اولیاء کی زندگی کے واقعات مسلمان کی زندگی میں تذکیر اور تطہیر افکار کا کام کرتے ہیں اور اصلاحِ نفس میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، آدمی کے دل کو روشن کرتے اور گناہوں کے زنگ کو دور کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب محمود میاں نجمی کے جنگ سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ”قصص درویش سیرت الاولیاء قصص بیس درویش“ ایک مختصر لیکن سیرت پر مبنی خوبصورت کتاب ہے جو صوفی بزرگوں کی زندگیوں اور ان کے روحانی و دینی سفر پر ایک دلکش اور متاثر کن دستاویز ہے۔ مصنف محمود میاں نجمی نے صوفیانہ روایت پر دلوں کو چھونے اور جھنجھوڑنے والے واقعات کو بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ یقیناً ایسے مستند واقعات کا مطالعہ اصلاحِ نفس میں بھی بہت مددگار ہوتا ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں ”مسلمانوں کی عظیم الشان حکومت“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور صحبتِ خاص کی بدولت خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے مدینہ منورہ کی چھوٹی سی ریاست کو تین براعظموں پر محیط 22لاکھ مربع میل رقبے تک وسیع کرکے دنیا بھر کو انگشت بدنداں کردیا۔“ انہوں نے اس میں خلافت، ملوکیت میں کس طرح تبدیل ہوئی اور ہندوستان میں پہلی مسلم حکومت کا ذکر کرتے ہوئے برصغیر میں اولیاء اللہ کے کردار میں لکھا ہے کہ ”برصغیر میں تبلیغِ دین کا اصل کام اولیا اللہ، صوفیائے کرام، علماء و مشائخ، صدیقین و صالحین اور بوریہ نشین درویشوں کی خانقاہوں، مساجد ومحراب اور مدرسوں ہی سے پروان چڑھا۔“ مصنف نے اس نکتے پر بھی قلم اٹھایا کہ انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے بعد علمائے کرام کی شخصیات کو باقاعدہ منصوبے کے تحت مسخ کرنے کا کام کیا گیا، طے کیا گیا کہ ان صوفیان وصالحین کے کردار کو متنازع بنا کر محض روحانی، رسمی اور کراماتی تعلق تک محدود کردیا جائے۔ اور مزارات پر پوجا پاٹ، نذرانہ و چڑھاوے اور دیگر غیر شرعی تقریبات کو پروان چڑھایا گیا، اور پھر وقت کے ساتھ یہ باقاعدہ کاروبار بن گیا۔ کتاب میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان بزرگوں کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ کی گئی کہ ان پر لکھی جانے والی سیرت کی کتب میں ان کی اصل کرامات کو پس پشت ڈال کر حیرت ناک اور مافوق الفطرت واقعات کی بھرمار کرکے انہیں متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے ان عظیم محسنوں کے اصل پیغام کو واضح کرکے کتاب میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کتاب کا اغاز حضرت امام حسن بصریؒ کی سیرت سے کیا گیا ہے، جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام بصری کا نام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ”حسن“ رکھا تھا اور دعا فرمائی تھی کہ ”اے اللہ اس معصوم کو اپنے دین کا عالم اور لوگوں کا محبوب بنادے“۔ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالہ خاص میں پانی پینے کا شرف حاصل تھا، اُمہات الومنین کےحجروں کے اندر بلاروک ٹوک خاندان کے فرد کی طرح وقت گزرا۔ 12سال کی عمر میں قران کو نہ صرف حفظ کیا بلکہ مختلف قراتوں میں تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ دلنشین اور پُراثر انداز میں خطاب کرتے تھے اور لوگ دور دور سے جوق در جوق سننے کے لیے آتے تھے۔ اسی طرح کتاب میں حضرت رابعہ بصریؒ کا ذکر ہے، اور کلفٹن کے ساحل پر مدفون برگزیدہ ہستی حضرت عبداللہ شاہ غازی کے باب میں لکھا ہے کہ ”آپ کراچی میں تاجر کی حیثیت سے تشریف لائے لیکن آپ کا اصل مقصد تبلیغِ دین تھی۔ اسی طرح حضرت سید مخدوم جہانگیر سمنانی کے بارے میں لکھا ہے کہ مخدوم صاحب ساتویں صدی ہجری میں چشتیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ ہیں اور سلسلہ اشرفیہ کے بانی ہیں، سرزمینِ ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمعِ اسلام فروزاں ہوئی اور جن کے نقوشِ پاک کی برکت سے شمعِ توحید کی روشنی چہار سو پھیلی اُن بابرکت ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ کی ذاتِ بابرکت بھی ہے۔ آپ صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ کو اردو زبان کے پہلے ادیب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جامعہ کراچی شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور پروفیسر حامد حسن قادری فرماتے ہیں کہ اردو مین سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ”اخلاق و تصوف“ ہے جو 758ہجری مطابق 1308عیسوی میں تصنیف کیا گیا۔ مزید برآں کتاب میں حضرت جنید بغدادی، حضرت علی ہجویری،حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی،معین الدین چشتی خواجہ غریب نواز،حضرت سخی لعل شہباز قلندر،شیخ شہاب الدین عمر سہروردی،حضرت بہا الدین زکریا ملتانی،حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی،حضرت فرید الدین گنج شکر،حضرت شاہ شمس تبریز،حضرت خواجہ نظام الدین اولیا،حضرت شاہ رکن الدین عالم،حضرت میاں میر، حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی،حضرت سلطان باہو،حضرت بابا بلھے شاہ کی تعلیمات اور زندگی کا احوال اس خوب صورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے جس سے آدمی کے اندر تزکیہ نفس کی جانب بڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، اور وہ اپنا تعلق اور رشتہ رب کریم سے جوڑ لیتا ہے۔ انسانوں کے دلوں کو بدل دینے والے ان اولیائے کرام کی زندگیوں اور تعلیمات کے بارے میں مزید اور کچھ نیا جاننے میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہر گھر میں ہونی چاہیے تاکہ سوشل میڈیا کی نئی نسل کو ان بزرگوں کی اصل خدمات کا علم ہوسکے۔