’’بیسویں صدی کا آغاز مسلمان امت کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا، جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس تاریک دور ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے ایسے افراد سے امت کو نوازا جنہوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمعِ ہدایت و رسالت کی روشنی کو اس طرح پھیلادیا کہ غفلت، غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی اور احیائے اسلام اور امت کے ایک عالمگیر قوت کی حیثیت سے ابھرنے کے آثار صبح نو کی طرح نمودار ہوگئے ہیں۔
اب یہ ذمہ داری امتِ مسلمہ کو سونپی گئی ہے کہ وہ شہادتِ حق، دعوتِ الی اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کارِ نبوت انجام دے، تاکہ وہ حق کی علَم بردار اور اللہ کی اس نعمت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے اور ان کو اس کی زندگی بخش توانائی سے شادکام کرنے کی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ اللہ نے ہر دور میں، ہر علاقے میں اور ہر قسم کے حالات میں ایسے نفوسِ قدسیہ سے امت اور انسانیت کو برابر نوازنے کا اہتمام فرمادیا، جو اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں۔
جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا ان میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ سترہ سالہ نوجوان نے 1920ء میں اپنے ایمان اور ضمیر کے تقاضے کے طور پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی ننھی منی شمع روشن کی تھی۔ 1930ء کے عشرے میں علمی اور فکری افق اس کی ضوفشانی منور ہوچکے تھے، پھر6 2 اگست 1941ء سے شروع ہونے والی ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد کی راہ نمائی کرتے ہوئے 1979ء میں جب یہ مجاہد اپنے رفیقِ اعلیٰ کی طرف لوٹ گیا تو یہ دعوت اسلامی تحریک کی عالمی لہر بن کر مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل کر ایک جان دار آواز بن چکی تھی۔
الغرض مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ مولانا نے عالمِ اسلام میں اہلِ علم کی بڑی تعداد کو متاثر کیا جنہوں نے دوسرے ممالک میں ایسی تحریکوں کو جنم دیا جن کا مقصدِ وحید اقامت ِدین تھا۔ ایسی تحریکیں جو فکر ِمودودیؒ سے متاثر تھیں ان کے وجود سے امتِ مسلمہ میں بیداری کی تحریک چلی۔ ان تحریکوں کی تخلیق و تشکیل میں فکرِ مودودیؒ ایک اہم کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی یہ کاوش قبول کرے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابیوں کا سبب بنائے، آمین۔
دنیا کے تمام معاملات میں سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے۔ حقیقت کو ایسے ہی دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے کہ وہ ہے، چاہے وہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ صاحبزادہ محمد امانت رسول صاحب نے اس کتاب میں اسی حقیقت کو جاننے کی کامیاب کوشش کی ہے۔