سری نگر کی جامع مسجد اور شاردہ کا ویران مندر

شاردہ کو ہندوئوں کی یاترا کے لیے کھولناحقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے

یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، اور اس ماحول میں سری نگر کے ڈائون ٹائون میں قدیم جامع مسجد ایک روح پرور منظر پیش کرتی ہے۔ درود وسلام، مناجات و عبادات اور وعظ وتلقین سے مسجد کے در و دیوار ہمہ وقت گونجتے رہتے ہیں۔ دور دور سے نمازی اس مسجد میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ جامع مسجد میں تراویح اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کشمیر کی ایک مضبوط مذہبی روایت ہے۔ خواتین اور مرد آہ وزاری سے وہ سماں باندھتے ہیں کہ بے ساختہ یہ مصرع یاد آتا ہے:

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے

کئی برس سے رنگ و نور میں نہاتی یہ جامع مسجد خاردار تاروں اور صدر دروازے پر موٹے تالوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ نمازیوں کو گیٹ سے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے، اور اس مسجد میں خطبہ جمعہ دینے والے جانے پہچانے کشمیری راہنما میرواعظ عمر فاروق 5 اگست2019ء سے مسلسل نظربند ہیں۔ وہ جب بھی مسجد میں خطبہ ٔ جمعہ کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں، پولیس انہیں واپس گھر کے اندر دھکیل دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ حالاتِ حاضرہ پر تبصرے سے مزین ہوتا ہے۔ میر واعظ خاندان کا سربراہ کشمیر کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے۔ نوجوان یہاں سے حریتِ فکر وعمل پر مبنی ایک سوچ پاتے ہیں جو ایک لائحہ عمل اور راہِ عمل میں ڈھل جاتی ہے۔ مسجد کے نواح کی بستیوں کے یہی نوجوان مختلف مواقع پر اپنا زورِ بازو دکھاتے ہیں۔ یوں جامع مسجد صدیوں سے کشمیر کی اسلامی تہذیب اور تشخص کی مضبوط علامت ہے، مگر رنگ ونور میں نہاتی یہ تاریخی مسجد اکثر ویران اور اُداس رہتی ہے، اور عبادت کی غرض سے آنے والے کشمیری اس کو بند پاکر اس کے در و دیوار کے ساتھ سرپٹخ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں۔ کشمیر کے تہذیبی مرکز اور دل سری نگر کے مصروف ترین علاقے کا ایک منظر یہ ہے۔

دوسری طرف کنٹرول لائن کے اس جانب یعنی آزادکشمیر میں سیاحتی مقام وادی نیلم شاردہ میں صدیوں پرانا ایک مندر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ یہاں بودھ مت کے دور کی ایک یونیورسٹی کے آثار بھی ہیں۔ مورخین کے مطابق یہ ایشیا کی ایک بڑی یونیورسٹی تھی جہاں دور دور سے لوگ حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔ شاردہ کا نام ہندو تہذیب کا ترجمان ہے اور ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق یہاں ان کی دو مقدس دیویوں شاردہ دیوی اور ناردہ دیوی کا بسیرا تھا۔ کشمیری پنڈت اس مقام کو اپنے مذہب کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تقسیم کے بعد سے یہ ایک ویرانہ اور کھنڈر ہے، اور یہ کھنڈرات فقط سیاحوں کی دلچسپی کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔ ہندوئوں نے شاردہ کے نام سے وابستہ رہنے کی خاطر اس نام سے ایک مشہور یونیورسٹی بھی قائم کی اور کئی ادارے بھی اس نام سے منظم کیے ہیں۔ کشمیری پنڈت اکثر شاردہ میں پوجا پاٹ کی اجازت کا مطالبہ دہراتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی نے شاردہ سے 75 کلومیٹر دور کنٹرول لائن کے قریب ٹیٹوال کے قصبے میں شاردہ مندر اور شاردہ سینٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس فیصلے میں بہت گہری معنویت ہے۔ پنڈتوں کی بڑی تعداد وادی ٔ کشمیر سے نقل مکانی کرنے کے بعد جموں اور بھارت کے دوسرے شہروں کے ساتھ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ممالک میں منتقل ہوچکی ہے، جہاں وہ کشمیری زبان وثقافت کے ساتھ ساتھ مذہبی ثقافت کو بحال رکھنے کے لیے کئی این جی اوز بنائے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک تنظیم پنن کشمیر (اپنا کشمیر) کے نام سے برسوں سے قائم ہے جو پنڈتوں کے لیے وادی کشمیر میں ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے۔ امرناتھ یاترا کے ذریعے کشمیر کو اپنا مذہبی اور ثقافتی جزو لاینفک ثابت کرنے کے بعد اب آزادکشمیر پر اپنے تاریخی دعووں کو مضبوط کرنے کے لیے شاردہ کے تاریخی اور مذہبی مقام تک رسائی کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ یہ محض ایک مذہبی رسم کا معاملہ نہیں رہا بلکہ کشمیر کی شناخت کو اسلام سے تھوڑا پرے جوڑنے کی ایک منظم کوشش ہے جس پر پانچ اگست کے بعد تیزی سے عمل درآمد ہونے لگا ہے۔ آزادکشمیر شاردہ پیٹھ مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ گُپھا سے بھی بڑی مذہبی سرگرمی کا مرکزبننے کی صلاحیت کی حامل ہے کیونکہ اس کو ایک مذہب اپنا آغازاور مذہبی جنم بھومی قراردیتا ہے، حالانکہ شاردہ صرف ہندوئوں ہی نہیں بودھ اور جین مت کے پیروکاروں کا مرکز بھی رہا ہے، اور اس کے وسط ایشیا کے ملکوں کے ساتھ روابط رہے ہیں۔ایسے میں آزادکشمیر اسمبلی میںاچانک ایک قرارداد سامنے آئی کہ شاردہ مندر کی یاتراکے لیے کرتار پورہ طرز پرخصوصی کوریڈورتعمیر کیا جائے۔ کسی لمبی چوڑی بحث کے بغیر یہ قرارداد منظور ہو گئی جس کے بعد ایک نئے تنازعے کا آغاز ہوگیا۔اس قرارداد کی ٹائمنگ اوراسے کرتا پورہ کے ساتھ جوڑنے کا معاملہ اصل وجہِ نزع ہے۔یہ قرارداد اس لحاظ سے عجیب تھی کہ آزادکشمیر او رمقبوضہ کشمیر کے منقسم علاقوں اور خاندانوں کے درمیان رابطوں کی کمزور سی علامت سری نگر مظفر آباد بس سروس کو بند ہوئے کئی برس گز رگئے ہیں۔دونوں علاقوں کے عوام کو ملانے والے راستوں پر تالے اورجالے پڑے ہیں۔منقسم کشمیریوں کو ملانے والے اس راستے کے دوبارہ کھلنے کی امید بھی باقی نہیں رہی۔چکوٹھی کا کمان پُل جسے بھارتی ’’امن سہتو ‘‘ کہتے ہیں، اب ویران اور خالی ہے۔اس ماحول میں آزادکشمیر اسمبلی کو نہ کشمیر کے منقسم خاندانوں کا خیال آیا، نہ رمضان المبارک میں خاردار تاروں میں محصور جامع مسجد سری نگر کی یاد آئی، اور اگر کوئی بات یاد رہی تو وہ شاردہ کے ویرانے اور کھنڈرات کو آبا دکرنے سے متعلق تھی۔شاید اس مقصد کے لیے بیرونی دنیا میں آبادپنڈتوں کی این جی اوز خاصی سرگرمی دکھا رہی ہیں۔ ان این جی اوز کا دل ویرانوں کو آباد کرنے سے پہلے آباد علامتوں کو ویران کرنے پر نہیں کڑھتا مگر آزادکشمیر اسمبلی کے ارکان کے جذبات شاردہ مندر کی بحالی کے لیے مچل اور تڑپ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب ان کے حق میں مہم بھی بیرونی این جی اوز کی مدد سے ایک کاروباری سرگرمی بنتی جارہی ہے۔ کشمیر میں جاری اعتماد سازی کے اقدامات کا سلسلہ اگر جاری رہتا تو کسی مرحلے پر یہ بھی ممکن تھا کہ کشمیری پنڈتوں کے لیے اسٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر راہداری کا آغاز ہوتا، مگر بھارت نے ان اقدامات کی بساط ہی لپیٹ دی، ایسے میں شاردہ مندر کی رونقیں دوبالا کرنے کا اچھوتا تصور بہت حیرت انگیز بھی ہے۔ بھارت کے ٹی وی چینل ویان نے خبر کو اپنی پسند کا رخ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر نے شاردہ کوریڈور قائم کرنے کے متعلق بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے موقف کی حمایت کردی۔ متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے بھی اس قرارداد پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے آگے سرینڈر اور کنٹرول لائن کو مستقبل قرار دینے کی خواہش کے اظہار سے تعبیر کیا۔ حریت راہنمائوں کے مطالبے پر وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس نے قرارداد کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے واپس لینے کا اعلان بھی کیا۔ چند برس قبل قومی اسمبلی کے اقلیتی رکن رمیش کمار نے بیرونی ممالک سے آنے والے ہندوئوں کے ایک وفد کے ساتھ اس علاقے کا دورہ کرنے کے بعد اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ موجودہ حالات میں اس منصوبے کی عملی رکاوٹوں کو دور کرنا خاصا مشکل ہے۔ پہلے مرحلے پر سری نگر مظفرآباد بس سروس کو بحال کرکے اس کے ذریعے پنڈتوں کو شاردہ تک رسائی دی جا سکتی ہے۔ رمیش کمار کا یہ تجزیہ مبنی بر حقائق تھا اور مستقبل میں اس مسئلے کا حل یہی ہے۔ شاردہ کو ہندوئوں کی یاترا کے لیے کھولنے کے معاملے کو آئسولیشن میں دیکھنا حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔