قبائلی علاقے 20 سال سے حالت جنگ میں ہیں
گزشتہ جمعہ کو وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے 41ویں اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے میں عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیتے ہوئے قوم کو پائیدار امن کی فراہمی کے لیے سیکورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ نئے آپریشن کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے، یہ پالیسی عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد، مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، ایئر چیف مارشل اور نیول چیف کے علاوہ دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کی اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہائی اور واپس آنے والے ان خطرناک دہشت گردوں سے ملکی امن و استحکام شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ان کو افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے سے بھی امن و استحکام منتشر ہوا، یہ امن و استحکام بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔ اجلاس نے پوری قوم اور حکومت کے ساتھ مل کر ایک ہمہ جہت اور جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی۔ کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ آپریشن ایک نئے جذبے اور نئے عزم و ہمت کے ساتھ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرے گا، پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔ اعلامیے کے مطابق مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی، سیکورٹی، معاشی اور سماجی سطح پرکوششیں بھی شامل ہوں گی، اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی دو ہفتوں میں اس پر عمل درآمد اور اس کی حدود و قیود سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔ کمیٹی نے ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی اور معاشرے میں تقسیم سے قومی سلامتی متاثر ہوئی، درپردہ اہداف کی آڑ میں اداروں اور قیادت کے خلاف بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر پھیلانے سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی میں وطنِ عزیز کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے عزم پر تو یقیناً کوئی دوآراء نہیں ہیں اور ملک کا ہر شہری بلا تفریق وطنِ عزیز میں قیامِ امن چاہتا ہے اور اس ضمن میں ہر کوئی حکومت اور ریاستی اداروں کی پشت پر کھڑا ہونے کو اپنا قومی اور مذہبی فریضہ سمجھتا ہے، لیکن اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے اور وطنِ عزیز کے پسماندہ ترین اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ضم شدہ قبائلی اضلاع بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کسی بڑے ممکنہ آپریشن کی جو بازگشت سنائی دے رہی ہے اس پر ملک کے سنجیدہ حلقوں میں بالعموم اور ان دو قبائلی اضلاع میں بالخصوص تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس تشویش کے پیدا ہونے کو اس لیے بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ علاقے پچھلے بیس سال سے نہ صرف حالتِ جنگ میں رہے ہیں بلکہ یہاں کیے جانے والے آپریشنوں کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی ہے اس کے اثرات مختلف صورتوں میں سامنے آرہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے عروج کے زمانے سے لے کر یہاںکیے جانے والے درجنوں آپریشنوںاور امن معاہدوں کے نتیجے میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ عام لوگ ہیں، اور ان میں بھی زیادہ تر بچے، خواتین اور بزرگ شہری ہیں جنہیںاپنے گھر بار چھوڑنے سے لے کر خیبر پختون خواکے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں دربدر کی ٹھوکریںکھانی پڑی تھیں۔
یہ وہ غیرت مند، اسلام پسند اور محب وطن قبائل ہیں جن کے آباء و اجداد نے نہ صرف پاکستان میں تمام تر اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود غیر مشروط طور پر شمولیت اختیار کی تھی، بلکہ یہ قبائل جہاں مقبوضہ کشمیر کی آزادی میں پیش پیش رہے تھے وہاں یہ پچھلی سات دہائیوں کے دوران پاکستان کی مغربی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ بھی بلا تنخواہ سپاہیوں کے طور پر انجام دیتے رہے ہیں۔ ان قبائل کا ایک اور جرم افغان جہاد میں افغان مجاہدین کی دامے، درمے، سخنے، قدمے پشتیبانی کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین کوکھلی بانہوں کے ساتھ اپنے ہاں پناہ دینا تھا جس کی سزا انہیں بعدازاں دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں لڑی جانے والی نام نہاد جنگ میں ڈرون حملوں، بم دھماکوں اور فوجی آپریشنوں کی شکل میں دی گئی، جس کا نتیجہ ایک ایسی نسل کی صورت میں سامنے آیا ہے جس نے نقل مکانی اور کیمپوں میں اذیت ناک ماحول میں پرورش پائی ہے۔ یہ نسل جو جوانی اور شعور کی دہلیزپر قدم رکھ چکی ہے، اسے اسکول اور مدرسے کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی اس نسل کو پختون اور قبائلی کلچر میں مسجد اور حجرے کی مستحکم اور درخشاں روایات کا کوئی خاص علم ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ نئی نسل زیادہ سمجھ بوجھ، برداشت اور اخوت و بھائی چارے جیسی خصوصیات سے بھی عاری نظر آتی ہے۔ لہٰذا ایسے میں اگر حکومت جنوبی اور شمالی وزیرستان میں کوئی مہم جوئی کرتے ہوئے ایک نئے آپریشن کی طرف جاتی ہے، اور اس آپریشن کے سلسلے میں مقامی قبائل کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تو ایسی کوئی بھی مہم جوئی ملک و قوم کے لیے ایک اور المیے کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔
قبائلی اضلاع میں کسی بھی ممکنہ آپریشن پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ قبائلی علاقوں میں ماضی میں جتنے بھی آپریشن کیے گئے ہیں اس کے فوائد کے بجائے زیادہ تر نقصانات ہی سامنے آئے ہیں، خاص کر اب جب قبائلی علاقے بندوبستی علاقوں میں ضم ہوکر آئینِ پاکستان کے تحت آچکے ہیں اور 2018ء میں انضمام کے وقت ان سے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے بے شمار وعدے وعید کیے گئے تھے، لہٰذا کسی بھی نئی مہم جوئی سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان وعدوں پر اب تک کتنا عمل درآمد ہوا ہے اور اس عمل درآمد کے نتیجے میں قبائل کی زندگیوں میں کیا اور کتنی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اگر ایسی صورت حال نہیں ہے اور قبائل سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ ایفا نہیں ہوا ہے تو امید رکھنی چاہیے کہ متعلقہ ادارے قبائل کے احساسِ محرومی کا پاس رکھتے ہوئے وہاں پائے جانے والے آتش فشاں کے لاوے کو کسی بھی ممکنہ آپریشن کی صورت میں پھٹنے کا جواز فراہم نہیں کریں گے۔ نیز جیسا کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت میں بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے غیر مشروط مذاکرات کیے گئے، جس کی آڑ میں بعض دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا، توقع ہے کہ حکومت کسی بھی آپریشن سے پہلے ان امور اور اس ضمن میں کوتاہیوں کے مرتکب اداروں اور افراد کے محاسبے کو بھی یقینی بنائے گی۔ دریں اثناء اس ضمن میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومت کو وزیرستان میں کسی بھی ممکنہ آپریشن کے مضمرات سے متعلق انتباہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ واضح رہے کہ مشتاق احمد خان نے اپنی تقریر میں حکومتی اداروں کو خبردار کیا ہے کہ وزیرستان میں اس سے پہلے 21 آپریشن اور 11 امن معاہدوں کے باوجود امن کا مستقل بحال نہ ہونا حکومتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگر حکومت ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک بار پھر آپریشن کا ناپسندیدہ آپشن بروئے کارلاتی ہے تو قبائل سمیت پوری قوم ایسی کسی کوشش کو قبول نہیں کرے گی۔