سندھ کو بدعنوان عناصر اور ڈاکوئوں نے یرغمال بنا رکھا ہے

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا دورۂ جیکب آباد وسکھر

جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد کی ساری ٹیم اپنے امیر ضلع جواں سال دیدار علی لاشاری کی زیر قیادت بے حد متحرک اور فعال ہے۔ ایک طرف ضلع کے مختلف مقامات پر نئی مساجد، تحریکی مدارس اور دفاتر کی تعمیر و توسیع کا کام جاری ہے، تو دوسری طرف تحریکی سرگرمیاں اور پروگرامات بھی باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ منعقد کیے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد اور شہر کے نئے دفاتر، مسجد نورایمان کی ازسرِنو خوب صورت تعمیر، اور مستقبل میں مہمان خانہ، آغوش سینٹر اور الخدمت اسپتال کی تعمیر کے حوالے سے بھی منصوبے اور ان پر عمل درآمد کے سلسلے میں کام جاری ہے جو اِن شاء اللہ امیر ضلع دیدار علی لاشاری اور ان کی ٹیم کے ارکان اور ذمہ داران ہدایت اللہ رند، ڈاکٹر عبدالرشید وہاب میمن، امداد اللہ بجارانی، عبدالرسول پٹھان، مشتاق لغاری، ابوبکر سومرو، غلام حیدر پیرزادہ، صادق ملغانی، اصغر مہر اور عبدالصمد کٹبر کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہوگا۔ بروز جمعرات 13 اپریل کو جیکب آباد کے مشہور وش میرج ہال میں معززینِ شہر کے اعزاز میں ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمانِ خاص امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق تھے۔ ان کے ہمراہ نائب امراء صوبۂ سندھ پروفیسر قمر میمن، ممتاز حسین سہتو، ڈپٹی جنرل سیکرٹری عبدالحفیظ بجارانی، ناظم جمعیت اتحاد العلماء صوبہ سندھ مولانا حزب اللہ جکھرو، قیم صوبہ کاشف سعید شیخ تشریف لائے تھے۔ پروگرام اپنے مقررہ وقت پر بعد نمازِ عصر شروع ہوا جس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض امیر ضلع نے سرانجام دیے۔ اس موقع پر وسیع و عریض میرج ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر طبقۂ فکر اور شعبۂ زندگی کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے دورانِ خطاب عبدالحفیظ بجارانی ڈپٹی قیم سندھ نے کہا کہ اللہ نے رمضان کی صورت میں ہم پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ مغفرت اور بخشش کا مہینہ ہے۔ نائب امیر صوبہ ممتاز حسین سہتو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ لوگ بے حد خوش نصیب ہیں جو اپنی مختصر زندگی کی مہلت کا فائدہ اٹھاکر ایسے کام کرتے ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کا سبب ہیں۔ اس ماہِ مقدس میں ہر نیکی اور عبادت کا اجر بے حد و بے حساب ملتا ہے۔ قیم صوبہ کاشف سعید شیخ نے اپنے خطاب میں رمضان کی فضیلت پر روشنی ڈالی۔

دریں اثنا باہر سے تشریف لانے والے تمام معزز مہمانانِ گرامی کو سندھ کا روایتی تحفہ اجرک اور سندھی ٹوپی پیش کی گئی۔ پروگرام میں جب مہمانِ خاص امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو دعوتِ خطاب دی گئی تو سارا ہال فلک شگاف نعرہ ہائے تکبیر اللہ اکبر اور ’’میری جان جماعت اسلامی‘‘، ’’ویل کم ویل کم سراج الحق ویل کم‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جناب سراج الحق نے اپنی تقریر کا آغاز تعوذ و تسمیہ سے کرنے کے بعد معزز مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب بے حد خوش نصیب اور خوش بخت ہیں کہ اللہ نے ایک مرتبہ پھر ہمیں ہماری زندگی میں ماہِ مقدس ماہِ رمضان عطا کیا ہے، اور خوش بخت ترین ہیں وہ مرد و خواتین جو اس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں ہمارا یہ ملک بھی اسی مقدس ماہ میں تحفے کی صورت میں عطا کیا تھا، لیکن افسوس کہ برسراقتدار رہنے والوں نے اس عظیم تحفے کی قدر نہیں کی جس کی وجہ سے آج سارے ملک میں اضطراب اور انتشار ہے، ہر سو بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری کے ڈیرے ہیں۔ ایک عام فرد کی زندگی مشکلات کی بنا پر عذاب بن چکی ہے لیکن وسائل سے مالامال ہمارے ملک کو کبھی اہل اور دیانت دار حکمران نہیں ملے۔ آئین شکنی اور قانون شکنی حکمران طبقے کا ہمیشہ سے شعار چلا آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے سیاسی جماعتوں میں باہم مذاکرات کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح الیکشن کا تسلسل سے انعقاد بھی ناگزیر ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اسی طرح سے آپس میں لڑتی بھڑتی رہیں تو اس کا فائدہ ہمیشہ کی طرح تیسری قوت اٹھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا چیف جسٹس فل کورٹ تشکیل دیتے، لیکن انہوں نے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ازخود نوٹس لے کر خود ہی کو مشکل میں ڈال لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادارے تنازعات کا شکار ہیں اور اقتدار کی رسّاکشی میں مصروف جماعتوں کو عوام کے مسائل کے حل میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، جو آٹے کی لائنوں میں کھڑے ہوکر کچلے جانے سے اپنی قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں، حالانکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، اس میں تو اناج کی قلت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ جس ملک اور معاشرے میں انصاف اور قانون کی عمل داری نہ ہو وہ تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے اور آج ہماری بھی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ ہمارا ملک نازک ترین صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔ ہم نے مولانا ہدایت الرحمٰن کی جرمِ بے گناہی میں اسیری کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کردی ہے اور امید ہے کہ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے روحِ رواں کو انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں متاثرینِ سیلاب تاحال رو رہے ہیں۔ یہ صوبہ بدامنی اور دیگر مسائل کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عوام پریشان اور بدحال ہوچکے ہیں۔ صوبے میں انفرااسٹرکچر ہے اور نہ ہی دیگر بنیادی سہولیات۔ 80 فیصد اہلِ صوبہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ 15 برس سے سندھ پر حکمران پی پی کی قیادت کو صرف ووٹ لینے سے غرض ہوتی ہے، اُسے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دل چسپی ہوتی تو آج سندھ اور اہلِ سندھ کا اتنا زیادہ برا حال نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں سیلاب متاثرین کی جتنی زیادہ خدمت ہم نے کی ہے وہ کسی اور نے نہیں کی۔ متاثرہ کنبوں کو راشن، علاج، رہائش کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ خدمت کا یہ کام ابھی جاری ہے اور جاری رہے گا اِن شاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی دوسری مروجہ سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف ہے، ہماری جماعت محض نعروں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارا کام فرد اور معاشرے کو تبدیل کرکے اقامتِ دین کی سعی کرنا ہے۔ دورِ فساد میں جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت زندہ کی اُسے 100 شہدا کا اجر و ثواب ملے گا۔

دو روزہ دورۂ سندھ کے پہلے روز جیکب آباد آمد سے قبل امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے رحیم یار خان میں سحری کے موقع پر بھی نوجوانوں کے ایک بڑے اجتماع اور مقامی قیادت سے دورانِ خطاب کہا کہ اگر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو مقتدرہ قوتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ سب مفاد پرست جماعتیں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کا حال بھی شام اور عراق کی طرح ابتر ہوجائے۔ اللہ نے ہمیں موقع دیا تو ہم عدالتوں میں قرآن کا نظام لائیں گے اور عوام کو بنیادی سہولیات گھر بیٹھے میسر آئیں گی۔

دریں اثنا جیکب آباد میں صحافیوں سے دورانِ گفتگو انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کی جان، مال، عزت اور آبرو دائو پر لگی ہوئی ہے۔ سندھ کو بدعنوان عناصر اور ڈاکوئوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ کچے میں نام نہاد آپریشن جاری ہے۔ جب تک اصل ذمہ داروں کو گرفتار کرکے سزائیں نہیںٖ ملیں گے اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ آئی بی اے کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کو شعور اور علم پھیلانے کی سزا کے طور پر جرمِ بے گناہی میں قتل کیا گیا۔ مقتول کے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سیلاب متاثرین میں اربوں روپے کی امداد تقسیم کی، کہیں بھی کوئی بدنظمی ہوئی نہ کوئی شکایت سامنے آئی۔ عوام کو عزت اور احترام کے ساتھ امانت دی گئی۔ دوسری طرف آٹے کی تقسیم حکومت کے زیراہتمام ہو تو ہر روز لوگوں کے زخمی ہونے یا مرنے کی الم ناک خبریں ملتی ہیں۔ صرف سندھ کے ایک ضلع کشمور میں 25 مغوی ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں جس سے بڑھتی ہوئی بدامنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دوسرے روز 14 اپریل کو سکھر میں منعقدہ عوامی افطار پارٹی سے دورانِ خطاب سراج الحق نے کہا کہ معاشی مشکلات کے حل کے لیے سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور اسلامی نظام کو ہر شعبۂ حیات میں نافذ کرنا ہوگا۔ سندھ میں وڈیروں نے اپنی نجی جیلیں بناکر عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے جہاں لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ صوبائی حکومت نے متاثرینِ سیلاب کے ساتھ ظلم کیا ہے اور کسی کو امداد نہیں دی گئی۔ فصلیں اجڑ گئی ہیں اور کسان در بدر ہوچکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بڑے پیمانے پر کھاد اور امداد دی ہے۔ اربوں روپے کہاں گئے؟ کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔ ہم برسراقتدار آکر بے لاگ نظامِ احتساب نافذ کریں گے۔ یکم مئی سے اہلِ بلوچستان کو حقوق دلانے کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کریں گے اور اسی روز میں خود گوادر میں احتجاجی جلسے سے خطاب کروں گا۔ اس موقع پر امیر ضلع سکھر سلطان احمد لاشاری ایڈووکیٹ، ممتاز حسین سہتو، زبیر حفیظ شیخ، علامہ حزب اللہ جکھرو نے بھی خطاب کیا۔

دریں اثناء سراج الحق دیگر رہنمائوں کے ساتھ گزشتہ دنوں جرم بے گناہی میں قتل ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کے اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیت کے لیے ان کے گھر بھی گئے اور مقتول کے بچے کو گود میں اٹھا کر پیار کیا۔ وہ علامہ حزب اللہ جکھرو اور امیر ضلع لاڑکانہ قاری زبیر جکھرو کی ہمشیرہ کے انتقال پر بھی اظہارِ تعزیت کے لیے ان کے گائوں دڑی جاکھرو تشریف لے گئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سکھر میں میڈیا سے بھی ملک کی صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے باگڑجی سکھر میں مدرسہ نورالہدیٰ عربیہ اسلامیہ کا دورہ بھی کیا جہاں مہتمم مدرسہ حافظ میر ہزار لاشاری اور دیگر ذمہ داران نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے جامع مسجد رحمانیہ مدرسہ نورالہدیٰ عربیہ اسلامیہ باگڑجی میں جمعہ کا خطبہ بھی دیا۔ انہوں نے مدرسہ اور مسجد کا معائنہ کیا اور انتظامات، صفائی ستھرائی کو سراہا۔ ان کے ہمراہ امیر ضلع سکھر سلطان احمد لاشاری، علامہ حزب اللہ جکھرو اور دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔ بعدازاں وہ دورے کے بعد واپس لاہور تشریف لے گئے۔