مایہ ناز خطیب، ادیب، شاعر، دانش ور، کلامِ اقبال کے شیدائی اور قائداعظم کے معتمد ساتھی نواب بہادر یار جنگ (1905ء۔ 1944ء) کا شمار جدوجہدِ آزادی کی تاریخ کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ عشقِ نبیﷺ، نواب بہادر یار جنگ کا سرمایہ حیات تھا۔ سیاست کے میدانِ خارزار میں قدم رکھنے سے پہلے نواب بہادر یار جنگ نے مبلغِ اسلام کی حیثیت سے 1927ء میں ”انجمن تبلیغِ اسلام“ قائم کی اور تین سال تک حیدرآباد دکن کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ کرکے ہزاروں افراد کو مشرف بہ اسلام کیا۔
نواب بہادر یار جنگ کی مجلسی زندگی کا آغاز میلاد النبیﷺ کی محافل میں بے مثال خطابت سے ہوا، جس کے اعتراف میں قوم نے ان کو ”قائدِ ملت“ اور ”لسان الامت“ کا لقب دیا۔ 1934ء میں میلادالنبی ﷺ ہی کے ایک جلسے میں قائداعظم محمد علی جناح نے نواب صاحب کی تقریر سنی تو ان کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں تقریر کرنے کی دعوت دی۔ جس کے بعد ان کی آواز برصغیر کے گوشے گوشے میں گونجنے لگی اور وہ مسلم لیگ کی آواز و ترجمان بن گئے۔ قائداعظم نے بہادر یار جنگ کی فن خطابت پر کامل دسترس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا: ”بہادر یار جنگ کے بعد کسی کا بولنا غلطی ہے۔“
قائداعظم کی ایما پر نواب صاحب مسلم لیگ کے سالانہ اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے، اگرچہ ریاستی باشندہ ہونے کے باعث وہ مسلم لیگ کے باقاعدہ رکن نہ تھے اور نہ ہی ورکنگ کمیٹی کے ممبر.. لیکن قائداعظم انھیں بطور خاص ورکنگ کمیٹی کے ہر اجلاس میں مدعو کرتے۔ سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر والیِ ریاست کی طرف سے پابندیاں عائد ہوئیں تو خطاب و منصب چھوڑدیا، جاگیر سے بھی دست کش ہوگئے لیکن اپنے نظریات سے دست بردار نہیں ہوئے۔
1938ء میں نواب صاحب نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1939ء میں حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ”مجلس اتحاد المسلمین“ کی بنیاد رکھی۔ نواب صاحب کی قیادت میں یہ مجلس مسلمانانِ حیدرآباد دکن کی سب سے اہم سیاسی نمائندہ جماعت بن گئی اور حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
نواب صاحب نے ہندوستان کی دیسی ریاستوں کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے 1940ء میں ”آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ“ قائم کی اور اس کے ذریعے نہ صرف دیسی ریاستوں میں موجود ”اسٹیٹس کانگریس“ کی ریشہ دوانیوں کو روکا بلکہ وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انھیں آل انڈیا مسلم لیگ کا حامی بھی بنادیا۔ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر نواب صاحب نے ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں کے دورے کیے۔ قراردادِ لاہور(1940ء) کا تاریخی اجلاس بہادر یار جنگ کی کاوشوں اور ثمرات ہی کے باعث منعقد ہوسکا۔
26 دسمبر 1943ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی میں نواب صاحب نے ایک شاندار تقریر کی جس میں انھوں نے پاکستان کے دستوری، معاشی، سیاسی اورتعلیمی نظام کی واضح انداز میں نشاندہی کی اور استحکامِ پاکستان سے متعلق جو نظریات پیش کیے وہ مکمل طور پر اسلامی نظامِ حیات سے ہم آہنگ تھے۔
نواب بہادر یار جنگ کو پاکستان کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے بھی اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ اردو کو ہندوستان میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی روح اور پاکستان کی بنیاد کا پہلا پتھر خیال کرتے تھے، اسی لیے وہ انگریزی زبان پر عبور رکھنے کے باوجود ہمیشہ اردو زبان میں تقریر کرنا اور اردو میں خط کتابت کرنا پسند کرتے تھے، اور یہ بات ان کے لیے گوارا نہیں تھی کہ کوئی شخص بغیر کسی مجبوری کے انھیں اردو کے سوا کسی دوسری زبان میں خط لکھے۔ وہ اکثر تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں اور دوسرے لوگوں کو اردو کو نظرانداز کرنے پر ٹوک دیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر مسلم لیگ کی نائب صدر عائشہ حسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ”مسلم لیگ کی ایک خاتون نائب صدر کی حیثیت میں آپ سے مجھے ہرگز توقع نہ تھی کہ آپ مجھے غیر ہندوستانی زبان میں مخاطب کریں گی۔ اعتراضاً نہیں بلکہ احتجاجاً عرض کررہا ہوں۔“
نواب بہادر یار جنگ کی سیاسی زندگی بہت مختصر یعنی صرف چھے سالوں(1938ء۔ 1944ء) پر محیط تھی۔ لیکن انھوں نے اس مختصر سے عرصے میں اپنی جدوجہد، حق گوئی اور اپنی بے مثال خطابت کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں دینی حمیت و سیاسی بصیرت کو اجاگر کیا اور حیرت انگیز طور پر برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔
پیشِ نظر کتاب شاہانہ بیگم کا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے جسے انھوں نے ڈاکٹر سید وسیم الدین (سابق صدر، شعبہ بین الاقوامی تعلقات، وفاقی اردو یونیورسٹی) کی زیر نگرانی لکھا ہے۔ یہ مقالہ درجِ ذیل سات ابواب پر مشتمل ہے:
1۔ بہادر یار جنگ، سوانح و شخصیت، 2۔ تحریکِ پاکستان میں نواب بہادر جنگ کی ادبی خدمات، 3۔ مسلمانانِ ہند کی سیاسی بیداری میں بہادر یار جنگ کا کردار، 4۔ دو قومی نظریہ اور بہادر یار جنگ، 5۔ اسلامی ریاست کا قیام اور بہادر یار جنگ، 6۔ جدوجہد آزادی اور تشکیلِ پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کی خدمات، 7۔ بہادر یار جنگ کے افکار و نظریات اور استحکامِ پاکستان
اس مقالے میں حیدرآباد دکن کے تاریخی پس منظر کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے اور ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے جدوجہدِ آزادی اور تشکیلِ پاکستان میں بہادر یار جنگ کی خدمات کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مقالہ نواب بہادر یار جنگ کی سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ مذہبی، سماجی، فلاحی اور علمی خدمات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔