تھیلے سیمیا کے بچوں کو 18 لاکھ خون کی بوتلوں کی ہر سال ضرورت ہوتی ہےعمیر ثناء فاؤنڈیشن کے تحت تھیلے سیمیا کے بچوں میں عید گفٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے ڈاکٹر ثاقب انصاری ،کرکٹر اسد شفیق و دیگر کا خطاب
خون کا عطیہ دینا ایک بے لوث عمل ہے،جو انسانی جان بچانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ اُن لوگوں کی مدد کے لیے کیا جاتا ہے جنہیں طبی ہنگامی صورتِ حال میں یا طبی علاج کے لیے خون کی منتقلی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا قابلِ تحسین عمل ہے جس سے دوسروں کی مدد کرنے میں اطمینان اور فخر کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن یہ فرض کے ساتھ، دینے والے کی صحت کے لیے اچھا ہے۔ ماہرینِ صحت کے مطابق ہر تندرست انسان کو سال میں کم سے کم دو بار خون عطیہ کرنا چاہیے، اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، ڈاکٹر ثاقب کے مطابق جن کی کم سے کم عمر 18 اور زیادہ سے زیادہ 60سال ہو (صحت مند ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے۔
خون کا عطیہ طبی علاج جیسے کینسر، خون کی بیماریوں، سرجریوں، اعضاء کی پیوند کاری، اور تھیلے سیمیا کے مریضوں کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک محفوظ اور فائدہ مند عمل ہے جو عطیہ کرنے والے کے لیے اطمینان اور خوشی کا احساس لاتا ہے۔ یہ خون کا عطیہ کرنے والے کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے، کیونکہ یہ دل کے دورے اور فالج کا خطرہ کم کرتا ہے۔ تھیلے سیمیا خون کی کمی کی ایک مورثی بیماری ہے یعنی یہ والدین سے بچے کو ان کے جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ اس سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ تھیلے سیمیا کے شکار بچوں کے لیے خون کے عطیات کی ضرورت ایسی چیز ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری میں مبتلا ہیں، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے- عمیر ثناء فائونڈیشن ان بچوں کے لیے ایک عرصے سے منظم انداز میں کام کررہی ہے، اور ان بچوں اور والدین کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مرض کے شکار بچوں کو خون کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جو بچہ اس بیماری میں مبتلا ہوجائے، ہر ماہ اس کا کم سے کم خرچ دس ہزار روپے کے قریب ہوتا ہے، جو غریب والدین کی پہنچ سے تو باہر ہوتا ہی ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے بہت سے ادارے موجود ہیں جو فنڈ کی کمی کا شکار رہتے ہیں، جس کے باعث اکثر غریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں آپاتی، اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ان بچوں کی تکلیف اور والدین کی اذیت کو شاید ہم سمجھ نہیں سکتے لیکن ان کے لیے آسانی ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ اور ایسے بچوں کے لیے خون کا عطیہ دینا ایک بڑا اور عظیم صدقہ جاریہ ہے۔
اس کام میں لوگوں کو شامل کرنے، ملک میں عطیہ خون کے رجحان کو فروغ دینے اور تھیلے سیمیا کے شکار بچوں کو خون کی فراہمی کے لیے عمیر ثناء فاؤنڈیشن کے تحت تھیلے سیمیا کے بچوں میں عید گفٹس تقسیم کرنے کی تقریب کا انعقاد کیا گیا،جس میں تھیلے سیمیا کے بچوں کے لیے بلڈ ڈونیشن کیمپ بھی لگایا گیا، اس موقع پر صحافیوں سمیت زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے تھیلے سیمیا کے بچوں کے لیے اپنے خون کے عطیات دیے۔ تقریب میں معروف کرکٹر اسد شفیق، سوئی سدرن گیس کے سلمان صدیقی، عمیر ثناء فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹرثاقب انصاری، سیکریٹری تحسین اختر اور دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ پاکستان میں ایک لاکھ تھیلے سیمیا کے بچے ہیں اور ان کو 18 لاکھ خون کی بوتلیں ہر سال چاہئیں، زچگی، آپریشنز، اور حادثات کے موقع پر خون کی جو ضرورت ہوتی ہے وہ الگ ہے، اس اعتبار سے سالانہ تقریباً25 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ خون عطیہ کرنے سے ہارٹ اٹیک میں کمی، قوتِ مدافعت میں اضافہ اور انسانی جسم میں پرانے خون کی جگہ نیا، صحت مند اور تازہ خون بن جاتا ہے، جبکہ موٹاپے میں بھی کمی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں تو ملک میں عطیہ خون کا رجحان پہلے ہی کم ہے جب کہ رمضان کے مہینے میں خون دینے کی شرح اور بھی کم ہوجاتی ہے جس سے تھیلے سیمیا کے وہ بچے جن کی زندگی کا انحصار ہی انتقالِ خون پر ہے، سخت مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ آج نوجوانوں نے رمضان المبارک میں خون کے عطیات دے کر اس تاثر کو زائل کیا ہے کہ عطیہ خون سے کسی بھی قسم کی کمزوری لاحق ہوتی ہے یا یہ نقصان دہ عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن گزشہ 15 سال سے تھیلے سیمیا کے خاتمے اور اس مرض سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے، تھیلے سیمیا کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ شادی سے قبل تھیلے سیمیا ٹیسٹ ضرور کرایا جائے۔ اسد شفیق نے کہا کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی جدوجہد کا میں خود گواہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ جس جذبے سے عمیر ثناء فاؤنڈیشن کام کررہی ہے وہ نہ صرف قابلِ ستائش بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تھیلے سیمیا کے خاتمے کے لیے زندگی کے تمام طبقات کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔
لہٰذا اگر آپ خون کا عطیہ دینے پر غور کر رہے ہیں، تو تھیلے سیمیا کے شکار بچوں کے لیے عطیہ کرنے پر غور کریں اور کسی بچے کو زندگی اور اس کے والدین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیں۔