور اور سینیٹری ورکرزکی نمائندہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جیک)کے زیر اہتمام 7مارچ سے جاری احتجاج اور بائیکاٹ کو ڈیڑھ ماہ مکمل ہونے کے باوجود نہ تو اس احتجاج کے خاتمے کے آثار نظر آرہے ہیں اور نہ ہی فریقین اپنے اپنے مؤقف میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہڑتال کی طوالت کے پیش نظر نیز طلبہ کے قیمتی تعلیمی وقت کے ضیاع پر جامعہ کے وائس چانسلر نے ریٹائرڈ اساتذہ، سابق طلبہ اور پی ایچ ڈی اسکالرز کے ذریعے یونیورسٹی کے 16 شعبہ جات میں عارضی انتظام کے تحت کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، البتہ ’جیک‘ نے اس عمل کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جیک کے ترجمان ڈاکٹر محمد عزیر نے کہا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور وہ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل وی سی کے اس قسم کے بیانات کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا، غلط فہمی پیدا کرنا اور ملازمین پر دباؤ بڑھانا ہے۔ انہوں نے کلاسز کے بائیکاٹ کے حوالے سے کہا کہ اساتذہ نہیں چاہتے کہ طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو، تاہم انہوں نے کہا کہ جب کلاسز بحال ہوجائیں گی تو وہ اضافی کلاسز لے کر اس کمی کو پورا کردیں گے۔ ڈاکٹر عزیر نے کہا کہ ہڑتال کرنے والے اساتذہ کسی بھی قیمت پر وائس چانسلر کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں وی سی کی کسی بات پر اعتبار نہیں ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ پہلے وی سی ہوں گے جن کو یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کے نتیجے میں ہٹایا جائے گا۔

اساتذہ کے ردعمل کا جواب دیتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے کہا کہ یونیورسٹی میں رضاکارانہ تدریسی خدمات دینے والوں کو ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت لایا جارہا ہے اور معیارِ تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، ہڑتال کرنے والے اساتذہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے، ہم انہیں ایسا کرکے دکھا دیں گے، کیوں کہ یہ مزید قابلِ برداشت نہیں ہے کہ طلبہ کا وقت ضائع ہو باوجود اس کے کہ ہم ان سے اتنی بڑی فیس لیتے ہیں اور زیادہ تر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ انہوں نے جیک کی جانب سے یونیورسٹی کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھیرانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس الزام پر حیرت ہورہی ہے، کیوں کہ جب انہوں نے 2020ء میں یونیورسٹی جوائن کی تو اُس وقت بھی یونیورسٹی میں احتجاج اور بائیکاٹ چل رہا تھا۔ یونیورسٹی کے پاس اُس وقت تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں تھے۔ یونیورسٹی پر 769 ملین کا قرضہ تھا۔ پچھلے دو ڈھائی سالوں کے دوران انہوں نے جو اقدامات کیے اس کی بدولت یونیورسٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی۔ نتیجتاً اچھی پرفارمنس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کو خصوصی گرانٹس دیں۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے کہا کہ وہ ایک باقاعدہ طریقہ کار سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں، لہٰذا چند اساتذہ کے احتجاج اور خواہش پر وہ مستعفی نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہڑتالی اساتذہ کے الزامات اور مطالبات کے نتیجے میں انہوں نے 169 صفحات پر مشتمل جواب لکھا ہے، جس کی گورنر نے توثیق کی ہے۔

واضح رہے کہ پشاور یونیورسٹی میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری ہڑتال کا آغاز 5مارچ کو یونیورسٹی میں سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں سیکورٹی ایڈوائزر ثقلین بنگش کے قتل کے واقعے سے ہوا تھا۔ ہڑتال کے متعلق جیک کا مؤقف ہے کہ سیکورٹی ایڈوائزرکے قتل کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں ملازمت پر مامور گارڈز کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی ’سگما‘ کے گارڈز ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ان کی بات کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔ اس معاملے کے بارے میں وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ جیک کے ذمہ داران کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد متفقہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ نجی کمپنی کے سیکورٹی گارڈز ہٹاکر پشاور یونیورسٹی خود نئے گارڈز رکھنے کی مجاز ہوگی۔ واضح رہے کہ ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے ایک پرائیویٹ اہلکار کے اسی کمپنی کے ایک اہلکار کے ہاتھوں قتل کے اس واقعے کو بھی حادثہ قرار دیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مذکورہ سپروائزر سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں سے پستول گر کر غلطی سے چل جانے کے باعث جاں بحق ہوا ہے اور اس سے پہلے سپروائزر اور مذکورہ گارڈ کے درمیان کوئی اَن بن یا تُوتُو مَیں مَیں رپورٹ نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس مؤقف پریقین کرنے میں کوئی دوآراء نہیں ہیں کہ سپروائزرکی موت حادثے کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح اس واقعے پر شدید ترین احتجاج اور ڈیڑھ ماہ سے تعلیمی نظام کے تعطل اور سیکورٹی سپروائزر کی ہلاکت میں بظاہرکوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ مذکورہ سپروائزر نہ تو یونیورسٹی کی فیکلٹی میں سے تھے اور نہ ہی وہ ان دنوں یونیورسٹی میں کسی اور انتظامی عہدے پرکام کررہے تھے، لہٰذا ان کے حادثاتی قتل کو جواز بناکر ڈیڑھ مہینے سے پوری یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ درجنوں کالجوں اور شعبہ جات کی مسلسل بندش اور اس پر یونیورسٹی اساتذہ اور دیگر تنظیموں کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب کہ اس واقعے کے برعکس دوماہ قبل اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ایک سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں شعبہ انگریزی کے ایک جواں سال پروفیسر شبیر احمد کے قتل پر نہ صرف اسلامیہ کالج یونیورسٹی بلکہ پشاور یونیورسٹی کی اساتذہ تنظیموں نے محض اس وجہ سے خاموشی اختیارکررکھی ہے کہ مبینہ طور پر پروفیسر شبیر احمدکا تعلق مخالف سیاسی گروپ سے تھا۔ جب کہ اپنے ہی فیکلٹی ممبر کے قتل کے برعکس ایک پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے سپروائزر کے قتل پر یہ تنظیمیں نہ صرف احتجاج کررہی ہیں بلکہ وائس چانسلر سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کررہی ہیں جس کی وجہ سوایے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ مذکورہ سپروائزر کا پشاور یونیورسٹی میں طویل ملازمت کے دوران تعلق ایک مخصوص سیاسی گروپ سے رہا تھا، اور اب وہی گروپ اس واقعے کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس کا جاری ہڑتال کے بارے میں کہنا ہے کہ انہوں نے جب سے اساتذہ کے ہاؤس الاؤنس میں کٹوتی کی ہے اور اساتذہ کے بچوں کو پشاور یونیورسٹی کے تعلیمی اداروں میں مفت کے بجائے 20 فیصد ادائیگی پر پڑھانے کی بات کی ہے تب سے ان کی مخالفت کی جاری ہے۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ سیکورٹی گارڈز فراہم کرنے والی جس کمپنی کے لیے ان کو مورد الزام ٹھیرایا جا رہا ہے، اس کمپنی کو انہوں نے ہائر نہیں کیا تھا بلکہ کیمپس پولیس نے چھے مختلف کمپنیوں کا ٹیسٹ لے کر اس کمپنی سگما کا انتخاب کیا تھا۔ سگما کا معاہدہ 15 مارچ کو ختم ہوگیا ہے اور یونیورسٹی کی سیکورٹی کا چارج اس وقت کیمپس پولیس نے سنبھالا ہوا ہے۔ اس سوال پر کہ انہوں نے سیکورٹی گارڈز کے لیے حالیہ واقعے کے بعد ایک نفسیاتی ٹیسٹ کا اعلامیہ جاری کیا تھا، اس پر عمل درآمد کیوں نہ ہوسکا؟ تو انہوں نے بتایاکہ چونکہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہوگیا ہے اس لیے اس کی ضرورت پیش نہیں آئی، کسی بھی کمپنی کے ساتھ معاہدے کا حق کیمپس پولیس کے پاس ہے، اور یہ دیکھنا بھی کہ گارڈز درکار قواعد کے مطابق ہیں یا نہیں، یہ مینڈیٹ بھی کیمپس پولیس کا ہے۔

وی سی پشاور یونیورسٹی نے کہا کہ یونیورسٹی میں تقریباً پانچ سو فیکلٹی ممبرز ہیں جن کے چار ہزار بچے پشاور یونیورسٹی کے مختلف اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان اساتذہ کو گھر، گاڑی، موبائل، دفتر کی مد میں الاؤنس ملتے ہیں۔ یونیورسٹی کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے جب اساتذہ کے ہاؤس الاؤنس میں کٹوتی اور اساتذہ کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بیس فیصد ادائیگی کی بات ہوئی ہے تب سے ان کی مخالفت کی فضا بن گئی ہے۔ڈاکٹر ادریس نے کہا کہ پشاور یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ پانچ ارب روپے ہے۔ یونیورسٹی اساتذہ کے بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم حتیٰ کہ بغیر میرٹ داخلوں اور چھٹیوں میں بھی ٹرانسپورٹ الاؤنس دینے اور مرنے کے بعد قبر کے پھولوں تک کا خرچہ برداشت کرتی ہے۔ اساتذہ بدلے میں کیا دیتے ہیں، صرف احتجاج اور بائیکاٹ۔وائس چانسلر نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ان کے دروازے اب بھی کھلے ہیں لیکن وہ کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے کہا کہ دراصل جو اساتذہ ان کی مخالفت کررہے ہیں وہ انہیں یونیورسٹی کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے پوشیدہ ثمرات و مراعات حاصل کرنے والے اساتذہ پر ضرب لگ رہی تھی۔

وائس چانسلر کے مؤقف کے جواب میں پیوٹااور جیک کے سربراہ ڈاکٹر عزیر نے پشاور یونیورسٹی میں موجودہ بگاڑ کا سبب موجودہ وائس چانسلرکوقراردیتے ہوئے ان کے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاہے۔ بقول ان کے وہ یونیورسٹی کو ایڈہاک ازم کی جانب لے گئے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ اگر وی سی کو ہٹادیا گیا تو حالات بہترین ہوجائیں گے۔ڈاکٹر عزیر نے وائس چانسلر کے الزامات کورد کرتے ہوئے کہاکہ نہ تو کبھی اساتذہ کے بچے مکمل مفت تعلیم حاصل کر رہے تھے اور نہ ہی تمام اساتذہ کے بچے جامعہ پشاور یا اس سے منسلک اداروں میں پڑھتے ہیں۔انہوںنے اس بات کی بھی تردید کی کہ تمام اساتذہ کو گھر، گاڑی، دفتر اور موبائل وغیرہ کا الاؤنس ملتا ہے۔ڈاکٹر عزیر نے کہا ہے کہ اساتذہ کے بچوں کو میرٹ کے بغیر داخلہ ملنے کی بات میں بھی صداقت نہیں ہے۔دراصل یونیورسٹی میں مختلف کوٹے ہیں اور ان کی اپنی میرٹ لسٹ ہوتی ہے۔ اساتذہ کے بچوں کو ایمپلائز کوٹہ کے میرٹ لسٹ پر سلیکٹ کیا جاتا ہے۔پیوٹا صدر نے مزید بتایا کہ وی سی کا یہ بیان کہ انہیں چھٹیوں میں بھی کنونس الاؤنس ملتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کے برعکس یونیورسٹی اساتذہ کے دفاتر چھٹیوں میں بھی کھلے رہتے ہیں۔کبھی طلبہ اور اساتذہ تھیسز ریسرچ پر کام کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی ڈپارٹمنٹ کے دیگر کام ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیر نے بتایا کہ وائس چانسلر کی یہ بات بھی درست نہیں کہ سگما یا کسی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ کی ہائرنگ ان کا نہیں بلکہ کیمپس پولیس کا کام ہے۔ دراصل گریڈ ایک سے 16 تک سیکورٹی گارڈز کی بھرتی کا اختیار براہِ راست وی سی کے پاس ہے۔

دریں اثناء اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی کی مسلسل بندش اور اساتذہ کی ہڑتال کے خلاف داخل رٹ پٹیشن کی ابتدائی سماعت پشاورہائی کورٹ کے دورکنی بینچ نے کی جوکہ جسٹس اعجاز انور اور جسٹس شکیل احمدپرمشتمل تھا۔ عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل، درخواست گزاروں کے وکیل، جامعہ کے لیگل آفیسر ریاض پیش ہوئے۔دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کوبتایاکہ ہڑتال کے باعث طلبہ کا وقت ضائع ہورہا ہے،طلبہ کو گزشتہ دوماہ سے شدید مسائل کا سامنا ہے،فیسیں لی جارہی ہیں اور پڑھائی نہیں ہورہی، سارا مسئلہ پیوٹا ہال کا ہے۔ پیوٹا والے ہال جامعہ کو دینے کے لیے تیار نہیں،پیوٹا ہال سے متعلق عدالتی احکامات بھی موجود ہیں۔دلائل سننے کے بعد عدالت نے وائس چانسلر،ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر ایسوسی ایشنز کے صدور کوطلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20اپریل تک ملتوی کردی ہے۔