سراج الحق کی ثالثی پر شہباز شریف اور عمران خان کا اتفاق
کیا پاکستان کی قومی سیاست میں مفاہمت کے امکانات کو مضبوط بنایا جاسکے گا؟ ہم جس محاذآرائی اور ٹکرائو کے عمل میں شریک ہیں اس سے باہر نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت کی سیاست ہی ہے،کیونکہ سیاست جس حد تک بھی چلی جائے حتمی طور پر اس کا نتیجہ مذاکرات کی صورت میں ہی نکالنا پڑتا ہے۔ موجودہ حالات بظاہر ایسے لگتے ہیں کہ یہاں مذاکرات کا عمل ممکن نہیں ہوگا،کیونکہ سیاسی فریق ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور معاملات سیاسی دشمنی میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ دو ہی سیاسی قوتیں ہیں، اول حکمران اتحاد جو 13 جماعتوں پر مشتمل ہے جن میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں شامل ہیں۔ دوئم پاکستان تحریک انصاف ہے جس کی قیادت عمران خان کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ وہی منظر ہے جو ماضی میں ہمیں اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو سیاست کے طور پر دیکھنے کو ملتا تھا۔ آج قومی سیاست پرو عمران خان اور اینٹی عمران خان میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ماضی میں بھٹو کا مقابلہ تمام سیاسی جماعتوں سے تھا، اور آج تمام جماعتوں کا مقابلہ عمران خان سے ہے۔ قومی سیاست کا تجزیہ کریں تو مفاہمت کی سیاست کے امکانات میں کمی کسی بڑے اصول کے تحت نہیں بلکہ سیاسی، شخصی ٹکرائو یا سیاسی اَنا پرستی کے تحت ہے اور اسی وجہ سے مذاکرات کا عمل بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ عمران خان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی سے بھی مل کر سیاست کرنے کے کے حق میں نہیں ہیں، اور ماضی میں وہ کئی بار پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ (ن) سمیت مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات سے انکار کرچکے ہیں۔ عمران خان کی سیاست ہی عملی طو رپر ان جماعتوں سے مزاحمت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔پیپلزپارٹی نے بھی 2018ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں ہی پی ٹی آئی کو مل کر کام کرنے کی پیش کش کی تھی،مگر عمران خان اس کے لیے تیار نہیں تھے، او رایسی ہی ایک پیش کش شہبازشریف میثاقِ معیشت کے لیے کرچکے تھے، مگر وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔بدقسمتی سے عمران خان نے ہمیشہ سیاست میں مفاہمت کے راستے یا اپنے سیاسی مخالفین کو قبول نہیں کیا اور مذاکرات کا عمل شروع ہی نہیں ہوسکا۔
ایک بار پھر پاکستان کی قومی سیاست میں جہاں بہت زیادہ محاذآرائی اور ٹکرائو کا ماحول غالب ہے، وہیں کچھ سیاسی فریق یا اہلِ دانش ایک ہی راستہ پیش کررہے ہیں، اور وہ مذاکرات اورمفاہمت کا راستہ ہے۔ کیونکہ لڑائی محض سیاست دانوں تک محدود نہیں، بلکہ سیاست سمیت ریاستی اداروں کے ساتھ اور خود ریاستی اداروں کے اندر بھی داخلی ٹکرائو کا ماحول غالب ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ ہمارا بحران جہاں سیاسی نوعیت کا ہے وہیں یہ ریاستی بھی ہے۔اس وقت چار فریق ہیں: اول حکومت او رحزب ِاختلاف،دوئم عدلیہ، سوئم اسٹیبلشمنٹ یا فوج، اور چہارم میڈیا کے محاذ پر جاری محاذ آرائی کے کھیل میں شدت پیدا کرنے کی پالیسی۔اس محاذ آرائی او رٹکرائو نے سب ہی کرداروں کو سیاسی طور پر تقسیم کردیا ہے اور سب ہی اپنی اپنی سیاسی پوزیشن لے کر براہِ راست فریق بن گئے ہیں۔یہاں مذاکرات اورمفاہمت کی بات تو سب ہی کرتے ہیں اور اس پر زور دیتے ہیں کہ حالات کی بہتری کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ اس کا جواب کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اپنے داخلی ٹکرائو یا تضادات کی وجہ سے یہ ادارے بھی سیاسی تقسیم کا شکار ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں کہ غیر جانب دار کردار ادا کرسکیں۔ کیونکہ حکمران اتحاد نے تو سب کے سامنے واضح کردیا ہے کہ اسے عدالتی فیصلے قبول نہیں اور ان فیصلوں کو نہ صرف قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان پر عمل درآمد کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔اداروں کو اس انداز میں دبائو میں لانا یا ان کے احکامات کو چیلنج کرنا خود ریاستی اداروں کی ساکھ پر کئی طرح کے منفی سوالات کو جنم دیتا ہے۔مفاہمت کی ایک کوشش آصف زرداری نے کی ہے، مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ جس فریق سے بات چیت ہونی ہے یعنی عمران خان سے، وہ زرداری صاحب کی سیاست کے سخت خلاف ہیں اوران کے ساتھ وہ کسی بھی صورت بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ آصف زرداری کیونکہ خود اس حکومت کے اتحادی ہیں ایسے میں ان کی اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان ہیں اور وہ خود عمران خان کی سیاست کے سخت نقاد ہیں، ایسے میں کیونکر وہ عمران خان کی حمایت یا ان کے ساتھ بات چیت کریں گے!
اس کے لیے ضروری تھا کہ سیاسی محاذ سے کوئی ایسی جماعت سامنے آئے جو دونوں جماعتوں میں کسی نہ کسی شکل میں قابلِ قبول ہو۔ایسے میںجماعت اسلامی کی جانب سے دونوں جماعتوں کے درمیان جاری سیاسی کشیدگی کے ماحول میں کوشش کی جارہی ہے کہ پہلے مذاکرات اور پھر مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھایا جائے۔اسی کوشش کو مدنظر رکھ کر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک قدم آگے بڑھ کر پہلے وزیراعظم شہباز شریف اور پھر عمران خان سے خصوصی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سراج الحق کے ہمرا ہ لیاقت بلوچ اور امیرالعظیم تھے۔جماعت اسلامی تین نکات کی بنیاد پر مذاکرات چاہتی ہے: اول حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سیاسی کشیدگی کا خاتمہ اور ایک دوسرے کے خلاف سیز فائر، دوئم دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مقابلے میں پورے ملک میں عام انتخابات پر اتفاقِ رائے کی منظوری، سوئم عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے انتخابی فریم ورک پر اتفاق قائم کرنا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اور عمران خان نے سراج الحق کی اس مفاہمتی کوشش کی حمایت کی اور یقین دلایا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔جماعت اسلامی کی اس وقت عملی صورتِ حال دونوں یعنی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان پُل کی ہے۔ کیونکہ جماعت اسلامی دونوں سے بہتر تعلقات رکھتی ہےاور اس کی بات کو دونوں فریق سن بھی رہے ہیں۔اگر جماعت اسلامی کی یہ کوشش آگے بڑھتی ہے اور اس کے ابتدائی طور پرکچھ بہتر نتائج ملتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی کی اچھی کوشش سمجھی جائے گی۔اس وقت جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتیں بشمول حکومت اور اپوزیشن سب ہی اس نکتے پر متفق ہیں کہ ملک میں ایک ہی وقت میں عام انتخابات ہونے چاہئیں۔ آصف زرداری ہوں یا پی ڈی ایم… ان کے درمیان بنیادی ٹکرائو انتخابات کی تاریخ یا شیڈول پرہے۔اس کا مطلب ہے کہ عام انتخابات پر اتفاق کرنے کے لیے درمیانی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ مفاہمت کے اس عمل کی یقینی طو رپر اسٹیبلشمنٹ بھی حمایت کرے گی کیونکہ اول وہ خود براہِ راست کسی بھی مذاکرات کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں مگر وہ اُن تمام کوششوں کی حمایت کرے گی جن کے نتیجے میں مفاہمت کی سیاست آگے بڑھ سکے۔جماعت اسلامی کی اس وقت ثالثی کی جو بھی کوشش ہے یا سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود کشیدگی کے خاتمے میں ڈپلومیسی کی حکمت ہے وہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ایک قدم آگے بڑھ کر جماعت اسلامی اس مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس طلب کرے اور خو داس کی میزبانی کرے اور سیاسی جماعتوں کی قیادت اس کی حمایت کرے تو یہ مزید سازگار ماحول پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی کا وفد پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرنے والا ہے تاکہ اس مفاہمتی عمل میں تمام بڑی سیاسی قیادت اور جماعتوں کو شامل کیا جاسکے۔
مفاہمت کی سیاست کو اگر آگے بڑھانا ہے تو تمام سیاسی فریقوںکو اپنے اپنے مؤقف میں کچھ لچک پیدا کرنا ہوگی۔ عمران خان فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں، اگر وہ جولائی پر اتفاق کرلیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح حکومت اکتوبر کے بجائے جولائی میں انتخابات پر راضی ہوجائے تو بھی بحران ختم ہوسکتا ہے۔ اس اتفاق کے بعد اصل چیلنج سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ اس وقت جس انداز سے وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت بشمول عمران خان اورکئی سو سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمات بن رہے ہیں یا ان کو گرفتارکیا جارہا ہے، اس خوف و ہراس کی پالیسی کو ہر صورت ختم کرنا ہوگا۔حکومت اورحزبِ اختلاف کو اپنے اپنے فیصلوں میں سے پیچھے ہٹنا ہوگا اورایک دوسرے کے لیے سیاسی راستہ دینا ہوگا۔ لیکن مسئلہ محض عمران خان کا ہی نہیں بلکہ موجودہ حالات میں حکمران اتحاد بھی عمران خان سے مذاکرات کا مخالف ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ اگر عمران خان کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکلتا ہے تو اس کا بڑا فائدہ ان کے مقابلے میں عمران خان کو ہی ہوگا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) میں سخت گیر مزاج کی قیادت مذاکرات کی حامی نہیں اورنہ ہی وہ مقررہ وقت اکتوبر میں بھی انتخابات کے لیے تیار نظر آتی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ معاملہ محض ایک یا دو نشستوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ان پر تمام سیاسی فریق اعتماد اور بھروسا کریں اوران کو واقعی عملی طو رپر ثالت کے کردار میں قبول کرتے ہیں تو بات یقینی طو رپر آگے بڑھ سکتی ہے۔جماعت اسلامی اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی لڑائی میں فریق نہیں اور دونوں سے اس کے اچھے تعلقات بھی ہیں، اگر واقعی دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی سے عملًا مفاہمت چاہتی ہیں تو ان کو جماعت اسلامی کی ثالثی سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
پچھلے دنوں لاہور میں وکلا کی ایک بڑی گول میز کانفرنس ہوئی جس میں چودھری اعتزاز احسن، خواجہ طارق رحیم، سلمان اکرم راجا، حامد خان، شبر رضوی، جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، احمد اویس، شعیب شاہین، اظہر صدیق، ربیعہ باجوہ سمیت کئی وکلا نے اپنی قراردادوں کے ساتھ 14مئی کے انتخابات کو یقینی بنانے، وفاقی حکومت کے اقدامات پر سخت تنقید اور خود کو عدلیہ اور چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان بار کونسل حکومت کی حمایت میں نظر آتی ہے، مگر اس کی ہڑتالوں کی اپیل پر کوئی بڑا اجتجاج نہیں ہوسکا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وکلا کے درمیان بھی جہاں تقسیم ہے، وہیں ایک نئی تحریک وکلا کے اندر سے جنم لے رہی ہے۔ دوسری جانب مفاہمت کی سیاست موجودہ حالات میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک کو کسی بھی بڑے ریاستی ٹکرائو سے بچایا جائے۔ اس وقت عدلیہ میں جو تقسیم سامنے آئی ہے اور جس انداز سے سپریم کورٹ کے پلیٹ فارم سے تقسیم شدہ سیاست ججوں میں ہورہی ہے وہ بھی خاصی تکلیف دہ ہے۔ عدالت کا موڈ کسی بھی سمجھوتے کے حق میں نہیں اور وہ وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب کے الیکشن کے لیے فنڈ نہ دینے کی پالیسی پر نالاں بھی ہے اور سخت اقدام یا فیصلے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ریاست، حکومت اور اس سے جڑے ادارے ہی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیں تو ایسی صورت میں آپ کی عدالت، آئین اور قانون کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ اس لیے اگر اپنے اداروں کی لاج رکھنی ہے اور ان کی ساکھ کو قائم کرنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے بھی کسی بڑے ٹکرائو سے بچیں تو ہمیں اداروں کے ساتھ عدم ٹکرائو کی پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔ عدالتوں کے فیصلے حق میں ہوں یا مخالفت میں، ہمیں بہرحال سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم ہی کرنا ہے۔ لیکن جس انداز سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کیا جارہا ہے یا دھمکیاں دی جارہی ہیں وہ خود ریاستی نظام کے خلاف ہے، اوراس سے معاملات حل ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ وفاقی حکومت کو تمام معاملات کو بند گلی میں دھکیلنے کی پالیسی اور اداروں کے ساتھ ٹکرائو پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
اِس وقت جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، الیکشن کمیشن اور اسٹیٹ بینک رقم کی عدم دستیابی کی وجوہات کی بنیاد پر اپنا مؤقف سپریم کورٹ میں جمع کرواچکے ہیں۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی ہیں کہ سیکورٹی صورت حال پر سیکورٹی اداروں کے سربراہان کی چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں سے ملاقات ہوئی ہے اور ان کو سیکورٹی کی موجودہ صورتِ حال پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ ان رپورٹس کی روشنی میں کیا فیصلے کرتی ہے اور انتخابات کی یہ بحث کہاں ختم ہوتی ہے۔کیونکہ اس وقت تو ٹکرائو کا ماحول ہے جو حالات کی بہتر ی کے بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا کررہا ہے۔