امریکی صنعت کار وارن بفیٹ کے اصول

امریکہ کے معروف صنعت کار و سرمایہ کار وارن بفیٹ کا شمار دنیا کے مال دار ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ 110 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی املاک کے مالک ہیں۔ وہ بہت پُرلطف انداز سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اُن کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی حالت میں اپنے وجود سے جُدا نہیں ہونا چاہیے۔ وارن بفیٹ جیسی شخصیات نے بے مثال کامیابی پانے والی کاروباری شخصیات کے حوالے سے عام آدمی کے تصور کو بالکل تبدیل کردیا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ نجی محفلوں میں کرکٹ، فلمی ہستیوں، شاپنگ اور کھانے پینے یا سیر سپاٹے کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ اب معاملہ سیاست دانوں اور مذہبی مسالک و شخصیات سے ہوتا ہوا اہم کاروباری شخصیات تک پہنچ گیا ہے۔ خواتینِ خانہ اب ہر وقت بچوں کے جھمیلوں میں پڑی رہنے کے بجائے کسی نہ کسی طور دل بہلانے کی باتیں بھی کرتی ہیں۔ اُن کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں اپنی جگہ اور جدید زندگی کے تقاضے اپنی جگہ۔ مغرب میں مادّہ پرستی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اب دانشور سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کا موازنہ کرنے لگے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ لوگ بھی بہت کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں بینکوں نے اپنی تجوریوں سے اچھا خاصا مال نکال کر جوئے خانے کی طرح اسٹاک مارکیٹ میں لگایا ہے، یا پھر بڑے کاروباری اداروں کو ادھار دیا ہے۔ یہ سب کچھ اب اپنی حد سے گزر چکا ہے۔ عام آدمی محسوس کرنے لگا ہے کہ اُس کے گرد جال کچھ زیادہ ہی بُن دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مادّہ پرستی اور کنزیومر اِزم سے بیزاری بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ امریکہ میں کریڈٹ کارڈ سے خریداری کے رجحان میں حیرت انگیز حد تک کمی دکھائی دے رہی ہے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب بڑی اور بالخصوص مال دار شخصیات انتہائی شان دار طرزِ زندگی اپناتی تھیں۔ اُن کے ہر کام سے شاہ خرچی جھلکتی تھی۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ دولت کے بھرپور استعمال سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا جائے۔ لوگ انتہائی مال دار افراد کی طرزِ زندگی دیکھ کر مسحور ہوجایا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے تو صرف خواب و خیال کا معاملہ تھا۔ فلمی اور کاروباری دنیا کی اہم ترین شخصیت کی طرزِ زندگی ایسی شان دار ہوا کرتی تھی کہ عام آدمی دیکھ دیکھ کر ہیبت زدہ سا رہ جاتا تھا۔ ہمارے ہاں آج بھی یہ کلچر موجود ہے۔ امریکہ میں ایپل جیسی کمپنی کے سی ای او ٹِم کُک کو کیلی فورنیا کے علاقے پالو آلٹو میں لیپ ٹاپ تھامے عام افراد کے ساتھ پارکنگ ایریا میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُن کے ساتھ کوئی گارڈ ہوتا ہے نہ سیکریٹری اور نہ ہی کوئی اور مددگار۔ اسٹینفرڈ یا برکلی یونیورسٹی میں یہ ممکن ہے کہ نوبیل انعام پانے والا کوئی سائنس دان یا دانشور بس، ٹرین یا کتب خانے میں آپ کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا مزے سے کتاب پڑھ رہا ہو۔ امریکہ میں یہ نظارہ عام ہے کہ آپ کسی شاپنگ مال میں خریداری کرکے بل ادا کرنے لیے قطار بند ہوں تو آپ کے پیچھے ٹاپ ٹوئنٹی کمپنیز میں سے کسی کا سی ای او اپنی ٹرالی کے ساتھ باری کا انتظار کررہا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی ریسٹورنٹ میں آپ مزے سے کھانا کھارہے ہوں اور آپ کے ساتھ والی میز پر کوئی بڑی کاروباری شخصیت یا کوئی مشہور کھلاڑی دس منٹ سے اس بات کا منتظر ہو کہ کوئی اُسے اٹینڈ کرے، آرڈر لے۔ کئی بار دنیا کا امیر ترین فرد ہونے کا اعزاز پانے والے بل گیٹس کو آپ امریکہ کے کسی بھی شہر میں کسی بڑے بک اسٹور میں خریداری کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں آج بھی یہ کلچر ہے کہ کمپنی کا ڈائریکٹر یا ایم ڈی آپ کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر اچھا وقت گزارنا پسند نہیں کرتا، جبکہ امریکہ اور یورپ میں کوئی امیوزمنٹ پارک کی کسی رائڈ میں اپنی باری کا منتظر ہو تو ممکن ہے کہ پیچھے قطار میں اُس کی کمپنی کا ایم ڈی اپنے بیٹے کو کاندھوں پر بٹھائے اپنی باری کا انتظار کررہا ہو۔

ہمارے ہاں سے جو نوجوان تعلیم یا روزگار کے لیے امریکہ اور یورپ جاتے ہیں اُنہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں سے اب تک وی وی آئی پی کلچر ختم نہیں ہوا۔ جنہیں اللہ نے کوئی بلند مقام عطا کیا ہے اور زیادہ دولت سے نوازا ہے وہ خود کو بہت کچھ سمجھتے ہیں اور عام آدمی سے میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں آج بھی چائے سے زیادہ کیتلی گرم ہوتی ہے! کسی کے پاس ذرا سی دولت آجاتی ہے تو وہ تین چار گارڈ لے کر چلتا ہے۔ کسی محفل میں بیٹھتا ہے تو معاون یا سیکریٹری ساتھ ہوتا ہے جو اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ اُس شخصیت اور دوسرے لوگوں میں کچھ فاصلہ رہے اور کوئی بڑے صاحب کو خوامخواہ پریشان نہ کرے۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو کہیں جانے سے پہلے اپنے آنے کی اطلاع لازمی دیتے ہیں تاکہ پہلے ہی سے لوگوں کو دور رکھنے کا اہتمام کیا جاسکے۔ فی زمانہ واٹس ایپ پر بے ڈھنگی پوسٹیں دیکھ کر مصروف ہونے کا تاثر دینے والوں کی کمی نہیں۔ تاثر صرف یہ دینا ہوتا ہے کہ اُن کے پاس کسی کے لیے فالتو وقت نہیں۔ ہمارے ہاں معروف شخصیات عوام میں آنا زیادہ پسند نہیں کرتیں۔ سیلیبرٹیز جب عوام میں ہوتی ہیں تب ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ پرستار یوں گھیر لیتے ہیں کہ جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر کھلاڑی اور دیگر مشہور شخصیات بے فکری سے گھومنا پھرنا شروع کردیں تو بہت جلد لوگ عادی ہوجائیں گے اور پھر کوئی بھی کسی مشہور شخصیت کو دیدے پھاڑ کر نہیں دیکھے گا۔

سیلیبرٹیز کو بھی قافلے کے ساتھ چلنے کا شوق ہے۔ خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی کہیں جایا جاسکتا ہے، مگر لازم ہے کہ دو گاڑیاں آگے ہوں اور دو پیچھے۔ ہمارے ہاں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو ’’نمونہ بازی‘‘ کی جاتی ہے وہ دنیا میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ مشہور شخصیات اگر کہیں جاتی ہیں تو اُن کے جانے سے کیسی افراتفری مچتی ہے اِس کے بارے میں پوسٹیں لگانا بھی وہ نہیں بھولتیں۔

ایسے ماحول میں اگر وارن بفیٹ جیسی شخصیات کے اصولوں کو دیکھیے تو عجیب ہی لگتا ہے۔ آئیے، ڈھنگ سے جینے کے بارے میں وارن بفیٹ کے چند بنیادی اصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پہلا اصول : وارن بفیٹ نے پہلا شیئر گیارہ سال کی عمر میں خریدا تھا اور اب وہ اس بات پر کبھی کبھی افسوس کرتے ہیں کہ شیئرز کی خریداری اُنہوں نے بہت دیر سے شروع کی۔ بہت چھوٹی عمر ہی میں بچت اور سرمایہ کاری کی عادت پروان چڑھانا اچھا ہوتا ہے۔ بچوں کو بچت اور سرمایہ کاری پر متوجہ کرنا لازم ہے۔

دوسرا اصول : وارن بفیٹ نے باضابطہ آمدنی کے لیے صرف چودہ سال کی عمر میں گھروں میں اخبارات ڈالنا شروع کردیے تھے۔ اس کام سے انہوں نے اچھی خاصی رقم کمائی اور بچائی۔ پھر اِس سے ایک چھوٹا سا پلاٹ خریدا۔ سبق یہ ہے کہ کسی بھی سطح کی خریداری یعنی سرمایہ کاری انسان کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتی ہے۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے بہت چھوٹی عمر سے کمانے میں دلچسپی لینا سکھانا چاہیے۔

تیسرا اصول : وارن بفیٹ آج بھی تین بیڈ روم کے اُسی گھر میں رہتے ہیں جو اُنہوں نے پچاس سال پہلے خرید کر شادی کی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جتنی بھی چیزوں کی اُنہیں ضرورت ہے وہ سب اِس گھر میں ہیں۔ اُنہیں چوری کا بھی ڈر نہیں کیونکہ گھر میں ایسی کوئی قیمتی چیز ہے ہی نہیں جسے چرانے میں دلچسپی لی جائے۔

چوتھا اصول : وارن بفیٹ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں۔ اُن کی خدمت کے لیے کوئی ڈرائیور میسر نہیں۔ اُنہوں نے کوئی گارڈ بھی نہیں رکھا۔ پیغام یہ ہے کہ جو ہو وہی بنے رہو، دکھاوا نہ کرو۔

پانچواں اصول : وارن بفیٹ دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ جیٹ کمپنی کے مالک ہیں مگر اُن کے پاس ذاتی استعمال کے لیے کوئی طیارہ نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ضرورت کی تمام اشیاء و خدمات کا اہتمام اِس طور کیا جائے کہ اُن پر بہت زیادہ خرچ نہ کرنا پڑے۔

چھٹا اصول : وارن بفیٹ کی سب سے بڑی کمپنی برکشائر ہاتھوے نیجا کے تحت 53 کمپنیاں ہیں۔ وہ اِن تمام کمپنیوں کے سی ای او کو سال میں صرف ایک بار خط لکھتے ہیں۔ اس خط میں وہ صرف یہ پوچھتے ہیں کہ سال کے آخر میں اُنہیں کمپنی سے اہداف کے حصول کے معاملے میں کیا توقعات وابستہ رکھنی چاہئیں۔ وہ اپنی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیداروں سے زیادہ ملنا پسند نہیں کرتے اور فون بھی زیادہ نہیں کرتے۔ اُن کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ موزوں ترین آدمی کو ذمہ داری سونپ کر خود کوئی اور کام کرو۔

ساتواں اصول: وارن بفیٹ اپنی کمپنیوں کے سربراہان سے صرف دو اصولوں کا خیال رکھنے کو کہتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ شیئر ہولڈرز کی سرمایہ کاری کا ہر حال میں تحفظ یقینی بنائیں اور کسی بھی حالت میں پہلے اصول کو نہ بھولیں! جو اہداف متعین کرلیے ہوں اُن کا حصول ہر حال میں ممکن بنایا جائے۔

آٹھواں اصول : وارن بفیٹ انتہائی مال دار افراد کی پارٹیز میں نہیں جاتے اور ہائی سوسائٹی سے دور رہتے ہیں۔ روزانہ دفتر سے گھر واپسی پر وہ اپنے لیے پاپ کارن خود بناتے ہیں اور ٹی وی دیکھتے ہیں۔ اُن کا پیغام ہے کہ انسان اندر سے جیسا ہو ویسا ہی دکھائی دینا چاہیے، یعنی دکھاوے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ جن باتوں سے خوب راحت ملتی ہو اُنہی باتوں میں مگن رہنا چاہیے۔

نواں اصول : وارن بفیٹ اپنے ساتھ سیل فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹر یا غیر ضروری الیکٹرانک آلات نہیں رکھتے۔

وارن بفیٹ نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور دوسروں کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ وہ معاشی خرابیوں کی وجوہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُنہوں نے کساد بازاری بھی دیکھی ہے اور افراطِ زر کی خرابیاں بھی۔ وہ اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر نئی نسل کو جو مشورے دیتے ہیں وہ عملی زندگی کے لیے قابلِ رشک حد تک کارآمد ہیں۔ آئیے، وارن بفیٹ کے چند مشوروں اور مشاہدات کا جائزہ لیں:

٭ انسان نے مال و زر کو بنایا ہے، مال و زر نے انسان کو نہیں بنایا۔
٭ کچھ دیر ٹھیر کر اپنا جائزہ لیجیے۔ آپ ایک سادہ انسان ہیں۔ غیر ضروری دکھاوے کو اپنی شخصیت پر سے جھاڑ دیجیے اور سادگی سے جینے کی عادت ڈالیے۔
٭ سب کی بات سُننی چاہیے مگر جو کچھ سُنا جائے وہ سب کا سب قابلِ عمل بھی ہو یہ لازم نہیں۔ دوسروں کی اُسی بات کو قبول کیجیے جو معقول ہو اور آپ کی راہ سے رکاوٹیں ہٹا سکتی ہو۔
٭ برانڈ ورانڈ کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ جو کچھ بھی آپ کو اچھا لگتا ہے اور جس کے استعمال سے آپ کی زندگی میں آسانی پیدا ہوسکتی ہو وہی آپ کے کام کا ہے۔ برانڈنگ کے چکر میں پڑ کر زندگی کو خوامخواہ دشوار بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭ آپ کی زندگی آپ کی ملکیت ہے۔ آپ کو دوسروں سے اثرات قبول ضرور کرنے ہیں مگر اُن اثرات کا غلام ہوکر نہیں رہ جانا ہے۔ کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ آپ کی زندگی کا مالک بن بیٹھے اور آپ کو آپ کی مرضی سے کام ہی نہ کرنے دے۔ جینا ہے تو اپنی مرضی سے، اور کام کرنا ہے تو اپنی مرضی سے۔
٭ لازم نہیں کہ ہر سُکھی انسان کے پاس دنیا بھر کی سہولتیں ہوں۔ حقیقی معنوں میں سُکھی وہ ہیں جو زندگی کی بخشی ہوئی ہر نعمت، ہر چیز کے قدر دان ہیں اور بھرپور جذبۂ تشکر کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔
وارن بفیٹ نے اپنی 108 ارب ڈالر کی املاک میں سے 70 ارب ڈالر کی املاک کو خیراتی کاموں کے لیے وقف کردیا ہے۔ اُن کے انتقال کے بعد یہ رقم اُن کی قائم کردہ فاؤنڈیشن ایک ٹرسٹ کے حوالے کرے گی۔
وارن بفیٹ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ دولت آجائے تو اُسے پُرتعیش طرزِ زندگی کی نذر کرنے کے بجائے سادگی سے جینا چاہیے، زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور اُن کاموں پر خرچ کرنا چاہیے جو ناگزیر ہوں۔