سندھ میں بدامنی کا راج پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کے قتل کا سانحہ

صوبہ سندھ اور بدامنی گزشتہ ایک طویل عرصے سے گویا ایک طرح سے لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ صوبے پر گزشتہ پندرہ برس سے پی پی پی کی بلاشرکتِ غیرے حکومت ہے، لیکن اس کی ’’بدحکومتی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ سندھ میں کسی بھی فرد کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں ہے، خاص طور پر سندھ کے اضلاع جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی بدامنی کا گڑھ بن چکے ہیں جہاں ایک طرف مختلف قبائل باہم دست و گریباں رہتے ہیں جس کی وجہ سے بکثریت انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے، تو دوسری طرف شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب ان اضلاع سے ڈاکو اصحابِ ثروت کے ساتھ ساتھ عام افراد کو بھی تاوان کی غرض سے اغوا کرکے نہ لے جاتے ہوں۔ سکھر ہائی کورٹ کے جسٹس جناب صلاح الدین پنہور اور جسٹس مبین لاکھو اس حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے بارہا ایسے ریمارکس دے چکے ہیں جن میں واضح طور پر وہ بدامنی اور اغوا برائے تاوان کا ذمہ دار حکومتِ سندھ، مقامی وڈیروں، سرداروں اور محکمہ پولیس کی نااہلی اور نالائقی کو قرار دے چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر روز سندھی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر زور شور سے بحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن نتیجہ پھر بھی وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کے مصداق ہی برآمد ہوتا ہے، جس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتِ سندھ اور اس کے متعلقہ ذمہ دار اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومتِ سندھ ہر سال محکمۂ پولیس پر 200 ارب روپے سے زائد خرچ کرتی ہے، جب کہ صوبے بھر میں پولیس کے 500 سے زائد تھانے ہیں، ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد کی پولیس نفری ہے، امن وامان کے لیے رینجرز بھی تعینات ہے جس پر سالانہ 7 ارب روپے الگ سے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن اس کا فائدہ؟ ایک عام فرد تو اس کے باوجود ہمہ وقت شدید احساسِ عدم تحفظ سے دوچار رہتا ہے۔

چند روز قبل ہی جماعت اسلامی سندھ اپنے امیر صوبہ محمد حسین محنتی کی زیر قیادت کراچی پریس کلب کے سامنے جیکب آباد، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور میں جاری شدید بدامنی کے خلاف ایک مظاہرہ بھی کرچکی ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ سکھر کے جناب جسٹس صلاح الدین پنہور تو اپنے عدالتی ریمارکس میں فرما چکے ہیں کہ اغوا برائے تاوان کا کاروبار سالانہ 2 ارب روپے پر محیط ہے۔ آئے دن بذریعہ سوشل میڈیا کچے کے علاقے میں قید ڈاکوئوں کے قبضے میں مغویوں کی وڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں جن میں ڈاکو مغویوں پر بہیمانہ تشدد کرکے انہیں درخت سے الٹا لٹکا کر ان کو برے طریقے سے زدوکوب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتِ سندھ اور محکمہ پولیس اس کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر صفحات کے صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں، اس پر مستزاد آئے دن کی قبائلی خونیں لڑائیاں ہیں جو کسی طور بھی ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتیں۔ ان خونیں قبائلی جھگڑوں کا ایندھن بھی عام طور پر ایسے عام افراد بنتے ہیں جن کا ان قبائلی لڑائیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان قبائلی لڑائیوں کے پس پردہ بھی مقامی وڈیرے، بھوتار اور سردار ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر فتنے کی آگ کو ہوا اور بڑھاوا دینے میں لگے رہتے ہیں تاکہ مقامی سطح پر ان کے اقتدار اور حکومت کو کوئی چیلنج کرنے کی جسارت نہ کرسکے اور مقامی قبائل آپس میں لڑتے رہیں، الجھتے رہیں اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف رہیں۔ انا پرست، مفاد پرست ان قبائلی سرداروں کی اکثریت بھی کسی نہ کسی طور سے حکومتِ سندھ یا وفاقی حکومت میں شامل رہتی ہے۔

ایسے ماحول اور ایسی ناقابلِ رشک ناگوار فضا میں اگر کوئی فرد اپنی ذاتی محنت، لگن اور کدوکاوش سے حصولِ تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کرلے تو بلاشبہ وہ داد اور صد ہا بار خراجِ تحسین کا حق دار ٹھیرتا ہے۔ لیکن پھر قحط الرجال میں رجال کار بننے والے ایسے افراد ہمہ وقت اپنوں اور پرایوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہتے ہیں۔ مخالف قبائل تو دشمنی کے سبب لیکن اپنے ہی قبائل کے بااثر سردار، وڈیرے، مقدم بھی رشک و حسد کے جذبات کی بنا پر تعلیم اور پھر نمایاں طور پر عملی میدان میں کامیاب ہونے والوں کی ایک طرح سے جان کے لاگو بن جاتے ہیں۔ سندھ کے دیہی اضلاع کے بہت سارے ایسے باصلاحیت افراد خراب حالات اور اپنوں ہی کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے جان بچا کر بڑے شہروں اور محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ بروز جمعرات 8 اپریل 2023ء کو ساوند قبیلے سے تعلق رکھنے والے مقتول پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل، جو جرمِ بے گناہی میں مارے گئے، کا آبائی تعلق بھی سندھ کے ایک ایسے ہی ضلع سے تھا جو ایک طویل عرصے سے بدامنی، اغوا برائے تاوان اور خونیں قبائلی جھگڑوں کا مرکز بنا ہوا ہے، یعنی سندھ اور بلوچستان کی سرحدی پٹی پر واقع ضلع کشمور ایٹ کندھ کوٹ۔ مقتول کے اہلِ خانہ بھی اپنے آبائی علاقے میں آئے دن کے جھگڑوں اور بدامنی کی وجہ سے کئی برس قبل سکھر ہجرت کر گئے تھے۔ مقتول پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند اور ان کے بھائی ڈاکٹر محمد طارق نے محض اپنی محنت، قابلیت اور سعی بسیار سے تعلیم حاصل کی اور نام کمایا۔ سکھر منتقل ہونے کے بعد بھی مقتول ڈاکٹر، ان کے بھائی اور اہل خانہ اپنے آبائی علاقے سے جڑے رہے اور وہ کندھ کوٹ میں واقع اپنے گوٹھ جام ساوند میں شادی اور غمی کی تقریبات میں شرکت کے لیے وقتاً فوقتاً آتے رہتے تھے۔ ساوند قبیلے اور سندرانی قبیلے میں خونیں جھگڑوں کا سلسلہ کئی برس قبل شروع ہوا تھا جس میں تاحال دس مرد و خواتین لقمۂ اجل بن چکے ہیں جن میں سے اکثریت بالکل بے گناہ مقتولین کی ہے۔

جرمِ بے گناہی میں سندرانی قبیلے کے مسلح افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند بے حد باصلاحیت اور ذہین و فتین شخصیت کے حامل تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے علاقے سے حاصل کی، پھر وہ کیڈٹ کالج لاڑکانہ چلے گئے اور وہاں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں نمایاں طور پر کامیابیاں سمیٹتے رہے۔ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جام شورو سے سافٹ ویئر انجینئرنگ، بیچلر آف انجینئرنگ کے بعد وہ اسکالرشپ پر فرانس چلے گئے جہاں یونیورسٹی آف پیرس سے انہوں نے 2015ء میں Efficient and Secure & Health on onitoring کے زیر عنوان پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ان کے بقول فرانس اور انگلینڈ میں انہیں بھاری معاوضے کے حامل مشاہرے پرملازمتوں کی پیشکش کی گئی جنہیں انہوں نے محض اس لیے ٹھکرا دیا کہ وہ اپنے ملک اور اہلِ علاقہ کی تعلیمی میدان میں خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے درجن بھر وقیع مقالے بین الاقوامی جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ انسانوں، پرندوں اور جانوروں سے محبت اور ہم دردی رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل ساوند کو بروز جمعرات شالو کندھ کوٹ میں اپنی کار میں سکھر جاتے ہوئے صبح کے وقت سندرانی قبیلے کے مسلح فراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ایک ایسے خونیں قبائلی جھگڑے میں جس سے اُن کا دور، دور تک کوئی واسطہ نہ تھا اور نہ ہی کوئی تعلق تھا۔ مقتول پروفیسر آئی بی اے یونیورسٹی سکھر میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے، انہیں ابھی اور آگے بہت آگے جانا تھا لیکن … سندھ بھر میں ان کے بہیمانہ قتل کے خلاف تادمِ تحریر ہر سطح پر پُر زور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، ان کے قاتل پانچ دن گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں ہوسکے۔ شہید ناظم جوکھیو کے تو گرفتار ہوکر رہا بھی ہوگئے تھے، اللہ کرے اِس مرتبہ ایسانہ ہو اور ملزمان کیفرکردار تک پہنچیں۔