پاکستان کو قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کے باعث دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق عدالتی فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے اور پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں کے پروں کے نیچے فیصلے کر رہی ہے، یوں ملک میں سیاسی تنائو میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کے حل میں درپیش رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بنک کی جانب سے تحلیل شدہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا معاملہ برقرار ہے، اور پہلی ڈیڈلائن گزر جانے کے باوجود یہ رقم جاری نہیں ہوسکی۔ اب عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ واقعات یہ رہے کہ یہ معاملہ وزارتِ خزانہ کی قائمہ کمیٹی میں زیر بحث آیا جس نے اسے قومی اسمبلی میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے وفاقی کابینہ میں بھی زیرغور لایا گیااور اس نے منظوری دی تو اس پر عملدرآمد کے لیے منی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، لیکن فیصلہ وہی ہوا کہ پارلیمنٹ نے اپنا آئینی اختیار استعمال کیا۔
قرائن یہی کہہ رہے ہیں کہ رقم الیکشن کمیشن کو مہیا کرنے کے امکانات کم ہیں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی بینک کے اعلیٰ افسروں کو طلب کیا تھا کہ فنڈز مہیا کیے جائیں، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’کوئی جتنا مرضی زور لگائے ملک میں الیکشن ایک ساتھ اور مقررہ وقت پر ہوں گے جو نگران سیٹ اَپ کے تحت کرائے جائیں گے، اکتوبر بھی زیادہ دور نہیں ہے‘‘۔ دوسری جانب حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کے ذریعے اختلافی معاملات طے کرانے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے جو مفاہمانہ کوششیں شروع کردی ہیں، ان کے نتائج کا انتظار ہے۔ موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیراعظم سے ابتدائی ملاقات کے بعددونوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندے بھی مقرر کردیئے ہیں۔ یہ مذاکرات براہِ راست نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے وسیلے سے کیے جانے کی بات ہوئی ہے۔ ان میں عمران خان نے خود شریک ہونے سے انکار کردیا ہے۔ تجزیہ یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے پلے کچھ نہیں ہوتا، نہ عمران خان اس کی سنتے ہیں۔ اگر یہی سچ ہے تو مفاہمتی بات چیت کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابرہیں۔ جماعت اسلامی نے بحران کو ختم کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، پی ٹی آئی کی شرط ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفے واپس لیے جائیں اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی واپس دیا جائے۔ حکومت اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کا فیصلہ نہ میں ہوگا، یہ شرط ناقابلِ قبول ہوگی۔ بہتر ہے کہ فریقین اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے باہمی اختلافات دور کریں۔
ملک جس تباہ کن معاشی بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ سیاسی بحران ہی ہے۔ اجتماعی دانش کے ذریعے بحران کا حل نکال لیں توبہتر ہوگا، سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ملک میں اگر سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ہو تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور معیشت ترقی کرتی ہے۔ لیکن اگر ملک سیاسی انتشار کا شکار ہو تو غیر ملکی سرمایہ کار دور کی بات، ملکی بزنس مین بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور صنعتوں کی پیداواری صلاحیت اور ایکسپورٹس میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتِ حال بے لگام ہوتی جارہی ہے جس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے۔ غیر یقینی سیاسی حالات کو جلد از جلد ختم کرکے سیاسی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا، ورنہ ملک مزید سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اداروں میں محاذ آرائی سے براہِ راست ملکی معیشت متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کے باعث دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مشکل بن رہی ہیں۔ دسمبر 2022ء میں پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 126.3ارب ڈالر تھے جس میں 77فیصد (97.5 ارب ڈالر) براہِ راست حکومتی قرضے اور 23فیصد مختلف حکومتی اداروں کے ہیں۔ پاکستان کو اپریل 2023ء سے جون 2026ء تک 77.5ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو ہماری معیشت کے سائز کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ آنے والے 3سال میں زیادہ تر قرضوں کی ادائیگیاں چین کی ہیں۔ رواں مالی سال پاکستان کو اپریل سے جون 2023ء تک 4.5 ارب ڈالر کی فوری ادائیگیاں کرنی ہیں لیکن آئی ایم ایف نے اپنے پروگرام کی بحالی کو دوست ممالک کی امداد سے مشروط کیا ہواہے جس میں سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اور چین سے 1.3 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ رول اوور شامل ہے، جس میں سے چین نے ایک ارب ڈالر رول اوور کردیا ہے۔ آئندہ مالی سال 2023-24ء میں پاکستان کو 25ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں، جس میں چین کے 4ارب ڈالر سیف ڈپازٹ، سعودی عرب کے 3ارب ڈالر، یو اے ای کے 2ارب ڈالر، 1.1ارب ڈالر کے یورو بانڈز اور 1.1ارب ڈالر کے چینی بینکوں کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔ مالی سال 2024-25ء میں پاکستان کو 24.6ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں 8.2ارب ڈالر کے طویل المیعاد اور 14.5ارب ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے ہیں، جس میں 3.8ارب ڈالر کے چین کے قرضے شامل ہیں۔ 2025-26ء میں پاکستان کو 23ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں 8ارب ڈالر کے طویل المیعاد قرضوں میں 1.8ارب ڈالر کے یورو بانڈز اور 1.9 ارب ڈالر کے چین کے کمرشل قرضے شامل ہیں۔ بہترین حل یہ ہوسکتا ہے کہ نادہندہ ہونے سے بچنے کے لیے بر آمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہواور در آمدی بل کم کیے جائیں، ورنہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے سے پاکستان کو مزید نئے قرضے لینا پڑیں گے۔
اس وقت پاکستان میں اوسطاً 31سے 32 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ، 31ارب ڈالر کی ترسیلات زر اور بمشکل 2 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں 6ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ منفی ریٹنگ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز کی قیمتوں اور طلب میں شدید کمی ہوئی ہے۔ پاکستان اس وقت بانڈز مارکیٹ سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا پاکستان کو جون 2023ء میں IMF پروگرام ختم ہونے کے بعد فوراً نئے قرضے کے لیے IMF کے پاس جانا ہوگا یا اپنے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی درخواست کرنا ہوگی، ورنہ ڈیفالٹ کا خطرہ موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو، جسٹس اطہر من اللہ کی تجویز اور مشورہ صائب ہے کہ ’’سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی اَنا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، تمام ذمہ دار ایک قدم پیچھے ہٹیں اور خود شناسی کا سہارا لیں، کیونکہ ملک ایک بہت بڑے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے‘‘۔
ماضی کی طرح اس لڑائی میں بظاہر فریق سیاسی ادارے اور عدلیہ ہیں، اس طرح کی لڑائیوں کا فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے، ان حالات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں لیکن انتخابات التواء ازخود نوٹس کیس میں عدلیہ کا مؤقف درست ہے۔ انتخابات 90دنوں میں کرانا ہوں گے یہ صحیح ہے، کیونکہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئین ہرحال میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے اور اس پابندی سے کوئی فرار ممکن نہیں۔ اگر ایک دفعہ آئین کی اس پابندی سے فرار کا راستہ نکال لیا گیا تو پھر پاکستان میں کبھی آئین کے مطابق انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔ ماضی میں جو فوجی آمر رہے انہیں بھی قوم کے مجرموں کی تاریخی فہرست سے نکالنے کا جواز مل جائے گا۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ 90دن میں انتخابات کرانے کے حالات نہیں ہیں۔ رہ گئی بات حکومت کی، اس نے کیس کی پیروی درست طریقے سے نہیں کی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ازخود نوٹس کیس سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کو چیلنج کرتی۔ حکومت نے اس نکتے پر وہ آئینی لڑائی نہیں لڑی، جو اسے لڑنی چاہیے تھی، حالانکہ ازخود نوٹس کیس میں تشکیل کردہ بینچ میں شامل بعض معزز جج صاحبان نے خود یہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کو آئین کے مطابق دیکھنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ فیصلے سے پہلے وہ اس معاملے پر الگ آئینی پٹیشن دائر کرکے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بینچ بنانے کے اختیارات کو چیلنج کرتی اور اپنے مؤقف کا بھرپور آئینی بنیادوں پر دفاع کرتی۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بینچ بنانے کے اختیارات پر حکومت کو کیس کی سماعت کے دوران جو آئینی لڑائی لڑنی چاہیے تھی، وہ اس نے نہیں لڑی۔ حکومت کیس میں انتخابات کے لیے فنڈز اور سیکورٹی نہ ہونے کے ایسے بہانے کرتی رہی، جنہیں آئین قبول نہیں کرتا۔حکومت غیر آئینی گرائونڈز پر لڑتی رہی، اس نے کابینہ، پارلیمنٹ اور اتحادی جماعتوں کے فورم کو عدالتی فیصلوں کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا، یہ حکمت عملی اس کے گلے پڑ جائے گی، کیونکہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ اس پر عمل درآمد چاہتی ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر گزشتہ ہفتے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اِن کیمرہ اجلاس میں شریک ہوئے، دیگر عسکری حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے نمائندوں سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے واضح اور دو ٹوک اعلان کیا کہ ’’طاقت واختیار کا محور عوام ہیں اور آئین کی رُو سے یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا‘‘۔ فوج آئینی طور پر ہر منتخب حکومت کے تابع رہنے کی پابند ہے، لیکن سیاسی تاریخ یہ ہے کہ’’قومی مفاد اور ملکی سلامتی‘‘ کے معنی کی تلاش میں تین بار براہِ راست اقتدار میں آچکی ہے۔ آرمی چیف کی جانب سے یہ اعلان کہ طاقت واختیار کا محور عوام ہیں اور آئین کی رُو سے یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا، آرمی چیف کی یہ سوچ قابلِ تحسین ہے، تاہم ان کے کہے ہوئے الفاظ کی اہمیت اُس وقت قوت پکڑے گی جب منتخب پارلیمان یہ اعلان کرے کہ فوج منتخب پارلیمنٹ کے فیصلوں کی پابند رہے گی۔ آرمی چیف کو جو کہنا تھا کہہ دیا، اب پارلیمنٹ بھی اپنے لب کھولے اور منتخب پارلیمان بھی آئین کے تابع رہ کر خود کو بااختیار ثابت کرے۔ ایک ایسی پارلیمان جو کسی بھی مستعفی ممبر کا استعفیٰ منظور کرنے میں ہی چھے چھے ماہ کا وقت صرف کردے، اس سے کیا قوت پکڑنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ملک کے آئین میں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کی مکمل وضاحت موجود ہے، یہ تینوں ادارے ایک دوسرے پر سواری کرنے کے بجائے باہم ممد و معاون بن کر ہی ملک اور قوم کی قسمت سنوارسکتے ہیں، لہٰذا جہاں ملک کی عسکری قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی آئینی پوزیشن کو پوری کشادہ دلی کے ساتھ قبول کیے جانے کا اعلان خوش آئند اشارہ ہے، وہیں ہماری پون صدی پر محیط قومی تاریخ کے چند تلخ حقائق کہ جب آئین اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دیا گیا، کے سانحات سے دور رہنے کے عزم کا بھی ایک اظہار ہے، اور نظریہ ضرورت دفن کرنے کی قسم کھانے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ تو یہی ہے کہ ملک کا پہلا دستور فوجی آمر کے ہاتھوں ہی شہید ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں سانحہ سقوط مشرقی پاکستان ہوا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک ہمارا سیاسی نظام ایک دوسرے پر بالادست رہنے کی سوچ سے آزاد نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ 75 برسوں میں بھی ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہوئی نہ جمہوریت مستحکم ہوسکی۔ ایسے حالات بن گئے کہ جو تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے اُن کی آنکھوں کے خواب اور قلب کے ارمان جل گئے۔