جناب پروفیسر مشیرالحق فاروقی

قدیم و جدید کے خوشگوار اور متوازن امتزاج کی دلکش مثال

(وفات: 10 اپریل 1990ء)

دارالمصنفین اور پوری علمی دنیا میں جناب پروفیسر مشیرالحق مرحوم وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی کے سانحہ قتل کی خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ سنی گئی، ان کو یرغمال بنائے جانے کی خبر ہی باعثِ تشویش اور اضطراب تھی، لیکن یہ امید نہ تھی کہ ایک حلیم الطبع، نرم، شائستہ و شگفتہ مزاج انسان کے خرمنِ ہستی کو آتشِ چنار اس طرح جلاکر خاک کردے گی۔

ان کی زندگی ماہ و سال کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں ہے لیکن محنت، صبر، استقلال، عزم اور مقصد کی یافت کے لحاظ سے یہ حیاتِ مختصر بڑی قابلِ قدر اور قابلِ رشک رہی۔ ان کے علمی سفر کا آغاز دارالعلوم ندوۃ العلماء کی طالب علمی سے اور اختتام کشمیر یونیورسٹی کی وائس چانسلری پر ہوا، حق یہ ہے کہ قدیم و جدید کے خوشگوار اور متوازن امتزاج کی یہ دلکش مثال ہے۔

وہ غازی پور یوپی کے قصبہ بحری آباد میں پیدا ہوئے، کم عمری میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے، تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ آئے، یہاں سے عالمیت کی سند لی، انھوں نے انگریزی تعلیم پر بھی توجہ کی اور بڑے نامساعد حالات اور سخت معاشی پریشانیوں کے باوجود علم و فن کی تحصیل جاری رکھی۔ ان کے علمی شوق و ذوق کو ان کے محبوب و مشفق استاذ مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کبھی کم نہ ہونے دیتی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے اور علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، 1961ء میں انھوں نے کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی۔ دورانِ تعلیم ان کے قلب و نظر پر مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر سید عابد حسین اور پروفیسر الفریڈ کینٹویل اسمتھ کے نقوش خاص طور پر مرتسم ہوئے۔

پٹیالہ اور مسلم یونیورسٹی میں کچھ عرصے تک تدریسی ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامیات و عرب ایرانین اسٹڈیز کے صدر ہوئے۔1987ء میں کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔

ان کی زندگی کا زیادہ حصہ درس و تدریس میں گزرا، لیکن اس کے باوجود تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے تھے۔ شروع میں انھوں نے مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم کی زیرنگرانی بچوں کے لیے صحابہ کرامؓ کے حالات بڑے موثر انداز میں تحریر کیے تھے جو ادارۂ تعلیماتِ اسلام لکھنؤ سے شائع ہوئے، یہیں سے 1948ء میں مولانا قدوائی مرحوم نے پندرہ روز تعمیر جاری کیا، جس کے مدیروں میں ان کے اور مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کے علاوہ مشیر صاحب کا نام بھی تھا جس میں وہ مضامین کے علاوہ افسانے بھی لکھتے تھے۔ جامعہ ملیہ اور پھر میک گل یونیورسٹی نے ان کے فکر و نظر کو مزید وسعت دی، 1972ء میں ان کی کتاب ’امریکہ کے کالے مسلمان‘ شائع ہوئی جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے موضوع پر اردو میں پہلی کتاب تھی، 1973ء میں ان کی ایک اور کتاب ’مسلمان اور سیکولر ہندوستان‘ شائع ہوئی، اس میں مذاہب، سیکولرازم، دینی تعلیم، دینی رہنمائی، قانون اور شریعت جیسے موضوعات پر انھوں نے دعوتِ غور و فکر دی ہے، لیکن اس میں ظاہر کیے گئے بعض خیالات سے سنجیدہ علمی و دینی حلقوں کو اختلاف رہا۔ 1974ء میں ’مذہب اور جدید ذہن‘ کے نام سے جب ان کے چند مضامین کا ایک مجموعہ طبع ہوا تو اس سے بھی اصحاب علم و دین نے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا۔ وہ بظاہر جمود پسند ذہنوں میں ہلچل پیدا کرنے کے لیے اس قسم کے مضامین لکھتے تھے، لیکن اہلِ علم ان کے ضرر رساں پہلوئوں کو بھانپ لیتے تھے۔ ان کو بھی معروضیت میں غلو تھا۔ سیمیناروں میں ان کی موجودگی ضروری خیال کی جاتی، ان کے مقالوں پر مباحثہ و مناقشہ زیادہ ہوتا، لیکن وہ اپنے خیالات کو تسلیم کیے جانے پر کبھی اصرار نہیں کرتے اور اپنے نرم لہجے، متبسم چہرے اور کسی تیکھے جملے سے مجلس میں جان پیدا کردیتے۔

1982ء میں دارالمصنفین میں ہونے والے مستشرقین پر بین الاقوامی سیمینار میں وہ بھی شریک ہوئے اور اپنے استاد اور مشہور مستشرق کینٹویل اسمتھ کے حالات میں ایک مقالہ پڑھا، جس پر خاصی بحث ہوئی۔ جناب سید صباح الدین عبدالرحمٰن مرحوم نے سیمینار کی روداد میں ان کے متعلق بڑی محبت سے لکھا کہ ’’ڈاکٹر مشیرالحق ندوی ابھی جوان ہیں، ان کی مقالہ نگاری میں جوانی کی ساری ترنگیں اور امنگیں ہوتی ہیں‘‘۔

ان کے بعض علمی و مذہبی خیالات محلِ نظر ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی شرافت، مروت، دل نوازی اور نرم خوئی مسلّم تھی، وہ بڑی بے ساختہ اور بے تکلف گفتگو کرتے تھے جس سے نہ عہدہ ومنصب کی بڑائی کا اندازہ ہوتا تھا اور نہ کسی قسم کی رعونت کا اظہار ہوتا تھا۔ دنیوی وجاہت کے مدارج طے کرنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے قدیم بزرگوں اور دوستوں سے ربط و تعلق میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔

غالب اکیڈمی دہلی میں جناب سید صباح الدین عبدالرحمٰن مرحوم کی یاد میں ایک سیمینار ہوا تو اس کی صدارت کے لیے وہ خاص طور پر کشمیر سے آئے اور دن بھر سیمینار کی نشستوں میں موجود رہے۔ دارالمصنفین سے ان کی گہری واقفیت اور غیر معمولی اخلاص و تعلق کا علم اس دن کی ان کی تقریر سے ہوا، جس کی لذت آج تک فراموش نہیں ہوسکی ہے۔

ادھر کشمیر میں سیاسی بے چینی بڑھتی جارہی ہے، کشمیریوں کے ایک طبقے کا عرصے سے یہ احساس ہے کہ

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

مگر اس کے لیے مشیر صاحب کے خونِ ناحق کا وبال لینا سراسر نادانی ہے، حکومتِ کشمیر کا رویہ بھی بعض حلقوں میں مستحسن نہیں سمجھا گیا، ایک قیمتی جان کو بچانے کے لیے جس ذمہ داری کی ضرورت تھی اس کو خاطر خواہ پورا نہیں کیا گیا۔ بہرحال قضا و قدر کا فیصلہ یہی تھا، وہ اب اپنے رب کے حضور میں ہیں، رمضان المبارک کے مہینے میں مظلومیت و بے کسی کے عالم میں انھوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی، اللہ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی اہلیہ، صاحب زادیوں اور دوسرے تمام اعزہ و احباب کو صبر کی توفیق دے، آمین۔ جامعہ ملیہ کے گورغریباں میں ڈاکٹر انصاری مرحوم کی لوح مزار پر کندہ یہ آیت ان کو بہت پسند تھی، کیا عجب آج ان کی قبر سے یہی صدا آتی ہو: یالیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی وجعلنی من المکرمین۔[یٰسین:26۔27]

]سری نگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مشیر الحق فاروقی کی شہادت پر ”معارف“ اعظم گڑھ میں شائع ہونے والا تعزیتی مضمون ان کے یومِ وفات پر شائع کررہے ہیں[