برطانیہ کی بدترین معیشت اور بادشاہ کی رسم تاج پوشی

بادشاہت برطانوی ریاست کی بقا کے لیے اہم ترین

برطانوی معیشت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی دعووں کے برعکس اس کے گہرے اثرات عام آدمی کی زندگی پر مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی معیشتوں کی تنظیم G7 میں برطانیہ اِس وقت کی بدترین معیشت ہے۔ اِس سال برطانوی معیشت کی شرح نمو 0.4 فیصد رہی جوکہ اس گروپ کی بدترین معاشی کارکردگی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا اعزاز بھی برطانیہ سے بھارت نے چھین لیا ہے۔ ہر شعبے کےمزدور اس وقت ہڑتالوں پر ہیں، ابھی بس ڈارئیوروں نے ایک طویل ہڑتال کرکے اپنے مطالبات منوائے ہیں، تو اب جونیئر ڈاکٹر کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں، اور حیرت انگیز طور پر برطانوی ڈاکٹروں کی تنظیم میں شامل 98 فیصد جونیئر ڈاکٹروں نے ہڑتال کے حق میں ووٹ دیا، اور ہڑتال ایسٹر کی چار روزہ تعطیلات کے فوری بعد چار دن کے لیے جاری رہی۔ اس دوران میں برطانیہ کا نظام صحت بہت بری طرح متاثر ہوا اور حکومت کو اس ہڑتال پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نرسوں کی تاریخی ہڑتال کے بعد گوکہ حکومت کے ساتھ نرسوں کے معاملات طے پاگئے تھے لیکن اب نرسوں کے دوسرے گروپ نے تنخواہ میں اس اضافے کو ناکافی قرار دے کر دوبارہ ہڑتال کا اعلان کردیاہے۔ اس ضمن میں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ برطانوی قانون کے مطابق کسی بھی تنظیم کو ہڑتال سے قبل بیلٹ پیپرز کے ذریعے اپنے اراکین کی رائے معلوم کرنی ہوتی ہے، اور اگر 90 فیصد اراکین ہڑتال کے حق میں رائے دیں تو پھر تنظیم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے، اور ہڑتال کے دنوں میں کام نہ کرنے والوں کی تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاتی۔ لہٰذا نہ صرف ایک بہت واضح اکثریت اس عمل کے پیچھے ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی آمدن میں بھی اس جدوجہد کے لیے وقتی کمی برداشت کررہے ہوتے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ہڑتالوں کی بہار ہے اور پاسپورٹ آفس کے عملے سے لے کر نرسوں، اساتذہ، ڈاکٹرز، فائر بریگیڈ عملہ، ایمبولینس سروس عملے تک سب ہی ہڑتال کرچکے ہیں، لیکن اس بدترین معاشی صورت حال کے باوجود بھی اب مزید دو روزہ تعطیلات کا اعلان کردیا گیا ہے اور اس کی وجہ بادشاہ کی رسمِ تاج پوشی ہے جوکہ 6 مئی کو بکنگھم پیلس لندن میں ادا کی جائے گی۔ اس تاج پوشی کی رسم کے حوالے سے تقریبات کا آغاز یکم مئی کو ہوگا جوکہ 6 مئی یومِ تاج پوشی تک جاری رہیں گی۔ اس تاج پوشی اور تعطیل کی مد میں برطانیہ کو مزید معاشی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک اندازے کے مطابق رسمِ تاج پوشی کی تقریب پر 100 ملین برطانوی پائونڈ لاگت آئے گی، جبکہ تعطیل کی وجہ سے برطانوی معیشت کو ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس سے قبل بھی اسی بدترین معاشی صورت حال میں ملکہ برطانیہ کے انتقال کے بعد اُن کی آخری رسومات، دس دن کے سرکاری سوگ اور عام تعطیل کی مد میں برطانوی معیشت 2.6 ارب برطانوی پائونڈ کا بوجھ برداشت کرچکی ہے۔

اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برطانوی بادشاہت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ صرف اپنے اقتدار کی تبدیلی کے لیے عوام پر معاشی مشکل کی اس گھڑی میں مزید بوجھ ڈالنا چاہتی ہے؟

کیا برطانوی پارلیمان محض ایک کٹھ پُتلی ہے؟ یا دنیا بھر کے بہترین ماہرینِ معاشیات کیوں حکومت کو اس خسارے سے باز رہنے کا مشورہ نہیں دے رہے؟

کیوں دنیا بھر میں آزاد سمجھا جانے والا برطانوی میڈیا اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا؟

اس کے برعکس حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ملکہ برطانیہ کے انتقال سے لے کر اُن کی آخری رسومات کی ادائیگی تک تمام برطانوی میڈیا بشمول اخبارات کی روزانہ سرورق کی خبر ملکہ، اُن کی آخری رسومات اور اُن کا دورِ اقتدار رہا۔ اس کے علاؤہ تقریباً تمام ہی اخبارات نے ان دس دنوں میں کوئی اشتہار بطور سوگ شائع نہیں کیا۔

برطانیہ میں میڈیا، پارلیمان، اسٹیبلشمنٹ اور چرچ اس بات پر یکسو ہیں کہ دراصل بادشاہ کا ادارہ ہی برطانیہ کو یکجا رکھ سکتا ہے، لہٰذا اس کو دورِ جدید میں بھی کسی نہ کسی طور پر ایک ایسے ادارے کے طور پر زندہ رکھا جانا ضروری ہے جو اس مملکت کی بقا اور اس کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا رہے۔ ہر قوم و ملک کسی نہ کسی قوت کے زیراثر اپنی بقا کو یقینی بناتے ہیں۔ دنیا میں جہاں اب نظریاتی ریاستوں کی شکست وریخت ہورہی ہے وہیں غیر نظریاتی ریاستیں بھی اپنی بقا کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس کی واضح مثال خود برطانیہ ہے جہاں دو طرف سے علیحدگی کا طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی جانب سے علیحدگی کے ریفرنڈم کو تو بظاہر برطانوی سپریم کورٹ نے روک دیا لیکن سبکدوش ہونے والی فرسٹ منسٹر نیکولا سرجنٹ نے آئندہ آنے والے انتخابات کو ہی ریفرنڈم قرار دے دیا ہے۔ اب جبکہ اُن کی جگہ اُن ہی کی پارٹی کے مسلمان نوجوان حمزہ یوسف بطور فرسٹ منسٹر اپنا منصب سنبھال چکے ہیں اور آتے ہی انہوں نے انہی عزائم کا اعادہ کیا ہے۔ دوسری جانب آئرلینڈ کی جانب سے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے بعد سے صورتِ حال سخت کشیدہ ہے۔ دونوں ریاستوں اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے عوام کی اکثریت نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا لیکن انگلینڈ اور ویلز کے عوام کی اکثریت کا ووٹ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں تھا، لہٰذا مجموعی طور پر یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ تو ہوگیا لیکن اس پر عمل درآمد کرتے کرتے دو وزرائے اعظم چلے گئے۔ تاحال صورت حال اب بھی وہی ہے، یعنی اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی حکومتیں یورپی یونین سے الحاق کی حامی ہیں کیونکہ ان کی براہِ راست تجارت کا زیادہ تعلق یورپی یونین سے ہے۔ شمالی آئرلینڈ جوکہ جزیرہ آئرلینڈ کا ایک حصہ ہے اور کلی طور پر برطانیہ کی زمینی حدود سے الگ جزیرے پر قائم ہے، وہاں کی تجارت براہِ راست یورپ کے زیراثر ہے کیونکہ اس جزیرے میں شامل دونوں ممالک ری پبلک آئرلینڈ (آزاد ملک) اور شمالی آئرلینڈ (برطانیہ کا حصہ) یورپ سے سمندری تجارت کے ذریعے بآسانی زیادہ نفع کما سکتے ہیں۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بالآخر برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اس سال ماہِ فروری میں شمالی آئرلینڈ و یورپی یونین کے مابین آزاد تجارت کا معاہدہ کیا ہے جوکہ ونڈسر ڈیل یا ایگریمنٹ کہلاتا ہے۔ یاد رہے کہ بکنگھم پیلس کے بعد برطانوی شاہی خاندان کا اصل محل ونڈسر ہی ہے، یعنی یہ ڈیل بادشاہِ برطانیہ کی جانب سے آئرلینڈ کے عوام کے لیے ہے۔ اس تمہید کا اصل مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ جدید دور میں بھی برطانیہ یہ سمجھتا ہے کہ کثیرالقومی و لسانی گروہوں کو اگر کوئی چیز متحد رکھ سکتی ہے تو وہ برطانوی بادشاہت ہے۔ اس ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہوگا کہ علیحدگی پسند اسکاٹ لینڈ کے عوام کے دل جیتنے کے لیے ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے اپنے آخری ایام زندگی کے لیے بارلی مور محل اسکاٹ لینڈ کا انتخاب کیا، اور ان کی اس محل میں وفات کے بعد کے مناظر اس بات کا ثبوت ہیں کہ علیحدگی پسندوں کے لیے بھی ملکہ برطانیہ یا شاہی خاندان کی حیثیت مسلمہ ہے، یا ان کے دل میں ان کے لیے ہمدردانہ جذبات ہیں۔

بنیادی طور پر ریاست برطانیہ کی اصل، بادشاہت اور کلیسا تھا کہ جس کے بل بوتے پر برطانیہ نے تقریباً آدھی دنیا پر حکمرانی کی، اور دوسری جنگ ِعظیم کے بعد بتدریج ریاست کی سکڑتی ہوئی جغرافیائی حدود کے باوجود دولتِ مشترکہ کی بنیاد پر ملکہ و شاہی خاندان سے وفاداری کا ایک باقاعدہ نظام مرتب کیا گیا تاکہ آزاد ریاستوں کو بھی شاہی خاندان کا ایک طرح سے تابع بنایا جائے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، لیکن اب جبکہ خود موجودہ برطانوی ریاست کی بقا کو شدید خطرات درپیش ہیں تو آج بھی شاہی خاندان سے وفاداری کی بناء پر برطانیہ کو متحد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ محض ایک علامت نہیں بلکہ ہر ریاست کے لیے پیغام ہے کہ جہاں کسی نہ کسی طور پر کوئی خلفشار جاری ہے کہ ریاست کو متحد کرنے کی اصل، اس کی بنیاد ہے۔ اگر اس سے سرمو انحراف کیا جائے گا تو پھر اس کے تار وپود بکھر جاتے ہیں اور کوئی دوسری طاقت اس کو برقرار نہیں رکھ پاتی۔ دوسری جانب ریاست کی جانب سے علیحدگی پسندوں کو بندوق کے زور پر فتح کرنے کے بجائے اُن کے دل جیتنے، اُن کی مشکلات کا حل نکالنے اور اُن کو ریاست کا ایک اہم شہری تصور کیے جانے کے لیے ریاست اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں دنیا بادشاہت سے آزاد ہوچکی ہے وہیں برطانیہ میں بادشاہت کو بطور ادارہ برقرار رکھنے اور اس کے اثرات کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے میڈیا، تعلیم اور سیاست ہر سمت میں ریاستی پیش قدمی جاری ہے۔ یہ ہر اُس ریاست کے لیے سبق ہے جو جدیدیت کی بدولت اپنی بنیاد کو فراموش کرکے اپنی بقا کہیں اور تلاش کررہی ہے۔