حمد ہمارے شعر و ادب کی قدیم ترین اصناف میں سے ایک ہے، شعرائے قدیم سے لے کر دور ِ حاضر تک تقریباً سبھی شعراء نے اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ اردو زبان میں تخلیقی ادب کا آغاز ہی حمد گوئی سے ہوا۔ نہ صرف اردو ادب بلکہ دنیا کی اُن تہذیبوں میں جہاں خدا کا تصور پایا جاتا ہے، وہاں بالخصوص شعری تخلیقِ اظہار میں حمدیہ کلام ضرور اور وافر مقدار میں ملتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ عشرے میں اردو زبان میں بالخصوص حمدیہ کلام پر مشتمل مجموعے منصہ شہود پر آرہے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ”یاربِ ذوالجلال“ خوش الحان حمد و نعت خواں اور شاعر عزیز الدین خاکیؔ کی کلیاتِ حمد ہے۔ اس کلیات میں 23 مارچ 2023ء تک ان کا کہا ہوا حمدیہ کلام شامل ہے۔ اس سے قبل ان کا مجموعہ حمد ”الحمدللہ“ بھی شائع ہوکر اہلِ ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے نعت کے متعدد مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں: ”ذکر خیرالوریٰ“، ”ذکرِ صلِ علیٰ“، ”نغماتِ طیبات“، ”فخرِ کون و مکاں“، ”بینات“، ”آئینہ صلِ علیٰ“ اور ”آیاتِ بینات“ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھیں کئی عمدہ نعتیہ انتخاب ترتیب دینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے۔ حمد و نعت سے وابستگی کو وہ اپنی خوش نصیبی اور حالِ خراب کی راحت کا باعث سمجھتے ہیں کہ:
سائے میں حمد و نعت کے، میں جب سے آ گیا
راحت سمٹ کے آ گئی، حالِ تباہ میں
پیشِ نظر کلیاتِ حمد کا نام ”یارب ذوالجلال“ بہت بابرکت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس دعا ”یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَام“ کو لازم پکڑ لو اور اس کی کثرت کیا کرو۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، رقم الحدیث : 3535) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعاؤں میں ہمیشہ التزام کے ساتھ اس کے ورد کی تلقین فرمائی ہے۔
خالقِ کائنات کی پہچان کے لیے مظاہرِ قدرت پر غورو فکر ضروری ہے۔ کتابِ لاریب میں جابجا ان مظاہر قدرت کی جانب انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اور غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ عزیز الدین خاکیؔ کے حمدیہ کلام میں بھی قدرت کی صناعی اور رب ذوالجلال کی قدرت کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں:
از زمیں تابہ فلک ہیں سبھی منظر اس کے
شجر و سنگ بھی اس کے مہ و اختر اس کے
——
گواہی دیتی ہے یہ ساری کائنات تری
زمیں، خلا و فضا، آسماں کا مالک تُو
ربِ کائنات کی مشیت ہے کہ ایک دن اس کائنات کو اور جو کچھ اس کائنات میں ہے، اسے فنا ہونا ہے، دنیا میں انسان اور دیگر جان داروں کا وجود عارضی ہے، لہٰذا وہ باقی نہیں رہے گا، اور جو چیز باقی نہ رہے وہ فانی ہوتی ہے۔ باقی رہنے والی ذات خدائے ذوالجلال کی ہے، جو عظمت و کبریائی والی ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ۔(الرحمٰن: 26۔27)زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔ اور تمھارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔
عزیز الدین خاکیؔ نے اس آیت کو یوں منظوم کیا ہے:
سب فنا ہو جائے گا باقی خدا رہ جائے گا
رہنے والی ہے ذات ہمیشہ خسروی اللہ کی
عزیز الدین خاکیؔ، خدائے رحمان و رحیم کی رحمت پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ سچے دل سے توبہ کرنے والوں کے لیے رحمتِ الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہیے۔قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ (الزمر: 53) کا مژدہ جاں فزا ان کے پیش نظر ہے۔ اسے منظوم کرتے ہوئے خاکیؔ کہتے ہیں:
لاتقنطوا بھی شان اسی کی ہے عاصیو!
گھبرا رہے ہو کیوں وہ غفور الرحیم ہے
حمد باری تعالیٰ کا موضوع بہت وسیع تناظر رکھتا ہے۔ عزیز الدین خاکی نے بھی مختلف موضوعات کو اپنی حمد گوئی کا موضوع بنایا ہے۔ مثلاً قرآن مجید، اسلام، حج بیت اللہ، استغاثہ و استمداد، مناجات وغیرہ۔ علاوہ ازیں خاکی ؔ کی حمد میں نعت کے مضامین بھی ملتے ہیں۔ مثلاً:
جس کے صدقے میں بنائی ہے یہ ساری کائنات
تُو نے بخشا ہے ہمیں وہ ہادی و رہبر اعظمؑ
خاکیؔ نے جاپانی صنف سخن ”ہائیکو“ (تین مصرعی نظم) کی ہیئت میں بھی حمدیں کہی ہیں۔ ایک حمدیہ ہائیکو ملاحظہ کیجیے:
سب تیرے محتاج
اپنے سارے بندوں کی
تُو ہی رکھے لاج
حمد و نعت گوئی اورحمد و نعت خوانی کے فروغ کے حوالے سے عزیز الدین خاکیؔ کی خدمات ہمہ جہت ہیں، جس پر انھیں متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ دعا ہے کہ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ ہو، حمد و نعت کی برکتیں انھیں حاصل ہوں اور ان کی یہ تمنا پوری ہو کہ:
ہر گھڑی ذکرِ الٰہی میں بسر ہو زندگی
ہر نفس ہو کاش اپنا سر بسر کیف آفریں