موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سنبھالے ایک برس مکمل ہو چکا، برسراقتدار تیرہ جماعتی اتحاد کی حکومت کے بارہ ماہ کی تکمیل پر کیفیت یہ ہے کہ : ؎
جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
بارہ ماہ کے عرصہ میں خوشی اور مسرت تو دور کی بات ہے، کوئی ایک بھی دن عوام کو ایسا نصیب نہیں ہوا جس میں وہ بے فکری سے اطمینان و سکون کا سانس لے سکے ہوں، سال پورا ہونے پر ناقابل تردید زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں نے سراسر ذاتی مفاد پر مبنی قانون سازی کے ذریعے احتساب کے قومی ادارے کے پر کاٹنے اور اپنے خلاف بدعنوانی و بددیانتی کے جرائم میں قائم مقدمات ختم کروانے کے علاوہ کوئی ایک بھی کام ایسا نہیں کیا جس کی ستائش کی جا سکے، حکمرانوں کی سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نقشہ یہ سامنے آتا ہے کہ پورا ملک اور اس کا ہر ہر شعبہ بحرانوں کی زد میں ہے، نادہندگی کی حدوں کو چھوتے ہوئے معاشی بحران کا عالم یہ ہے کہ حکمرانوں کے مشکل فیصلوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، غربت، بے روز گاری اور گرانی کے ہاتھوں تنگ لوگ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگے ہیں چنانچہ آئے روز بچوں سمیت خود کشی کی داستانیں ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں مگر برسراقتدار طبقے کی بے حسی کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد ہیں بلکہ اپنے عیش و عشرت اور بھاری مراعات میں معمولی کمی پر بھی آمادہ نہیں، معاشرتی زبوں حالی اس حد کو چھو رہی ہے کہ مایوسی کے شکار نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں یا نشے میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں ایک اطلاع کے مطابق ہر روز بارہ سو نوجوان سگریٹ نوشی کے عادی ہو رہے ہیں زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان بارہ سو میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی بھی شامل ہے جو زیادہ تر کالجوں اور جامعات میں زیر تعلیم ہیں، سیاستدان اس تباہی کو روکنے کی تراکیب سوچنے کی بجائے باہم دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ان کی اہم ترجیح ہے، ایک سے دوسرا بحران جنم لے رہا ہے اس وقت پارلیمنٹ اور عدلیہ ایک دوسرے کے مد مقابل میدان سنبھالے بیٹھی ہیں، ایک جانب سے دوسرے ادارے کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے سوچے سمجھے اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر دھڑا دھڑ قانون سازی ہو رہی ہے تو دوسری جانب سے صبح شام فیصلوں کی بھر مار ہے، 1973ء کا آئین اپنے جشن نقرئی کے موقع پر اداروں کے مابین فٹ بال بنا ہوا ہے، ہر کوئی اس کی شقوں کو مطلب کے معانی پہنا رہا ہے، ان تمام کوششوں کا محور مد مقابل کو نیچا دکھانے اور اپنی برتری ثابت کرنے کے سوا کچھ نہیں، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ججوں کی باہمی چپقلش نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے الیکشن کمیشن بھی صاف، شفاف، منصفانہ غیر جانبدارانہ اور سب کے لیے قابل قبول انتخابات کروانے کے لیے مطلوب غیر متنازعہ حیثیت برقرار رکھنے میں قطعی ناکام رہا ہے۔ اب اس نے بھی اپنے اختیارات میں اضافہ کے لیے مجلس شوریٰ میں سینٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو خطوط لکھ دیئے ہیں۔ یوں ہر لمحہ گھمبیر صورت حال میں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ بقول غالب: ؎
حیراں ہوں کہ دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
معاشی، معاشرتی، سیاسی، عدالتی اور آئینی بحرانوں کے اس ہجوم میں قومی سلامتی اور دفاع سے متعلق معاملات بھی تسلی بخش نہیں یہاں بھی ایک بحرانی کیفیت طاری ہے، دشمن باہر سے براہ راست حملہ آور ہونے کی بجائے اندرونی تخریب کاری کے ہتھیار آزما رہا ہے، وطن عزیز خصوصاً صوبہ خیبر اور بلوچستان دشمن کے نشانے اور بری طرح دہشت گردی کی سرگرمیوں کی زد میں ہیں۔ ہماری مسلح افواج اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کے جوان جذبۂ حب الوطنی سے سرشار دفاع وطن کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر مصروف عمل ہیں مگر دہشت گردانہ کارروائیاں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ادھر کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی سرگرمیاں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں، یہاں بھی غیر ملکی ہاتھ کی نشاندہی کی جا رہی ہے تاہم اس سب کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں جس کی نشاندہی مولانا ظفر علی خاں نے ان الفاظ میں کی تھی: ۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
حکمرانوں کو ذاتی مسائل کے حل اور مخالفین کے خلاف انتقامی اقدامات سے فرصت ملے تو ان پر لازم ہے کہ اپنی گزشتہ ایک برس کی کارکردگی کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ انہوں نے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور ان کے ایک سال کے اقتدار میں عام آدمی کی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے، ناقابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تمام مسائل و مشکلات لا یخل ہر گز نہیں، ضرورت اخلاص و ایثار کے جذبے سے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ہے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہل کریں، ملکی مفاد کو مد نظر رکھ کر سنجیدگی سے تمام متعلقین کو مذاکرات کی دعوت دیں اور ذاتی انا کے خول سے نکل کر افہام و تفہیم کے جذبہ سے مسائل کا حل تلاش کریں ورنہ جون ایلیا ہمارے ہی بارے میں کہہ گئے ہیں کہ : ؎
ہم بھی عجیب لوگ ہیں، اتنے عجیب ہیں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
(حامد ریاض ڈوگر)