بھارت کی یہ سرگرمی کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو بین الاقوامی جوازاور سند دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے
جی ٹوئنٹی ملکوں کی اکثریت اُن مغربی ملکوں پر مشتمل ہے جو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ ان ملکوں نے دنیا میں ہر جگہ جمہوریت، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کا سبق پڑھانے اور سودا بیچنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جب بھی انہیں کسی ناپسندیدہ ملک میں ان آزادیوں پر قدغن لگتی محسوس ہوتی ہے تو یہ دوڑے دوڑے اقوام متحدہ میں پہنچتے ہیں اور وہاں انسانیت کی دُہائی دے کر ایسے ناپسندیدہ ملک پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کی یہ ساری پھرتیاں اور انسان دوستی ایک مخصوص رنگ اور جلد کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ مرضی کی انسانیت اور مرضی کی جمہوریت انسانیت کے حقیقی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکی۔ یوکرین کی حالیہ جنگ نے اس دہرے معیار کو مزید بے نقاب کیا۔ یوکرین کی سفید فام یورپی آبادی روسی حملے کی زد میں آئی تو مغرب کو ایک مقدس جنگ کا خیال آگیا ہے، حالانکہ اب مغرب نے کسی بھی مقام پر پرائیویٹ اور رضاکاروں کی لڑائیوں کو دہشت گردی سے جوڑ رکھا تھا، مگر یوکرین میں روس کے حملے کے بعد مغرب نے وہ تمام اصول ترک کردیے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنائے گئے تھے۔ اس جنگ کا ہدف چونکہ مسلمان آبادیاں اور تہذیب تھی اس لیے پیمانے اور تھے، جب حالات نے پلٹا کھایا اور یوکرین میں ایک نئے انداز کی جنگ چھڑ گئی تو مغرب نئے اصولوں کے ساتھ سامنے آگیا۔ یوکرین کی جنگ کو مقدس جنگ کے طور پر لڑا جانے لگا۔ یوکرین کی جنگ کے ایسے دلدوز مناظر میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے لگے جو کشمیر اور فلسطین میں اکثر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں عمارتوں کا ملبہ، بے گوروکفن لاشیں اور سوختہ گھر شامل ہوتے ہیں۔ مجال ہے کہ مغرب کے ضمیر نے ان تصویروں پر کبھی ہلکی سی جھرجھری بھی لی ہو۔ کشمیر انسانیت کی قتل گاہ بن چکا ہے جہاں نہ انسانی حقوق کا گزر ہے، نہ شہری آزادیوں کے آثار.. جمہوریت ہے اور نہ ہی میڈیا کا کوئی وجود.. اور یہ سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی نمائشی خودمختاری اور شناخت بھی ان سے چھین لی ہے۔ بھارت نے اس مقتل میں سری نگر میں جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مغربی ممالک خوشی خوشی اس مقتل میں بھارت کے رچائے گئے ناٹک میں شریک ہوں گے۔
بھارتی حکومت اگلے ماہ کے اواخر میں سری نگر اور لیہہ لداخ میں جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس کے سیاحت اور نوجوانوں سے متعلق دو اجلاسوں کے انعقاد کی تیاریاں کررہی ہے۔ جموں وکشمیر اور لداخ کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ارونا چل پردیش کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ دونوں علاقے اپنے اپنے انداز سے متنازع ہیں۔ کشمیر تو بین الاقوامی طور پر ایک متنازع مسئلہ ہے جس کی فائل اقوام متحدہ میں موجود ہے اور ہر سال اس کیس کی تجدید ہوتی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی تمام کارروائیوں میں خود بھی کشمیر کو متنازع تسلیم کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی بااثر یا کمزور ملک کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتا۔ جب بھی کوئی غیر ملکی سفارت کار یا سربراہ کشمیر کی بات کرتا ہے تو وہ اس مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ خود بھارت بھی ان حالات میں اپنے زاویے سے کشمیر کو آدھا متنازع یوں تسلیم کرتا ہے کہ وہ آزادکشمیر پر اپنا حق جتلاتا ہے۔
خطے کا اہم ملک عوامی جمہوریہ چین بھی کشمیر کی متنازع حیثیت کا علَم بردار ہے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ اروناچل پردیش پر بھی چین اور بھارت کے درمیان شدید تنازع چل رہا ہے۔ یہ تنازع محض زبانی کلامی نہیں بلکہ سرحدی جھڑپوں اور تصادم پر بھی منتج ہوتا جارہا ہے۔ اِن دنوں بھی یہ تنازع کچھ اس طرح زوروں پر ہے کہ چین نے اروناچل پردیش کے کچھ علاقوں کے نام تبدیل کردیے ہیں اور بھارت نے اس پر ٹھنڈا ٹھار سا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں ارونا چل پردیش کا دورہ کرکے چینی سرحد سے گیارہ کلومیٹر دور ایک کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کا افتتاح کیا۔ چین نے امیت شاہ کے اس دورے پر اعتراض کیا تو امیت شاہ نے ارونا چل پردیش میں ہی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھارت کی علاقائی سالمیت پر بات کرنے کا حق نہیں۔
کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا وہ عمل جاری ہے جو تین برس قبل کے بھارتی فیصلے سے شروع ہوا تھا۔ عملی طور پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات وہیں منجمد ہوکر رہ گئے ہیں۔ گوکہ ان تعلقات کی سردمہری اور جمود کو کم کرنے کی درپردہ کوششیں بھی جاری رہتی ہیں، مگر عملی طور پر اس سمت میں کسی پیش رفت کے دور دور تک آثار نہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ بھارت کشمیر پر ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو فیس سیونگ نہ دینے کی اس روش کی وجہ سے پاکستان بھی بھارت کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کی طرف قدم بڑھانے سے گریزاں ہے۔ اب جی ٹوئنٹی ملکوں کی کانفرنس کی ایک سرگرمی کے لیے کشمیر کا انتخاب حالات کو مزید بگاڑنے کی ہی کوشش ہے۔ پاکستان اور چین نے اس کوشش کی مخالفت کی مگر بھارت نے یہ اعتراض مسترد کیا۔ بھارت نے کشمیر میں دنیا کو اپنی پسند کی تصویر دکھانے کے لیے ترقیاتی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں اور سری نگر کے وسط میں لال چوک کے مینار کو گرا کر ازسرِنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ بی بی سی نے اس پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ جی ٹوئنٹی کانفرنس میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین، جرمنی کے نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔
بھارت کی یہ سرگرمی کشمیر پر اپنے غیر قانونی قبضے کو بین الاقوامی جوازاور سند دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔پاکستان کو ان حالات میں بین الاقوامی سطح پر اپنا احتجاج کا حق بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ بھارت دنیا کی نظروں میں دھول نہ جھونک سکے۔کیونکہ بھارت ان سرگرمیوں سے دنیا کو کشمیر میں ’’سب اچھا‘‘ کا تاثر دے رہا ہے۔اس تاثر کو قائم ہونے سے روکنا اور کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کو اُجاگر کرنا حکومت ِپاکستان کی ذمہ داری ہے۔