حافظ ابنِ جریر طبریؒ اور خلیفہ مقتدر

عباسی خلیفہ مقتدر باللہ نے ایک مرتبہ کسی جائداد کو وقف کرنے کا ارادہ کیا، لیکن وہ چاہتا تھا کہ وقف نامہ اس طرح مرتب کیا جائے کہ وقف کی شرائط تمام فقہا کے مذہب کے مطابق درست ہوجائیں اور اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔ لوگوں نے کہاکہ یہ کام صرف علامہ ابن جریر طبریؒ ہی انجام دے سکتے ہیں، کیونکہ اُن کے سوا ایسا آدمی ملنا مشکل ہے جسے تمام فقہا کے مذاہب پوری طرح مستحضر ہوں۔ چنانچہ مقتدر باللہ نے حافظ ابن جریرؒ سے اس وقت ایسا وقف نامہ مرتب کرنے کی درخواست کی۔ حافظ ابن جریرؒ نے وقف نامہ مرتب کردیا۔ اس سے خلیفہ کو اُن کے مقامِ بلند کا اندازہ ہوا، اور اس کے بعد اُس نے انہیں اپنے دربار میں اونچا مرتبہ عطا کیا اور ان کی صحبت سے مستفید ہونے لگا۔ خلیفہ ان سے بار بار کہتا کہ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کرلیا کیجیے۔ لیکن حافظ ابن جریرؒ نے یہ اصرار دیکھا تو فرمایا کہ ’’میری صرف ایک ضرورت ہے اور وہ یہ کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں گداگر بہت گھس آتے ہیں اور اس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے، امیر المومنین سے میرا صرف یہ سوال ہے کہ وہ شرطہ (پولیس) کے لوگوں کو اس بات کا حکم جاری کریں کہ وہ گداگروں کو اندر نہ جانے دیا کریں‘‘۔ خلیفہ نے یہ حکم جاری کردیا۔
( البدایہ والنہایہ۔ ص 146، ج 11) (مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)