شخصی گروہی اور طبقاتی بالادستی کی جنگ
اس وقت دو راستے ہمارے سامنے ہیں، ایک بحران بڑھانے والا ہے اور دوسرا اس کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ کشمکش اونٹ کو کس کروٹ بٹھائے گی اس کا حتمی فیصلہ 22 اپریل کو ہوجائے گا۔ ملک میں آئینی اور عدالتی بحران کے خاتمے کے لیئے حکومت، پی ڈی ایم اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے اپنے طور پر کچھ اقدامات کیے ہیں، اس سے ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے جس کے نتیجہ خیز ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سردست کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی، تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کے دو اعلیٰ ترین ادارے مقننہ اور عدلیہ محاذ آرائی کی کیفیت سے نکل آئیں گے۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالتِ عظمیٰ کے ججوں میں تقسیم کے خاتمے کے لیے مشاورت کا آاغاز کیا ہے، انہوں نے ساتھی ججوں سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں، پنجاب الیکشن سوموٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ اعتراض یہی تھا کہ چیف جسٹس اپنے ہم خیال ججوں کو ہی اپنے بینچ میں شامل کرتے ہیں۔ ان کے اس اقدام سے سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم کا معاملہ حل ہوسکتا ہے، لیکن وفاقی کابینہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکی جس کا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکم دیا تھا، اور اسے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت کا فیصلہ سمجھا جارہا ہے، جبکہ دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ چار ججوں نے اسے مسترد کردیا ہے، اسی بنا پر حکومت پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے سے گریزاں ہے۔
اس وقت ایک نہیں کئی محاذوں پر کام ہورہا ہے، اور سب کچھ اس توقع کے ساتھ ہورہا ہے کہ معاملات سلجھ جائیں گے۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہے کہ حکومتی اتحادی رہنمائوں نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان اتفاق ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی، اس سلسلے میں جوڈیشل کونسل سے متعلق آئین و قانون میں ترمیم کی جائے گی۔ قانونی ماہرین کے خیال میں یہ تجویز مقننہ اور عدلیہ میں محاذ آرائی بڑھا سکتی ہے۔ حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ اکثریت بھی حاصل نہیں، تاہم پارلیمنٹ میں اتفاقِ رائے ہوجائے تو یہ ناممکن نہیں ہے جس سے بحران کے حل ہونے کی امید بن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ججوں میں اختلافات دور کرنے کے لیے جو کوشش کی وہ مثبت بات ہے، حکومت بھی دفاعی نوعیت کے فیصلے کررہی ہے۔ اب اگر پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی ہوئی اپوزیشن نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو نقصان اُسے ہی ہوگا۔
دوسرا منظر یہ ہے کہ ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ اگر سیاسی، آئینی اور عدالتی بحران بھی آڑے آگئے تو مشکلات بڑھ جائیں گی اور ملک مزید مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ قومی آئینی کنونشن بھی ڈائیلاگ کا ہی ایک حصہ تھا جس میں تمام جج صاحبان سمیت ہر شعبہ زندگی کے افراد مدعو تھے۔ کنونشن میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، طلبہ، معذور افراد، ڈاکٹرز، وکلا سمیت 120 سماجی شخصیات شریک ہوئیں۔ بنیادی طور پر یہ پیپلزپارٹی کا شو تھا۔
تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پیر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرالیا گیا ہے۔ یہ بل منظوری کے لیے صدرِ پاکستان کو بھیجا گیا تھا، تاہم صدر نے بل واپس بھیج دیا۔ مشترکہ اجلاس میں جس وقت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا گیا اس دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ اب یہ بل منظوری کے بعد دستخط کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا، اگر صدر اِس مرتبہ بھی بل پر دستخط نہیں کرتے تو دس دن بعد یعنی 20 اپریل تک یہ بل خود ہی قانون بن جائے گا۔ سینیٹ نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرائے جانے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ سینیٹ میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کی قرارداد سینیٹر طاہر بزنجو نے پیش کی، الیکشن اخراجات بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئینی اور معاشی بحران کے پیش نظر فوری انتخابات کا انعقاد ملک کے مفاد میں نہیں ہے، اتحادی حکومت اپنے دور میں ’کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 70 فیصد کمی‘ لائی ہے۔ ملک میں انتشار پھیلایا جارہا ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوسکے۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جلد سائن کرلیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ میں رپورٹ 11 اپریل کو پہنچائی جانی ہے، وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کی پابند بنائی گئی تھی۔ عدالت الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لے گی، فنڈز جمع نہ کروانے کی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔
آئین کی پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور دستور کنونشن ہوا۔ 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک کا تیسرا آئین منظور کیا تھا۔
پاکستان کی پہلی دسور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا جسے ایوب خان کے فوجی انقلاب نے منسوخ کردیا، ایوب خان نے 1962ء میں دستور منظور کرایا جسے ان کے جانشین فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے منسوخ کردیا۔قیام پاکستان کے 25 سال بعد ملک کو متفقہ دستور ملا۔ آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا۔ آئین کی نمایاں خصوصیات میں پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وزیراعظم کو ملک کا سربراہ قرار دیا جانا، اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا جانا، صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا، آئین میں ترمیم کے لیے ایوانِ زیریں میں دو تہائی اور ایوانِ بالا میں بھاری اکثریت ہونا لازمی قرار دینا، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا، عدلیہ کی آزادی کی ضمانت، عصمت فروشی سمیت دیگر غیر اخلاقی معاملات پر پابندی، اور عربی زبان کو فروغ دینا شامل ہیں۔آج 50 سال بعد ملک کے آئینی ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں، حکومت اور اپوزیشن میں سرپھٹول جاری ہے، عوام معاشی بدحالی سے نڈھال ہیں۔ جب آئین سازی پر کام شروع ہوا تو بھٹو سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ایک متفقہ آئین بنانا چاہتے تھے، بھٹو صدارتی نظام چاہتے تھے لیکن دیگر جماعتوں کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام ہو۔ بھٹو نے اسے تسلیم کرلیا۔آئین کی تیاری کے دوران دو سیاسی قوتیں مد مقابل تھیں، ایک طرف جماعت اسلامی اور دوسری جانب پیپلز پارٹی تھی۔ اہم ایشوصوبائی خودمختاری کا معاملہ تھا۔صوبائی خود مختاری کے معاملے پر ولی خان اپوزیشن کی آواز تھے۔ آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں،صوبائی خودمختاری کے امور طے کیے گئے۔ بھٹو نے تجویز دی کہ اس کا 10 سال بعد دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ جو آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں مولانا شاہ احمد نورانی، غوث بخش بزنجو، پروفیسر غفور احمد، ولی خان، مولانا مفتی محمود، حفیظ پیرزادہ شامل تھے، بھٹو اس کمیٹی کے صدر تھے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے آئین کی تیاری میں دن رات ایک کردیے تھے۔ پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی اور مفتی محمود نے بے انتہا کام کیا۔ اس آئین کی تیاری کا کریڈٹ تمام جماعتوں کو جاتا ہے۔ بھٹو نے تجویز دی کہ پہلی اسمبلی جو بنے اس میں وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہو، اس کے بعد دوسری اسمبلی سے سادہ اکثریت کا اصول رائج ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کی کوشش تھی کہ ایک جمہوری دستور بن جائے۔ اس دستور میں اسلامی دفعات پر بہت بحث ہوئی۔ پاکستان کا پہلا دستور ’اسلامی جمہوریہ‘ کے نام سے بنا تھا، اس دستوریہ کے بعد کوشش کی گئی کہ ’اسلامی‘ کا لفظ نکال دیا جائے اور ایوب خان نے دوسرے دستور میں اسے ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا۔ بھٹو چاہتے ہوئے بھی 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات کو نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ بھٹو کا مزاج آمرانہ تھا۔ بھٹو نے دستور منظور ہونے کے بعد انسانی حقوق معطل کردیے اور ایک سال کے دوران ہی آئین میں ترامیم شروع کردیں۔ انہوں نے 7 ترامیم کیں، پھر ضیا الحق نے 8ویں ترمیم کرڈالی۔ 17ویں ترمیم اتفاقِ رائے سے پرویزمشرف کے مارشل لا کے بعد ہوئی۔ بہت سی ترامیم نظریۂ ضرورت کے تحت ہوئی ہیں۔ ان ترامیم سے دستور بدل گیا ہے۔ پہلے 8 ویں ترمیم نے حلیہ بگاڑا، پھر 18ویں ترمیم کے ذریعے سیاست دانوں نے خود صوبائی خودمختاری کے نام پر دستور تبدیل کردیا ہے۔ 50 سال بعد بھی آئین کے مطابق بہت سے کام کرنا ابھی باقی ہیں۔ اسلامی نظام حیات کا نفاذ ابھی باقی ہے، انسانی حقوق کے آرٹیکل سمیت آرٹیکل 3، آرٹیکل 37 اے، بی اور ای، آرٹیکل 25 اے پر عمل درآمد باقی ہے۔ گڈ گورننس تب ہوگی جب ملک سے بے روزگاری، غربت، بیماری اور جہالت ختم ہوگی۔
کچھ عرصہ پہلے سینیٹ کا 50 سالہ جشن ہوا جس میں وسیع البنیاد لوگوں کی شرکت ہوئی۔ تاہم کہا جاسکتا ہے صرف اشرافیہ موجود تھی۔کسی ٹریڈ یونین، کسانوں کے نمائندوں، دہشت گردی کا شکار ہونے والے شہریوں اور سیکورٹی فورسز کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ایسا ہی تھا۔
درجن بھر سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سالہ دور میں سوائے سیاسی دھما چوکڑی، مہنگائی اور بدحالی کے کچھ نہیں ملا، عوام مہنگائی کے پاٹوں میں اس قدر پس گئے کہ اب ان کے لیے دو کیا ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل تر ہوچکا ہے۔ 22 کروڑ عوام میں 98 فیصد کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کسی نہ کسی حوالے سے عوام پر مہنگائی کا کوئی بم نہ گرایا گیا ہو۔ اس ایک سال میں آٹا، چینی، دالیں، گوشت، سبزی، پھل، دودھ، تیل، گھی، پیٹرول، ادویہ… غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 30 سے 500 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال قبل جو آٹا 60 سے 70 روپے کلو مل رہا تھا، اب لوگوں کو اس کے لیے جان دینا پڑرہی ہے۔ اب تک درجنوں مرد و خواتین موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ سیاسی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پوری سیاست صرف ’’انتخابات ہوں گے یا نہیں؟‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دو بار پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے باوجود اب تک کسی کو یقین نہیں ہے کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں، کیونکہ جن کے پاس اقتدار و اختیار ہے وہاں سے کوئی سنجیدہ بات کے بجائے ایمرجنسی لگانے سمیت دیگر مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں، جب کہ اچھا خاصا سنجیدہ طبقہ بھی اس اہم مسئلے پر شرطیں لگا رہا ہے۔ آج کی یہ بے حسی کل کسی بڑے اور سنگین حادثے یا پچھتاوے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی عمر کے آٹھویں عشرے سے گزر رہا ہے، اور کم و بیش چار پانچ عشروں سے کسی اعلیٰ شخصیت کی تعیناتی یا اس کی ریٹائرمنٹ کے وقت سے ملک میں ایک ایسا کھیل جاری ہے جس نے آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو غیر مستحکم ہی کیا ہے۔ کم از کم جنرل آصف نواز مرحوم سے لے کر آج تک یہی کھیل جاری ہے۔ 2014ء میں پارلیمنٹ کے سامنے تحریک انصاف کا ایک سو بیس دن کا دھرنا تو اس کھیل کا کلائمکس تھا۔ یہ دھرنا ایک منظم منصوبہ بندی تھی جس کی پشت پناہی کرنے والی قوت کا مقصد سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک ایسی تیسری سیاسی قوت کے اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا تھی، جو مکمل تابع فرمان ہو۔ یہ سب کچھ تو ہوگیا مگر اس کے نتیجے میں سیاست میں تشدد در آیا اور ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے، لیکن اس کے منصوبہ ساز اعترافِ جرم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ خرابیِ بسیار کے بعد اب اس مکروہ جال سے باہر نکلنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن ضد، اَنا پرستی اور ہٹ دھرمی کے رویّے رکا وٹ بن گئے ہیں۔ تین چار عشروں سے جاری کھیل کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت، جسے ’’عوام کی حکومت، عوام کے ووٹ سے‘‘ کی تعریف سمجھا جاتا ہے، اب اس میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک مکمل اسٹیک ہولڈر بن گئی ہے۔ ملک میں یہ اندرونی کشمکش غیر ملکی قوتوں، لابیوں اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کو یہاں قدم رکھنے اور اپنے مفاد کے تحفظ کے فیصلے کرنے کے لیے نہایت زرخیز زمین فراہم کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے، اور عوام ہیں کہ وہ زندہ باد اور مُردہ باد کے نعرے لگانے والی مشین بن گئے ہیں۔ کسی سیاسی گروہ کی جانب سے سچ مل رہا ہے اور نہ سیاسی غلطیوں کے اعتراف کی جرأت نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جبکہ انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ بالادستی کی ایک نئی جنگ میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔