’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک

گوادر اور بلوچستان کے عوام سے یکجہتی کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں عوام کے احتجاج کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ صوبے کی حکمران جماعتیں اور متحدہ حزبِ اختلاف یقینی طور پرنہیں چاہتیں کہ عوام کے مطالبات پر غور کیا جائے اور مسایل بامعنی حل کی طرف لے جایا جائے۔ حزبِ اختلاف اس ذیل میں اس بنا پر بری الذمہ نہیں کہ یہ بادی النظر میں حکومت کا حصہ ہے، حکومت کا خرابیوں اور برائیوں میں ساتھ دے رہی ہے۔ اس لحاظ سے حزبِ اختلاف صوبے کی بربادی اور درگت میں کلی طور پر شامل ہے۔ ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کہتی ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے گوادر میں فورسز اور انتظامیہ کی کارکنوں اور رہنمائوں کی گرفتاری میں معاونت کی ہے، کارکنوں کی رہائش گاہوں کی نشاندہی بھی کرتی رہی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان ہنوز قید ہیں، حیرت ہے کہ ان پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کہتی ہے کہ اُن کی ضمانت نہیں ہونے دی جارہی ہے۔ ادھر گوادر میں وقتاً فوقتاً مطالبات کی منظوری اور رہنمائوںکی رہائی کے لیے مظاہرے ہورہے ہیں۔ صوبے کی بعض سیاسی جماعتیں گوادر کے عوامی مسائل کے حل کے لیے ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کی حامی ہیں، لیکن بعض کو یہ تحریک برداشت نہیں۔ تاہم سیاسی اور عوامی سطح پر جماعت اسلامی ہر طرح سے اس تحریک کی حامی اور معاون ہے۔ اس نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں آواز اٹھائی ہے۔ 3 اپریل کو کوئٹہ میں کُل جماعتی کانفرنس طلب کی تھی جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ اس کانفرنس میں شریک تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی، نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر رحمت صالح بلوچ، بلوچستان بار کونسل کے راحب بلیدی، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جمعیت اہل حدیث، مجلس وحدتِ مسلمین کے علامہ مقصود ڈومکی اور دوسری جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں گوادر سمیت بلوچستان کے سیاسی اور معاشی مسائل پر اتفاقِ رائے قائم کیا گیا۔

بلاشبہ گوادر کے سمندر پر قزاق حملہ آور ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کے ساتھ آبی حیات فنا ہورہی ہے۔ گوادر کے عوام کے معاش کا اہم ذریعہ مچھلی کا شکار اور کاروبار ہے جو اُن سے چھن رہا ہے۔ ٹرالر مافیا طاقتور ہے جو اس تمام تر احتجاج اور شور شرابے کے باوجود باز نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ صوبے کی حکومت، محکمہ فشریز اور اختیارات کے حامل دوسرے افراد، بلوچستان اور گوادر کے مقامی بااثر افراد کی ان سے شراکت داری ہے۔ بڑی کشتیوں (ٹرالرز) پر ساحل سے 12 ناٹیکل میل کی حدود میں شکار کرنے پر پابندی لاگو ہے، مگر یہ پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔ ہزاروں ٹرالر بلوچستان کے پانیوں میں شکار کے لیے داخل ہوتے ہیں جو ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ محکمہ فشریز کے افسران اور دیگر متعلقہ لوگوں کو فی ٹرالر ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک ماہانہ رشوت دی جاتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ، محکموں اور اداروں کے لوگ مال دار بن رہے ہیں۔ گوادر سے چمن تک سرحدی پٹی کو اسی لیے تو ڈالر لائن کہا جاتا ہے۔ جہاں طاقتور لوگ اسمگلنگ سے پیسہ بنارہے ہیں، مگر گوادر سے پنجگور، اور چاغی سے چمن تک سرحدی پٹی پر غریب عوام کے لیے سرحدی تجارت میں بے پناہ رکاوٹیں اور مشکلات حائل کی گئی ہیں۔ غرض آج اگر بعض جماعتیں مافیائوں کا حصہ اور طرف دار بنی ہوئی ہیں تو کل کلاں یہ خود احتجاج پر ہوں گی، پھر انہیں دوسری جماعتوں سے شکوے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

جماعت اسلامی کی اس کانفرنس میں صو بے کے جملہ سلگتے مسائل پر گفتگو ہوئی، مشترکہ قرارداد منظور کی گئی، مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، مولانا ہدایت الرحمان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا، امن کے قیام کے لیے شدت پسند رہنمائوں سے بات چیت کے آغاز پر زور دیا گیا۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ بلوچستان ملک کا آدھا حصہ ہے جو سینڈک، ریکوڈک، زراعت، ساحل، کوئلہ، سونا سمیت اور کئی دوسرے قدرتی خزانوں سے بھرا ہوا ہے، مگر اس کے باوجود صوبے کے لوگ غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔ صوبے کے وسائل لوٹے جارہے ہیں اور یہ زیادتیاں لوگوں میں اشتعال کا باعث بن رہی ہیں۔ گوادرکے لوگوں کے مطالبات لائقِ اعتنا نہ سمجھے گئے تو وہاں بے قراری کا ماحول ہی رہے گا۔ عوام کا حقِ حیات اور روزگار سلب ہوگا تو بے امنی و بے قراری کا ماحول پروان چڑھے گا۔ اس صورت میں کسی مافیا کے بجائے نقصان ریاست کواٹھانا پڑتا ہے۔