پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یہاں سیاست کسی پروسیس کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں اور حالات کے مطابق تبدیل ہوتی ہے۔ تبدیلی کی وجہ سیاسی، اخلاقی، آئینی اور قانونی اصول نہیں، بلکہ خود سیاسی فریقین کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تجزیہ کرتے وقت سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے عملی اقدامات کو بنیاد بناکر پیش گوئی کی جاسکتی ہے، لیکن جہاں یوٹرن، اور سیاسی حکمت عملی میں ایک واضح تضاد ہو یا ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ ہو، وہاں کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم اس وقت تین طرح کے سیاسی، قانونی اور آئینی تعطل کا شکار ہوگئے ہیں:
1۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری سیاسی لڑائی اور ٹکرائو کا ماحول، جو سیاسی اختلافات کے مقابلے میں عملاً سیاسی دشمنی میں ڈھل گیا ہے۔
2۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری ٹکرائو، حکومت کی جانب سے عدلیہ مخالف مہم، اور ججوں میں تقسیم کو گہرا کرنے کا عملی کھیل۔
3۔ خود چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں میں ایک واضح تقسیم، جو داخلی عدالتی لڑائی کو نمایاں کرتی ہے۔
ایسے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم قومی سطح پر سیاسی، انتظامی، قانونی اور آئینی تعطل کا شکار ہوگئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے انتخابات کو یقینی بنانے کے فیصلے کو بھی عملاً حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ٹکرائو کے ماحول کو ختم کرنے کے بجائے اس میں مزید شدت پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ پہلی بار ایک حکومت جو 13 جماعتوں پر مشتمل ہے، اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو براہِ راست تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ حکومت کے بقول اس فیصلے پر کسی بھی صورت عمل درآمد نہیں کیا جائے گا، اور یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے جس کا مقصد حکومت کو دیوار سے لگانا ہے۔ حکومت نے عدالتی فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ کو اپنے حق میں بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا کھیل شروع کردیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قراردادوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود حکومتی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے، ان کے بقول ہم اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے اوراس موقع پر انتخابات کروانا ہمارے خلاف ایک بڑی سازش ہوگی۔ حکومت عدلیہ پر دبائو ڈال کر انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے اور دوسری جانب قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی مدد سے انتخابات کو ملتوی کیا جاسکے۔ اب پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی و سینیٹ سے ایک ہی روز میں انتخابات کے حق میں پیش اور منظور ہونے والی قرارداد سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں فوری طور پر دو صوبوں میں انتخابات کا انعقاد عدالتی فیصلے کے باوجود ممکن نظر نہیںآتا۔ اسی بنیاد پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھی عمران خان یا عدلیہ مخالف مہم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی آئینی سطح کی پچاس سالہ گولڈن جوبلی کی تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ کی شمولیت اور سیاسی قیادت کے درمیان بیٹھ کر عدالت مخالف تقریریں سننا بھی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت نے خاص مقصد کے لیے یہ سیاسی دربار سجایا، اور اب جسٹس فائز عیسیٰ کی شمولیت کو بنیاد بناکر اس کے حق اور مخالفت میں سیاسی اسکورنگ کا کھیل بھی عروج پر ہے۔ خبر ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے جج دوستوں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ان حالات میں پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کریں، لیکن جسٹس فائز عیسیٰ شامل ہوئے اور وہاں عدلیہ مخالف تقریریں سنیں اور اپنا مؤقف بھی پیش کیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن بھی ختم ہوگئی ہے اور آج الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کے اقدامات کی روشنی میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے جس میں فنڈز اور سیکورٹی پلان پر حکومتی مؤقف پیش کیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات میںکمی کا بل بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرالیا ہے۔ دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر نے بھی چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اسپیکر سے ایک خط میں یہ مطالبہ کردیا ہے کہ ہمیں عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا جائے اور اس میں پارلیمنٹ ترامیم کرے، کیونکہ یکم مارچ اور 4 مارچ کے عدالتی فیصلے نے الیکشن کمیشن کو آئینی اختیار سے محروم کردیا ہے، اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا نے بھی صوبائی سطح پر فنڈز اور دیگر معاملات میں بہترصورت حال نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں انتخابات کرانے سے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس سمیت چار ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات درج کروا دی گئی ہیں۔ یہ مطالبہ بھی حکومت کی جانب سے سامنے آیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں چیف جسٹس فوری طور پر استعفیٰ دے دیں تاکہ عدالتی بحران کو ختم کیا جاسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی سطح پر آئینِ پاکستان کے پچاس برس مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات جاری ہیں اور یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہورہا ہے جب حکمران اتحاد خود آئین کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہے۔ ہمارے سیاسی منظرنامے میں ہر فریق کی اپنی اپنی آئینی اور سیاسی تشریح ہے، اور اس عمل میں ہمارے موجودہ آئین کی سیاسی و قانونی بے بسی کے پہلو کو بھی نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی سیاسی عزائم اور انتخابات نہ کرانے کی پالیسی یا عدالتی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کے عمل کے بعد سپریم کورٹ کیا راستہ اختیار کرتی ہے۔ کیا واقعی وزیراعظم سمیت دیگر اہم افراد کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی عدم قبولیت پر توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا، اور کیا واقعی سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوئی بڑے یا غیر معمولی فیصلے کرے گی؟کیونکہ اب ساری نظریں سپریم کورٹ کی ہی جانب ہیں اور انتخابات ہونے یا نہ ہونے کی بات بھی سپریم کور ٹ کے فیصلے سے جڑی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے دو ہی راستے ہیں، پہلا نظریۂ ضرورت اور دوسرا اپنی رٹ کو قائم رکھنے کے لیے بڑے اور غیرمعمولی فیصلے۔ کیونکہ اگر واقعی سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر کھڑی ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کا عمل ملک میں ایک بڑے آئینی تعطل اور دونوں فریق میں شدید ٹکرائو کا ماحول پیدا کرے گا۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی ہورہا ہے کہ سیاسی سطح پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں موجود تعطل یا اختلافات نے سیاسی راستے محدود یا ختم کردیے ہیں، اسی تناظر میں ہمیں عدالتی سطح کی مداخلت بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی کسی طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی دبائو کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ان کے حامی پیغام دے رہے ہیں کہ چیف جسٹس آخری حد تک اس لڑائی میں آئین کی پاس داری کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خود چیف جسٹس کے خلاف بہت زیادہ منفی مہم چلائی جارہی ہے جس میں بعض وزرا کی جانب سے سخت زبان کے استعمال سمیت گالیاں بھی دی جارہی ہیں۔ کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اِس وقت اُس کے سیاسی کھیل یا سیاسی عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ عدلیہ یا موجودہ چیف جسٹس ہیں، اور اسی بنیاد پر اُن کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ حکومتی عزائم کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان اور تحریک انصاف چیف جسٹس یا عدلیہ کی حمایت میں سرگرم نظر آتے ہیں، جس سے خود ایک بڑی لڑائی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
اگرچہ اس پوری سیاسی لڑائی یا سیاسی تعطل میں کہیںکہیں مذاکرات اور مفاہمت کی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی وزیراعظم کو پیغام دیا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ بغیر کسی شرط کے بات چیت کا آغاز کریں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ حکومت یا مسلم لیگ (ن) کی عدالتی لڑائی میں آخری حد تک نہیں جائے گی، اور نہ ہی وہ اس محاذآرائی میں بڑی فریق بننے کے لیے تیار ہے۔ یقینی طور پر موجودہ صورتِ حال کا حل حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات ہیں، اور یہی عمل موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیونکہ جب حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ عمران خان کی شرائط کی بنیاد پر اُن سے مذاکرات نہیں کرے گی تو دوسری جانب عمران خان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر اس کا بنیادی نکتہ فوری طور پر عام انتخابات ہی ہوں گے، اور اگر اس نکتے کو شامل نہیں کرنا تو پھر وہ کیوں مذاکرات کا حصہ بنیں! ایک تجویز آج بھی موجود ہے کہ اگر واقعی حکومت صوبائی سطح کے انتخابات سے بچنا چاہتی ہے تو اس کا ایک حل فوری طور پر نئے عام انتخابات کا راستہ ہے۔کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مؤقف سے کچھ آگے بڑھے اور حکومت اپنے مؤقف سے کچھ پیچھے آئے تو ایک درمیانی راستہ جون یا جولائی میں پورے ملک میں عام انتخابات کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ لیکن یہاں بھی بڑا مسئلہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کا ہے۔ دونوں کے لیے انتخاب ایک ڈرائونا کھیل بن گیا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں انتخابات ان کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہوں گے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) ہر صورت میں انتخابات سے فرار چاہتی ہے، اور عمران خان تو کہتے ہیں کہ یہ حکومت اِس برس اکتوبر میں بھی انتخابات نہیں کروائے گی۔ اس میں کافی وزن ہے، جب حکومت صوبائی انتخابات سے فرار کو یقینی بنانے کے لیے نئی مردم شماری، سیکورٹی، دہشت گردی اور مالیاتی بحران کا جواز پیش کرسکتی ہے تو یہ مسائل تو اِس برس اکتوبر میں اور خرابی کی صورت میں موجود ہوں گے، تو کیا اُس وقت بھی انتخابات سے فرار کے لیے یہی مسائل پیش ہوں گے؟ یہ واقعی بدقسمتی ہے کہ ہم انتخابات کو ملکی سطح پر آئینی تقاضے کے بجائے ایک جماعت کے مخصوص سیاسی مفادات کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں، اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کس کے حق میں ہوں گے اور کس کے لیے خلاف جائیں گے۔ حکومتی مؤقف ’پہلے سازگار ماحول یا ترازو کا پلڑا برابر ہوگا تو انتخاب ہوں گے‘ ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات کے خلاف پورا ایک منصوبہ موجود ہے۔ بدقسمتی سے اس حکومتی منصوبے کو بعض ریاستی اداروں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے جن میں الیکشن کمیشن سرفہرست ہے۔ عمران خان کی حکومت پر ایک الزام یہ تھا جو بہت حد تک درست بھی ہے کہ ان کا حکومتی نظام ہائبرڈ تھا جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ کھڑا تھا۔ لیکن یہ جو آج تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد ہے وہ بھی اسی ہائبرڈ نظام کی بنیاد پر ہی چل رہا ہے، اور اس حکومت کی بھی بڑی طاقت کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر اس وقت سیاسی مخالفین کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی سنگین بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار اور سیاسی کارکنوں کو دہشت گردی کے مقدمات سے جوڑنا خود ایک خطرناک کھیل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کا داخلی بحران صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ اس کی گونج ہمیں دنیا بھر میں سننے کو مل رہی ہے۔ اس کھیل کی وجہ سے ملکی معیشت بھی دائو پر لگ چکی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف کے اجلاس میں عدم شرکت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے کہ ہم اس داخلی بحران یا غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے خود دنیا بھر میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ اس کی ایک وجہ ملک میں جاری سیاسی ایڈونچر اور سیاسی مہم جوئی ہے جس میں ملک کو آئین اور قانون یا سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں چند افراد کی خواہش کے ساتھ چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں کوئی بھی سیاسی تعطل ہوتا تھا تو عدالت یا اسٹیبلشمنٹ آگے بڑھ کر کوئی درمیانی راستہ نکال لیتی تھیں، لیکن اس وقت بحران کی سنگینی یہ بھی ہے کہ خود عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھی اس بحران میں کہیں نہ کہیں خود فریق بن چکی ہیں۔ اس بداعتمادی کے کھیل میں کیسے اعتماد سازی ہوگی اورکیسے یہ ملک اس بحران کے خاتمے کے بعد عام انتخابات کی جانب بڑھ سکے گا؟کیونکہ اس بحران کا واحد علاج عام انتخابات ہی ہیں، اور اگر ہم نے انتخابات سے گریز کی پالیسی جاری رکھی تو اس کے نتیجے میں مزید بحران اور ٹکرائو کا ماحول دیکھنے کو ملے گا، اور اس کی ذمہ داری بھی سیاسی اور غیر سیاسی فیصلہ کن قوتوں پر ہوگی جو معاملات کو حل کرنے کے بجائے بگاڑ کی سیاست کو نمایاں کررہی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ اصل فیصلہ ساز قوتوں سمیت تمام سیاسی قوتیں اَنا، ضد یا ہٹ دھرمی چھوڑ کر مفاہمت کریں اور درمیانی راستہ نکالیں۔ یہی قومی مفاد میں ہوگا۔ طاقت کے زور پر کسی بھی سیاسی قوت کا راستہ روکنا یا اُس کودیوار سے لگانے کی پالیسی پہلے بھی ناکام رہی اوراب بھی ناکام ہوگی۔