کراچی: مردم شماری پھر متنازع

جماعت اسلامی کراچی کا محکمہ شماریات کے دفتر کے سامنے احتجاج

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ خطے کے اہم ترین اقتصادی اور مالیاتی مراکز میں سے ایک ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے دنیا کے بڑے شہروں کے پس منظر میں جس طرح ترقی کرنا چاہیے تھی وہ نہیں کرسکا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اس میں رہنے والوں کو کم گننا بھی شامل ہے۔ شہر کی آبادی، آبادیاتی، سماجی و اقتصادی خصوصیات کے بارے میں درست اور تازہ ترین ڈیٹا اور معلومات کی ضرورت کلیدی ہے۔ مردم شماری شہر اور اس میں بسنے والے لوگوں سے متعلق اعداد و شمار اور معلومات جاننے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ مردم شماری آبادی کی ایک جامع گنتی ہے جو عام طور پر ہر دس سال بعد باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ کراچی شہر کی آبادی بدستور کم رکھی گئی تھی اور یہ تنازع 2017ء کی مردم شماری میں سامنے آگیا تھا۔ سیاسی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ شہر کی بتائی گئی مجموعی آبادی اصل تعداد سے کم ہے۔ جس کی وجہ سے مردم شماری 6 سال کے اندر اندر دوبارہ کروائی جا رہی ہے لیکن وہ بھی ابتدا میں ہی متنازع ہوگئی ہے۔

مردم شماری کسی بھی شہر کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے- یہ تعداد، ساخت اور تقسیم کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے، ساتھ ہی سماجی و اقتصادی خصوصیات جیسے پیشہ، تعلیم اور آمدنی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اور یہ قیمتی معلومات شہری منصوبہ بندی، وسائل کی تقسیم، اور پالیسی سازی سے متعلق فیصلوں کے لیے ضروری ہیں۔

کراچی میں مردم شماری کا حالیہ عمل تقریباً 90 فیصد مکمل ہوگیا تھا جس کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر کی مجموعی آبادی میں 6 برس قبل کے مقابلے میں 15 فیصد کمی کا امکان رہا، جس کے بعد ایک نیا تنازع شروع ہوا اور پھر سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے پیش نظر مردم شماری کی تاریخ 10 اپریل سے 15 اپریل تک بڑھادی گئی تھی۔ پھر اس توسیع کے دوران کراچی کی آبادی میں 10 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ کردیا گیا۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق 5 دن کے دوران کراچی کی آبادی میں 12 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔ تاریخ بڑھنے سے قبل مردم شماری کے جو اعداد و شمار سامنے آئے تھے ان کے مطابق 26 لاکھ 40 ہزار سے زائد گھرانوں کی مردم شماری ہوچکی ہے اور اس وقت شہر کی آبادی ایک کروڑ 34 لاکھ 71 ہزار 136 افراد پر مشتمل ہے، جو 2017ء کی مردم شماری کے 89.93 فیصد کے بعد 15.94 فیصد کم ہے۔ 2017ء میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار 894 تھی اور حتمی نمبر تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ 50 ہزار بنتے ہیں۔

آبادی میں کمی کے حوالے سے کراچی شرقی پہلے نمبر پر ہے جہاں 25 فیصد کمی دکھائی گئی۔ شرقی میں تقریباً 85 فیصد مردم شماری مکمل ہوچکی ہے۔ اسی طرح کا رجحان ضلع جنوبی میں بھی دیکھا گیا جہاں 19.7 فیصد کمی آئی اور اب تک 92.64 فیصد مردم شماری ہوچکی ہے۔ اس صورتِ حال پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کے وڈیرے ہر مردم شماری میں یقینی بناتے ہیں کہ کراچی کی آبادی اندرون سندھ سے کم رہے، کیونکہ آبادی پوری گننے سے کراچی کی نمائندگی بڑھے گی اور وزارتِ اعلیٰ وڈیروں کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اس حوالے سے گزشتہ دنوں محکمہ شماریات کے دفتر پر احتجاجی کیمپ پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے عوام کی گنتی ہر صورت میں پوری کی جائے، مردم شماری کی مدت میں کم از کم ایک ماہ کا اضافہ کیا جائے، یا جب تک کراچی میں رہنے والا ایک ایک فرد شمار نہ کرلیا جائے، مردم شماری جاری رکھی جائے، خانہ شماری میں جو بدترین جعل سازیاں اور دھاندلی کی گئی ہے اس کا سدباب کیا جائے، ڈیجیٹل مردم شماری میں طریقہ واردارت یہ اختیار کیا جارہا ہے کہ پہلے آبادی اتنی کم کردی جائے اور پھر جب احتجاج ہو تو کچھ بڑھا کر معاملہ ختم کردیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ واردارت کو ہرگز نہیں چلنے دیں گے، من پسند وزراء کی کمیٹی بناکر اس سنگین مسئلے سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی وزیر احسن اقبال سے بھی رابطہ کیا ہے اور انہیں مردم شماری و خانہ شماری میں بدترین جعل سازیوں اور دھاندلیوں سے آگاہ کردیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود کراچی آئیں اور دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے، اسٹیک ہولڈرز کی کمیٹی بنائیں اور اسے ڈیٹا رسائی دی جائے۔

جماعت اسلامی نے مانیٹرنگ سیل اور ویب پورٹل شروع کردیا ہے اور عوام سے زیادہ سے زیادہ اندراج کرانے کی ددرخواست بھی کی ہے۔ حافظ نعیم نے تمام پارٹیوں سے بھی کہا ہے کہ وہ اس میں اندراج کروائیں تاکہ کراچی کا مقدمہ بھرپور اور موثر انداز میں لڑا جا سکے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا ہے کہ ہم اہلِ کراچی کی گنتی پوری کروانے کے لیے مذاکرات اور بات چیت بھی کریں گے اور احتجاج بھی۔ 30اپریل کو اہلِ کراچی کو آدھا غائب کرنے کے خلاف اور پورا گنوانے کے لیے شارع فیصل پر زبردست احتجاجی مارچ کیا جائے گا۔ ہم نے ادارہ شماریات کے آفس پر احتجاجی کیمپ لگایا ہے اس لیے کہ اُس نے اپنا کام نہیں کیا، کئی آبادیاں شمار نہیں کی گئیں، خانہ شماری میں بڑی بڑی بلڈنگز کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90لاکھ ہے، کراچی کی آبادی کسی صورت میں بھی تین،ساڑھے تین کروڑ سے کم ہو ہی نہیں سکتی۔ بجلی اور گیس کے میٹرز اور ان کے صارفین کی تعداد سے بھی کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ کراچی میں جتنے بھی لوگ رہتے ہیںٍ گنے جائیں۔ کراچی میں جو رہتا ہے اسے یہیں شمار کیا جائے، مستقل پتوں کی بنیاد پر ڈیٹا فائنل نہ کیا جائے۔ جب یہاں کے شہری یہاں کا انفرااسٹرکچر استعمال کرتے ہیں تو ان کو شمار یہاں کیوں نہیں کیا جاتا؟ کے پی کے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں اور ان کا مستقل پتا ان کے اپنے آبائی علاقے کا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان والے ہیں، یہ سارے لوگ یہیں شمار کیے جانے چاہئیں، اگر ایسا نہیں ہوگا تو یہ لوگ اپنے مستقل پتے والے علاقے میں شمار ہوں گے اور کراچی کی آبادی کم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ایک قومی منظر ہے، اب صوبائی سطح پر دیکھیں کہ پیپلز پارٹی سندھ کی آبادی کی بات تو کرتی ہے لیکن کراچی کی آبادی کم کرنے پر کچھ نہیں بولتی، اندرونِ سندھ کی آبادی بڑھا دی جاتی ہے لیکن کراچی کی آبادی کم کرکے اپنی جعلی اکثریت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی حکمران پارٹی ہے اور وفاق میں بھی حکومت کا حصہ ہے، کراچی کی آبادی کم کرنے کی سازش میں پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہے۔ ہم نے ہمیشہ لسانیت اور عصبیت کو مسترد کیا ہے، لیکن اگر لسانیت اور عصبیت کی بنیاد پر پالیسی بنے گی اور اقدامات کیے جائیں گے تو ہم اس کے خلاف آواز اُٹھائیں گے اور اہلِ کراچی کی آواز بنیں گے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم کسی سے خیرات نہیں بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں، ہمارا حق مارا جائے اور ہم آواز تک نہ اٹھائیں، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ آصف زرداری جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن جب ان کی پارٹی کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر قبضہ کرتی ہے، جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹیں ہڑپ کرجاتی ہے تو ان کی جمہوریت کہاں چلی جاتی ہے؟ کراچی کی آدھی آبادی غائب کردی جاتی ہے لیکن ان کی پارٹی خاموش رہتی ہے۔

درست مردم شماری کراچی کی ضرورت ہے۔ سماجی و اقتصادی خصوصیات کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس پر اگر ماضی کی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ مل کر فراڈ کیا گیا تو کراچی کے لوگوں کے ساتھ ایک بار پھر ظلم ہوگا جس کے مستقبل میں نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔