تصور تہذیب سے تصویروں کی تہذیب تک خدا کی صورت پر؟ عہد نامہ قدیم وجدید کی تشریحات

آدمی کے ’وجود‘ کے بارے میں کتاب پیدائش کی تشکیلات نے، کہ ’خدا نے اُسے اپنی صورت پرخلق کیا‘، بڑے عالمانہ مباحث، تبصرے، اور مکالمے ہوئے ہیں۔ یہ عیسائی اور یہودی دونوں روایات میں کثرت سے ملتے ہیں۔ عہد نامہ قدیم سمجھاتا ہے کہ ’خدا کی صورت‘ سے مراد تخلیقِ آدم کا وہ لمحہ ہے کہ جسے زوال نہیں۔ عہد نامہ جدید اس کی تعبیرنو یوں کرتا ہے کہ ’خدا کی صورت‘ سے کامل مراد یسوع مسیح علیہ السلام ہیں، ایک ایسی صورت کہ جو خدائی کے کامل پرتو کا اصل نمونہ ہے، جسے ایک معتقد زیادہ سے زیادہ اختیار کرکے نجاتِ اخروی کی امید کرتا ہے۔

عہد نامہ قدیم کے ذرائع
تخلیق آدم علیہ السلام کا واقعہ دونوں توریت تلمود ذرائع سے ملتا ہے۔ دو اصطلاحات tselem (صورت) اور demuth (مشابہت) سامنے آتی ہیں۔ آدمی اور خدا کے تعلق میں پہلی اصطلاح کی تشریح ٹھوس مشابہت جبکہ دوسری اصطلاح مشابہت کے تجریدی خیال کی نمائندگی کرتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ’خدا کی صورت پر‘ کا معاملہ مبہم ہے۔ The Interpreter’s

Dictionary to the Bible ہمیں بتاتی ہے کہ یہ دونوں اصطلاحیں عہد نامہ قدیم میں ٹھوس اور تجریدی معنوں میں بیان ہوئی ہیں۔ عہد نامہ قدیم میں tselem کی اصطلاح سترہ بار استعمال ہوئی، کتاب پیدائش کے متن میں اس کا ذکر پانچ مقامات پرنمایاں اورصراحت سے آیا ہے، دس مرتبہ ٹھوس مادی صورت (مجسمہ، تصویر) میں بیان ہوا، جبکہ دو بار خواب یا سایہ کی صورت میں بیان ہوا ہے۔ یہ زیادہ روحانی اور تجریدی محسوس ہوتا ہے۔

قبالہ کی باطنی تشریح میں tselem دومعنوں میں بیان ہوا، اور اس کی بنیاد دو اصطلاحوں halom (خوابیدہ تصور) اورgolem (مادی تصور) کے درمیان تضاد کی حالت ہے، جو بیک وقت آدمی کے روحانی اور مادی وجود میں ترتیب سے پائی جاتی ہیں۔ کتاب پیدائش میں ’تخلیق‘ کی وضاحت میں دوسری اصطلاح demuth استعمال ہوئی ہے۔ یہ بھی ٹھوس اور تجریدی وجود میں ہم آہنگی ظاہر کرتی ہے۔ اس اصطلاح کے الجھاؤ نے بہت سے یہودی ماہرین کے ذہنوں پرگہرا اثر چھوڑا ہے۔ بارہویں صدی کے معروف مفکر موسیٰ بن میمون نے شہرئہ آفاق تصنیف Guide to the Perplexed کا پہلا باب اس معمے کو سلجھانے میں صرف کیا ہے، اس کے معنوں پر مفصل تبصرہ کیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ demuth خاص طور پر آدمی کی خدا سے روحانی ہم آہنگی کی توضیح کرتی ہے، لیکن اگر اسے مادی مفہوم میں لیا جائے تو بت پرستانہ صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جیسا کہ Yahweh اسرائیل سے استفسار کرتا ہے کہ بھلا وہ کون سی صورت ہوسکتی ہے جس میں تم مجھے پاسکو؟ Isaiah, 40:25۔ ایک تیسری اصطلاح temuna بھی مقدس کتابوں کے متن میں ملتی ہے۔ یہ بھی بنیادی طورپرمتناقض معنوں میں ہے۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے دس احکامات میں دوسرا حکم ایسی ’مورت تراشنے، تصویر منقش کرنے‘ سے منع کرتا ہے جس میں خدا کی شبیہ کا شائبہ (temuna) تک پایا جاتا ہو۔

The Interpreters Dictionary of the Bible کے مصنفین عہد نامہ قدیم کے متون میں اس خیال پر کہ ’خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں دیکھا جاسکتا‘ کئی تعبیری جہتیں ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں۔ ہماری توجہ اس مرکزی حقیقت پر بھی مرکوز کی جاتی ہے جسے کتاب پیدائش میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ آدمی کا دائرئہ اختیار و تصور ہی نہیں کہ خدا کو خیال میں لاسکے، اُسے متصور کرسکے، اُس کی شبیہ بناسکے، اُسے اس کام سے سختی سے روک دیا گیا ہے۔ بلکہ وہ خدا ہی ہے جس نے آدم کو اپنی صورت پرخلق کیا، اور اُسے خود جیسا کہہ کر دراصل فاصلے اور بُعد کو واضح کیا ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ عہد نامہ قدیم آدمی کو جسم اور روح کے دہرے پن میں پیش نہیں کرتا۔

یہ مصنفین ’خدا کی صورت پر‘ عالمانہ تجزیہ کرتے ہیں، اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:
”باوجود اس کے، کہ اس خیال پر بڑا تفکرکیا گیا، کہ خدا سے آدمی کی ظاہری مشابہت موجود ہوسکتی ہے یا نہیں، حزقیل جو بڑے عالم گزرے ہیں، کہتے ہیں یہ مشابہت تجریدی ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خدا کی ’صورت‘ پر آدم کی ’تخلیق‘ سے مراد شخصی وصف ہے۔ خدا نے آدمی کو تخلیقی صلاحیتیں بخشی ہیں، تاکہ وہ خود کو مطلوبِ کامل کے درجے تک لے جائے۔ ’خدا کی صورت پر‘ سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کو اختیار دیا گیا، جوابدہی کا اہل بنایا گیا، کہ شاید وہ اپنے وجود کی تکمیل کرسکے۔“
عہدنامہ قدیم میں خدا کی صورت پر بہترین توضیح یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی زمین پر خالق کائنات کا تخلیقی نمائندہ ہے۔ بدترین بات یہ ہوسکتی ہے کہ یہ آدمی کے بت پرستانہ رجحان پر سنگین انتباہ ہو کہ کہیں وہ تخلیق میں خدا کی برابری نہ کرنے لگے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں باتیں ہی ممکن ہیں۔ آدمی کے تخلیقی وصف کے لیے توریت تلمود کی تینوں مرکزی اصطلاحیں (tselem, demuth, temuna) دُھند میں لپٹی ہیں۔
اپنے معروف رسالہ (The Spirit of Life) میں، جو انیس ویں صدی میں شایع ہوا، ولوزائن کے ربی نے لکھا کہ آدمی کی خلقت میں رفعت اور پستی دونوں حالتوں کا امکان اور توازن قائم کیا گیا ہے۔ آسمان اور زمین تخلیق کے پہلے روز ہی وجود میں لائے جاچکے تھے۔ ہائم ’مدراش‘(Genesis Rabba,12) کا حوالہ دیتا ہے، جو اعلان کرتا ہے کہ جب خدا نے آدمی کی تخلیق کا ارادہ کیا، اُسے اس بنیادی معمے کا سامنا ہوا: ”کہ اگر آدم کو صرف عناصرِ آسمان سے خلق کیا تو کائنات میں کہیں بھی امن باقی نہ رہے گا، اور اگر صرف عناصرِ زمین سے پیدا کیا تووہ عالمِ بالا کے لیے خطرہ بنا رہے گا“، اس لیے خدا نے چاہا کہ آدم کی تخلیق دونوں طرح کے عناصر سے کی جائے۔ اُس نے زمین سے خاک لی اور اُس میں زندگی کی روح پھونک دی۔ (Gen.2:7)
تخلیق کے اس سیاق و سباق میں آدمی سوچنے والی ایسی ہستی بن کر سامنے آیا، جو زمین سے آسمانوں تک رسّی کی مانند تنی ہوئی ہے۔ ربی ہائم اس متن کی شرح میں لکھتا ہے کہ درحقیقت آدمی کی تخلیقی قوت عرش اعلیٰ سے ماخوذ ہے، کہ جب خدا نے آدمی میں روح پھونکی۔ یہ تخلیقی قوت خدا سے آدمی اور پھر ساری دنیا کو منتقل ہوئی۔ اس طرح تخلیق کے اعلیٰ اور ادنیٰ درجوں میں ابلاغ کی صورت ممکن ہوئی۔
تخلیق کی اس دو رویہ فطرت پر قبالہ مکتبہ فکر نے بھی حاشیہ آرائی کی۔ یہ سولہویں صدی کی بات ہے، قبالہ کا متن Tiqqunei Zohar تعارف میں تفصیل بیان کرتا ہے۔ یہ تفسیر’’تخلیق‘‘ کو دو دنیاؤں میں ناگزیر تعامل (Olam ha-Yetsira) کے طور پر دیکھتی ہے۔ ایک دنیا ’عالم تجلیات‘(Olam ha-Atsilut) کی ہے جو عرش اعلیٰ سے متعلق ہے، اور دوسری ادنیٰ مادی دنیا (Olam ha-Assiya) ہے۔
ان دنیاؤں کے بین ایک مقام پر فرشتے اور وہ انسان بستے ہیں جو پیکر خاکی میں نورِ خدا سے ہم آہنگی قائم کرلیتے ہیں۔ بالکل اسی طرز پر پہلا آدمی جسے خدا نے خلق کیا، وہ خدا کی اعلیٰ جنتوں میں رہا، اور پھر مادی دنیا کے عصیان میں اترگیا، اور پھر اُسے عالم تخلیق کے وسط Yetsira میں قیام کی ترغیب دی گئی۔ اس کے لیے آدمی کے جسم کا استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے، کہ جہاں وسط میں قلب اور جگر پائے جاتے ہیں، یہ زندگی کی تخلیقی قوت کی جانب علامتی اشارہ بھی ہے۔ اسے ذرا پھیلا کر دیکھا جائے، آدمی کا زورِ خطابت اورقوتِ تخیل دنیائے تخلیق میں متحرک شراکت دارنظرآتے ہیں، یہاں کتابِ مقدس ’آدمی کے دل کے تصورات‘ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ قبالہ کی تفسیروں میں وہ مقامات کہ جہاں تخلیق کے اعلیٰ مدارج سے دنیاؤں کی کونیاتی تقسیم تک اور پھر آدمی کے جسم (سر، دل اورپاؤں)کی بشریاتی درجہ بندی تک تعبیرات ملتی ہیں۔
ولوزائن کے ربی کی ’خدا کی صورت پر‘ سب سے نمایاں تشریح کہ جواُس کے معروف رسالہ Nefesh Hahayyim کے ابتدائی حصے میں ملتی ہے،دعویٰ کرتی ہے کہ کتابِ پیدائش میں آدمی کی خدا سے مشابہت پرمتنازع گفتگوبنیادی طورپر’انقلابِ دنیا‘ کی تخلیقی صلاحیت کی جانب اشارہ ہے :
”وہ خدائے واحد Elohim، ساری طاقتوں کا مالک، وہ طاقتیں کہ جوسارے عالم میں جاری وساری ہیں، اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ آدمی کو اُس قوت سے متصف کیا جائے جوخیرکی عمارت اٹھائے اور شر کی عمارت ڈھادے۔ آدمی کا رویہ ہرلمحہ ہرشعبہ حیات پراثراندازہوتا ہے، اس کے اعمال کی جڑیں، الفاظ اورخیالات، کہ جو بظاہر لگتا ہے کہ اُس کے تصرف میں ہیں، جیسا کہ ربی عزیریہ کہتا ہے: جب اسرائیل حکمِ خدا پرعمل کرتا ہے، خدا کی حاکمیت کا نفاذ کرتا ہے، یہ لکھا ہوا ہے کہ ’خدا کی رضا میں جدوجہد آدمی کوطاقت ور بناتی ہے لیکن جب اسرائیل خدا کی رضا پرنہیں چلتا کمزورہوجاتا ہے۔“
یہ آدمی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ’’تخلیق کے تاریخی کردارکے لیے خدائی منصوبے‘‘ کا ادراک کرے اوراسے اپنے روزمرہ اعمال سے دنیا میں نافذالعمل بنائے۔ ہائم کے مطابق خدا کا سب سے پراسرارعمل آدمی کو بیک وقت ادنیٰ اوراعلیٰ دنیاؤں کا مرکب بنانا ہے، یہ ادنیٰ اور اعلیٰ کی آمیزش آدم سے مخصوص ہے، بطورپہلے انسان اُس کے لیے خیروشر کے علم کا حصول ہے۔ اسے عبرانی میں ’علم‘ (Da’at) کی اصطلاح واضح کرتی ہے، جس کا معنی ضدین کا ہم آہنگ ہونا ہے۔ اس طرح کہ ’گناہ‘ نے ضدین کودھندلادیا، جسے ربیوں نے ’’سونے کے بچھڑے‘‘ کی پوجا اورچمک دمک میں محسوس کیا: ’شیطان آیا اور اُس نے دنیا کو اشتباہ میں ڈال دیا‘(Shabbatm,89)۔ اور یہ اشتباہ خدا کی جھوٹی تصویرکشی کا نتیجہ تھا، اور ایسا ہونا آدم کے ’اصل گناہ‘ کے سبب تھا: ’وہ بھی آدم کی مانند نافرمان ہوئے‘(Hosea,6,7)
یہی وہ سیاق تھا کہ جس پر ربی ہائم نے یہ خیال قائم کیا کہ آدم اور حوا کا جنت سے نکالا جانا رحمتِ خداوندی تھی، کہ اس طرح انہیں حالتِ گناہ کی ’ہمیشگی‘ سے بچالیا گیا: موت آدمی کے لیے سزا کے بجائے ایسا موقع اور مہلت ہے کہ جس میں وہ حالتِ گناہ اور اشتباہ سے نجات پاکر خدا کی جانب لوٹ سکتا ہے۔ گوکہ آدمی کا گناہ کرنا پستی اور بلندی کے اشتباہ سے ہے، وہ مثبت طرز پر توازن قائم کرسکتا ہے اور یہی وصف اُسے فرشتوں سے افضل بناتا ہے۔ صرف آدمی یہ کام کرسکتا ہے کہ رفعت پاکر دونوں جہانوں میں وحدت قائم کرسکے، اور ایسا وہ اپنے اعمال سے کرسکتا ہے کہ جن پر اُسے اختیار دیا گیا ہے، کیونکہ دونوں جہانوں کی آمیزش سے اُسے خلق کیا گیا ہے۔ ربیوں کی شرحیں کہتی ہیں کہ جنت اور دوزخ دراصل آدمی کے اعمال سے وجود میں آئیں گی، یعنی یہ دونوں آدم کی تخلیقات ہیں، جیسا کہ پرومیتھئس کی یونانی داستان بیان کرتی ہے کہ آدمی کا ’گناہِ بغاوت‘ ’آگ‘ بھڑکانا تھا۔ جیسا کہ نبی یسعیاہ نے کہا: ’تم وہ سب جنہوں نے آگ بھڑکائی، اب اس آگ کے شعلوں میں جلو‘۔ اس طرح ربیوں کی تشریحات کے مطابق جب کبھی آدمی نے خدا کے احکامات توڑے، اُس نے ’بُرے خیال یا شیطانی تصور‘ کی آگ بھڑکائی، اور ’نیک خیال‘ ہی ’بُرے خیال‘ کی آگ بجھا سکتا ہے۔
اگرچہ ہم اپنے اعمال اور خیالات کو شاید زیادہ اہمیت نہیں دیتے، مگر یہ درحقیقت ’تخلیق‘ کے سارے عمل میں ابتدا سے اختتام تک اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس لیے آدمی اپنے انجام کے لیے اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ یہودی کتابِ مقدس زوہار کہتی ہے: آدمی کا ہرسانس بہت اہم ہے۔۔۔ کوئی لفظ، کوئی آواز بے معنی، بے نتیجہ نہیں ہے: ہر ایک کا ایک مقام طے ہے۔ (Zohar II, l00b)
توریت تلمود اور ربیوں کے متون تسلیم کرتے ہیں کہ آدمی کی تخلیق خدائی تخلیق سے کتنی ہی مماثل ہو، مصدقہ، یا اثرپذیر ہو، بہرحال خدا اور آدمی کی تخلیقات میں جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ ان متون میں دونوں تخلیقات کے لیے دو اصطلاحیں Bara اورYatsar استعمال کی جاتی ہیں۔ پہلی اصطلاح ’تخلیقِ امر‘ سے مخصوص ہے، جبکہ دوسری ’تخلیقِ خلق‘ سے متعلق ہے۔ کتابِ پیدائش میں تخلیقِ خداوندی کے لیے پہلا لفظ Bara استعمال ہوا ہے، جس سے مراد کسی شے کا عدم (ex nihilo) سے وجود میں لایاجانا ہے۔ کتاب پیدائش (2:7) کی دوسری اصطلاح Yatsar Baraسے اتصال میں استعمال ہوئی ہے: ’اُس نے خاک سے yatsar خلق کیا، اور اُس آدم کوجسے yatsarسے خلق کیا جنت عدن میں داخل کیا۔‘ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ خدا نے آدم علیہ السلام کوعدم سے وجود نہیں بخشا بلکہ پہلے سے موجود مادے سے پیدا کیا۔ یہ تخلیق ثانوی نوعیت کی ہے، اور اس طرح آدمی بطور’ناقل تخلیق کار‘ سامنے آتا ہے۔ اس درجے میں تخلیقی عمل خدا کی تخلیقات سے مماثل ہوسکتا ہے۔ آدمی کا تخیل، تصویرکشی، اوردیگرنقلیں ہمیشہ پہلے سے موجود مواد اور عناصرسے وجود پاتی ہیں۔ جیسے ضرورت ایجاد کی ماں ہے، اسی طرح آدمی کا تخلیقی عمل ضرورت سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ ضرورت ضروری مواد سے خلق کی جاتی ہے، یہ ضروری مواد خدا عدم سے وجود میں لاتا ہے۔
آدمی کا یہ تخلیقی عمل مصوری، فن کاری، دست کاری اور دیگربہت سے کاموں میں نظرآتا ہے۔ جیسا کہ نبی یسعیاہ کی بابت بیان ہوا ہے، کہ جہاں Yatsarکا استعمال کوزہ گرکے ہنرکے حوالہ سے کیا گیا ہے۔
یہودی متون میں خدا کی تخلیق (تخلیق امر) Bore اور Yotser کی دو اصطلاحوں میں بیان ہوئی ہے، یہ تخلیق کی دو جہتیں متعارف کرواتی ہے۔ جبکہ آدمی ایک ناقل Yotser کے طورپرجائز تخلیق کارقرارپاتا ہے، اورخدا کے تخلیقِ امرکی مانند عدم ex nihilo (Bore)سے کچھ وجود میں نہیں لاسکتا۔
لہٰذا، خدا نے ’تخلیقی الفاظ‘ آدمی کے منہ میں ڈالے، اور نتیجہ نبی یسعیاہ کے لفظوں میں یوں بیان ہوا: ’تم (آدم) عملِ تخلیق میں میرے ساتھ ہو۔ بے شک آدمی کے اعمال، الفاظ، اور ارادوں کودنیائے تخلیق پراختیاراورقوت بخشی گئی ہے۔