مدرسہ عزیزیہ بہار کی آتش زدگی کا المناک سانحہ

بہار کے ضلع نالندہ میں 31 مارچ کو انتہا پسند ہندوئوں نے رام نومی کے جلوس کے موقع پر بہار کے قدیم تاریخی مدرسے ”مدرسہ عزیزیہ“ کو تقریباً پوری طرح سے جلا دیا۔ اس سانحے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم مدرسے سے متعلق متعدد افراد زخمی ہوئے۔ مدرسے کی وسیع عمارت کو بری طرح نقصان پہنچا۔

اس سانحے کا ایک المناک پہلو یہ رہا کہ بالخصوص مدرسے کی لائبریری کو نذرِ آتش کیا گیا اور وہاں موجود نادر و نایاب ذخیرے کے ورق ورق کو جلانے کی پوری کوشش کی گئی۔ 18 الماریوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انتہائی نادر کتابوں کا ذخیرہ چند گھنٹوں میں جلا کر خاک کردیا گیا۔ اس میں قرآنِ کریم کے نادر نسخے، تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ، رجال و دیگر اسلامی علوم و فنون کا بیش قیمت خزینہ تھا۔

مدرسہ عزیزیہ محض ایک تعلیمی درس گاہ نہیں تھی، بلکہ ایک تاریخی ورثہ بھی تھا۔ ذیل میں اس مدرسے کی تاریخ اور اس کے قیام کا پس منظر بیان کیا جائے گا، جس سے اس مدرسے کی تاریخی اہمیت واضح ہوگی اور اسلامی ورثہ کو برباد کرنے کے لیے موجودہ فسطائی بھارتی حکومت کے عزائم بھی نمایاں ہوں گے۔

مدرسہ عزیزیہ صغرا وقف اسٹیٹ کے تحت اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس وقف کے قیام کی داستان بھی بہت اہم ہے۔ مسماۃ بی بی صغرا بہار شریف کے ایک نامی گھرانے کی خاتون تھیں۔ ان کی شادی بہار شریف محلہ لہری کے رئیس مولوی عبدالعزیز سے ہوئی۔ دولت و ثروت کی ریل پیل تھی۔ ان کی اکلوتی صاحب زادی کی شادی مارچ 1872ء میں ڈیانواں کے مالک و رئیس مولانا گوہر علی صدیقی ڈیانوی (وفات:1861ء) کے چھوٹے صاحبزادے مولوی علی احمد سے ہوئی۔ یہ مولوی علی احمد جو مسماۃ بی بی صغرا کے داماد تھے مشہور محدث علامہ شمس الحق ڈیانوی (وفات:1911ء) صاحب عون المعبود کے حقیقی ماموں تھے۔

مسماۃ بی بی صغرا کی اکلوتی صاحبزادی شادی کے چند برس بعد ہی 1884ء میں لاولد دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اکلوتی صاحبزادی کی وفات کا صدمہ مولوی عبد العزیز کے لیے جانکاہ ثابت ہوا اور انھوں نے بھی اسی سال چند ماہ بعد ہی وفات پائی۔ پے در پے ان صدمات نے ساس اور داماد کو مضمحل کردیا۔ اہلیہ کی وفات کے بعد مولوی علی احمد صاحب نے اپنی ساس کی خدمت حقیقی فرزند کی طرح کی اور دوسری شادی نہیں کی۔ مولوی عبد العزیز صاحب کی وفات کے بعد مسماۃ بی بی صغرا نے اپنی جائداد کا وارث اپنے داماد مولوی علی احمد کو مقرر کیا۔ لیکن جناب علی احمد صاحب انتہائی بے غرض اور مخلص انسان تھے، انھوں نے اپنی ساس کو اس امر پر قائل کیا کہ یہ وسیع و عریض جائداد امورِ خیر کے لیے وقف کر دی جائے تاکہ ذخیرئہ آخرت ہو، بے شمار خلقت کا بھلا ہو۔ چناں چہ داماد کی اس تجویز کو ساس نے بخوشی قبول کیا۔ علی احمد صاحب وقف کے قانونی کاغذات کی تیاری میں مصروف ہو گئے لیکن رضائے الٰہی سے یکم اکتوبر 1893ء کو ان کی وفات ہوئی۔ وفات کے بعد علم ہوا کہ ان کا فیض کہاں کہاں تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ خیر و بھلائی کے کاموں میں غیر معمولی حصہ لیتے تھے۔ بہار سے باہر بھی ان کی وفات کا ماتم ہوا۔ ان کی نمازِ جنازہ علامہ شمس الحق ڈیانوی نے پڑھائی۔

علی احمد صاحب نے اپنی خوش دامن صاحبہ کو جو راہ دکھائی تھی داماد کی وفات کے بعد انھوں نے اس پر پیش رفت جاری رکھی اور بالآخر ستمبر 1896ء کو انھوں نے قانونی طور پر اپنی جائداد وقف کردی۔ اس وثیقہ قانونی پر جن لوگوں کے دستخط ہیں ان میں سید نذیر حسین محدث دہلوی (وفات: 1902ء) کے تلمیذ رشید مولانا نور احمد ڈیانوی (وفات: 1901ء) کا نام نمایاں ہے۔

مدرسہ عزیزیہ کا قیام یقیناً اس سے قبل عمل میں آ چکا تھا۔ مولانا حکیم محمد ادریس ڈیانوی (وفات: 1960ء)لکھتے ہیں:

’’مسماۃ بی بی صغرا زوجہ مولوی عبدالعزیز صاحب مرحوم رئیس اعظم بہار شریف نے بذریعہ انتظام اپنے داماد مولوی علی احمد صاحب ڈیانوی مرحوم کے اس مدرسے کی بنیاد رکھی اور اپنی کُل جائداد جس کی آمدنی سالانہ ایک لاکھ روپیہ بتائی جاتی ہے، وقف کردی۔‘‘ (ماہنامہ’’البلاغ‘‘بمبئی، اشاعتِ خاص: تعلیمی نمبر، جنوری فروری 1955ء)

اس عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدرسے کا قیام بہت پہلے عمل میں آ چکا تھا۔ مسماۃ بی بی صغرا کی زیر نگرانی وقف کے پہلے نائب متولی اور ان کے دستِ راست مولوی محمد موسیٰ ڈیانوی مقرر ہوئے، جو مولوی علی احمد ڈیانوی کے بھتیجے اور علامہ شمس الحق ڈیانوی و حافظ عبداللہ غازی پوری (وفات: 1918ء) کے شاگرد تھے۔ مسماۃ بی بی صغرا کی وفات کے بعد وہی صغرا وقف کے پہلے متولی بنے۔

بی بی صغرا کا ذکر کرتے ہوئے جناب طالب ہاشمی اپنی کتاب ’’تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’صغرا بی بی مولوی عبدالعزیز بہاری مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ نہایت صالحہ، مخیر اور علم دوست خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنی لاکھوں روپیہ کی جائداد (جس کی مالیت موجودہ زمانے کے لحاظ سے کروڑوں روپے تک پہنچتی ہے) اور تقریباً ایک لاکھ روپیہ سالانہ (جس کی مالیت اب ایک کروڑ روپیہ سے بھی زائد ہے) کی مستقل آمدنی مسلمانوں میں تعلیم کی اشاعت اور رفاہِ عامہ کے دوسرے کاموں کے لیے وقف کردی۔ یہ کارنامہ قیامت تک ان کا نام زندہ رکھے گا۔‘‘ (ص:617)

1327ھ /1909ء میں اس پاک دامن عفیفہ خاتون مسماۃ بی بی صغرا نے وفات پائی اور جاتے ہوئے اہلِ دنیا کو بے غرضی و اخلاص کا عملی سبق دے گئیں۔ رحمہا اللہ

مدرسہ عزیزیہ نے اپنی آغوش میں بڑے بڑے اصحابِ علم و فضل کی تربیت کی۔ صغرا وقف اسٹیٹ سے بے شمار نادار طالبانِ علم کی کفالت ہوئی۔ یتیموں کی پرورش کی گئی۔ بیواؤں کی امداد کی گئی۔ آج بھی مدارس، اسکولز، یتیم خانوں کی امداد کا کام اس وقف کی مدد سے جاری ہے۔

ابنائے مدرسہ کے ضمن میں صرف عربی کے ادیب شہیر مولانا مسعود عالم ندوی (وفات:1954ء) کا نامِ نامی ہی کافی ہے۔

مدرسہ عزیزیہ، بہار میں مسلک احناف کا نمائندہ مدرسہ ہے۔ یہاں کبار دیوبندی علماء نے تدریس کے فرائض انجام دیے۔ دارالعلوم دیوبند کے چوتھے صدر مفتی مولانا محمد سہول بھاگل پوری (وفات: 1948ء) مدرسہ عزیزیہ کے صدر مدرس رہے۔ اور بڑے بڑے نامور اہلِ علم یہاں سے علم کر کے افقِ علم پر آفتاب بن کر چمکے۔

اس تاریخی درس گاہ کے ساتھ ایسا المناک سلوک درندگی و بہیمیت کی بد ترین مثال ہے۔