خیبر پختون خوا پولیس ایک بارپھر دہشت گردوں کے نشانے پرہے اور یکے بعد دیگرے مختلف اضلاع میں پولیس کو فائرنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے ہدف بنایا جارہا ہے۔ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران پولیس پر 25 حملے کیے گئے ہیں جن میں 125پولیس اہلکار وافسران شہید، جبکہ 212 زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر، پولیس کے ڈی ایس پی رینک کے 2 افسران کے علاوہ کئی سپاہی شامل ہیں۔ اس ضمن میں جاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری2023ء کے دوران خیبرپختون خوا پولیس پر حملوں کے 15 کیس رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں 116پولیس اہلکاروں وافسران نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ 189زخمی ہوئے۔ اسی طرح فروری کے مہینے میں پولیس پر حملوں کے3 واقعات پیش آئے جن میں 2پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ جبکہ مارچ کے مہینے میں پولیس پر حملوں کے 7واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں 7پولیس اہلکاروں اور افسران کو ہدف بنایاگیا، جبکہ 18زخمی ہوئے۔ اس طرح ان تین ماہ میں 25حملوں میں 125پولیس اہلکار اور افسران جاں بحق جبکہ 212 زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ ملک سعد شہید پولیس لائنز پشاور میں رواں سال جنوری میں خودکش دھماکہ کیا گیا جس میں 80سے زائد پولیس اہلکار اور افسران شہید ہوگئے تھے، جبکہ رواں ماہ اپریل کی پہلی تاریخ کو بڈھ بیر کی پولیس چوکی پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینک دیا تھا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ذرائع کاکہنا ہے کہ رواں ماہ سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران 360 افراد گرفتار کرکے 73 مارٹر گولے، 93 دستی بم، 78 کلاشنکوف،40 پستول، 10 آرپی جی 1014 رائفل اور 5 دیگربھاری ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائیوں کے دوران 33 شدت پسند مارے گئے۔ ادھر پولیس لائنز میں شہید ڈی ایس پی کی نماز جنازہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختون خوا اختر حیات خان نے کہا کہ صوبے کے دیگر اضلاع کی نسبت جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ پولیس کے جوانوں نے دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیا ہے، تاہم پولیس تھانے پر حملے کے بعد شہید ڈی ایس پی اقبال مہمند ریسپانس کے لیے پہنچ رہے تھے کہ آئی ای ڈی دھماکہ ہوا جس میں وہ 4 پولیس اہلکاروں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ آئی جی پی نے بتایا کہ دھماکے میں 20 سے 25 کلوگرام بارودی مواد استعمال ہوا اور دھما کے کے بعد سیکورٹی فورسز کے ہمراہ پولیس نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ لکی مروت کے بعد ڈی آئی خان میں بھی پولیس نے دہشت گروں کے حملے کو ناکام بنایا ہے۔
تفصیلات کے مطابق لکی مروت میں تھانہ صدر پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پولیس لائنز سے روانہ ہونے والی کمک پارٹی بم حملے کا نشانہ بن گئی۔ حملوں کے نتیجے میں ڈی ایس پی اقبال مومند سمیت 4 پولیس اہلکار شہید اور 6 جوان زخمی ہوگئے۔ یہاں حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی نصف شب دہشت گردوں نے بنوں میانوالی شاہراہ کے درہ تنگ سیکشن پر چوکی جنڈ کے قریب واقع تھانہ صدر پر جدید خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا، انہوں نے تھانے میں موجود پولیس جوانوں کو زیر کرنے کے لیے مختلف اطراف سے چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا، تاہم پولیس جوان پہلے ہی سے الرٹ تھے، انہوں نے دہشت گردوں کے حملے کا بھرپور جواب دیا جو پسپا ہوکر فرار ہوگئے۔ حکام کے مطابق تھانہ صدر پر رات گئے حملے کی اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی اقبال مومند کی سربراہی میں پولیس نفری جائے وقوعہ پر روانہ ہوئی، ادھر تھانے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے بے مثال جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا حملہ پسپا کردیا، حملے میں 5 پولیس اہلکار ہیڈ کانسٹیبل فاروق اور کانسٹیبل گل تیاز، اصغر، امانت اللہ اور عارف زخمی ہوگئے۔ تمام زخمیوں کا تعلق ضلع لکی مروت کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ادھر پولیس لائنز سے روانہ ہونے والی کمک پارٹی پیر والا کے قریب سڑک کنارے نصب آئی ای ڈی کا نشانہ بن گئی۔ دھماکے میں ڈی ایس پی اقبال مومند اور کانسٹیبل وقار، کرامت اور علی مرجان شہید ہوگئے جبکہ ڈرائیور کانسٹیبل سردارعلی زخمی ہوا۔ شہید وزخمی پولیس اہلکار بکتربند گاڑی میں حملے کی زد میں آنے والے صدر تھانے کی طرف جارہے تھے۔ آئی ای ڈی دھماکے میں شہید ڈی ایس پی اقبال مومند کا تعلق پشاور سے تھا اور وہ پشتو کے معروف شاعر بھی تھے۔ پولیس شہدا کی لاشوں اور زخمی اہلکاروں کو گورنمنٹ سٹی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ضروری قانونی کارروائی کے بعد شہدا کے جسدِ خاکی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کمپلیکس تاجہ زئی میں واقع پولیس لائنزمنتقل کردیے گئے۔ ڈی ایس پی اقبال مومند سمیت چاروں شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں ریجنل پولیس آفیسر بنوں سید اشفاق انور، بریگیڈیئر عمران، ڈپٹی کمشنر لکی مروت عبدالہادی، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لکی مروت محمد اشفاق خان، ڈی پی او بنوں ضیا الدین احمد اور سماجی وسیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ پولیس کے ایک چاق چوبند دستے نے شہدا کو سلامی پیش کی، جبکہ پولیس و ملٹری اور سول انتظامیہ کے افسران نے شہدا کے جسد خاکی پر پھول رکھے اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔ دریں اثناء شہید ڈی ایس پی کا جسد خاکی پشاور پہنچا تو نماز جنازہ میں گورنر، وزیراعلیٰ اور آئی جی پولیس سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری حکام نے بھی شرکت کی۔
اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان میں گزشتہ دنوں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک سپاہی نے جام شہادت نوش کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ دوبدو فائرنگ کے دوران سیکورٹی فورسز نے بہادری سے مقابلہ کیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا، تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران سپاہی ارشاد اللہ عمر 29 سال ساکن ڈسٹرکٹ کرک نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ترجمان کے مطابق علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ ترجمان کاکہنا تھا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ خیبر پختون خوا میں جاری تشدد کی نئی لہر کے دوران پشاور میں گڑھی عطا محمد دیر کالونی میں مسلح موٹر سائیکل سواروں نے سکھ پنساری کو دکان کے اندر فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جمعہ کے روز سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا تاجر دیال سنگھ ولد ہردیال سنگھ سکنہ ضلع خیبر حال دیر کالونی اپنی پنسار کی دکان میں موجود تھا، اس دوران نامعلوم مسلح افراد نے اس پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر دم توڑ گیا۔ مسلح افراد موقع سے فرار ہوگئے۔ پولیس حکام کے مطابق واقعہ ٹارگٹ کلنگ تھا یا ذاتی عناد و دشمنی کا شاخسانہ… اس حوالے سے تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے آسکیں گے۔ واقعے کے بعد ایس ایس پی آپریشنز پشاور ہارون رشید نے مقتول کے گھر کا دورہ کیا اور لواحقین سے ملاقات میں قاتلوں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ واقعے پر سکھ برادری کے افراد نے غم و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں پشاور کے علاقے پشتہ خرہ میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے ایک مسیحی باشندے کو قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔ واقعہ بنارس آباد میں پیش آیا جہاں مقتول کے بھائی نوید مسیح نے پولیس کو بتایا کہ اس کا بھائی کاشف مسیح ولد اعظم مسیح کارپوریشن کالونی میں کلینر تھا اور وہ دوپہر کوڈیوٹی کرنے کے بعد واپس گھر جارہا تھا، اس دوران نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے اس پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ نامعلوم افراد ارتکابِ جرم کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔ مقتول کی عمر تقریباً 35 سال تھی جو اکیڈمی ٹاؤن کا رہائشی تھا۔ پولیس نے مقتول کاشف مسیح کی نعش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے خیبر میڈیکل کالج پہنچادیا اور کرائم سین سے فائر ہونے والے دو عدد خالی خول، خون کے نمونے اور دیگر شواہد اکٹھے کرلیے۔ بعد ازاں ایس ایس پی انویسٹی گیشن پشاور شہزادہ کوکب فاروق نے کرائم سین کا دورہ کیا اور متعلقہ پولیس اسٹیشن کی آپریشنل پولیس اور تفتیشی ٹیم کو واقعے میں ملوث ملزموں کو گرفتار کرنے کی ہدایات دیں۔ اس حوالے سے رابطے پر ایس ایچ او پشتخرہ واجد نے بتایا کہ واقعے کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے۔ فائرنگ کرنے والا مسلح شخص اکیلا تھا جوسی ڈی 70موٹرسائیکل پر آیا تھا۔انہوں نے کہا کہ واقعہ کو ٹارگٹ کلنگ قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ان واقعات کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ سمیت مختلف سوالات اٹھ رہے ہیں، جبکہ اقلیتی برادری کے لوگ بھی خوف و ہراس کا شکار ہیں جنہوں نے حکومت سے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے 21مارچ کوجنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے دو الگ الگ حملوں میں پاک فوج کے بریگیڈیئر سمیت 5 فوجی جوان شہید جبکہ 9 زخمی ہوگئے تھے، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں 3 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے تھے۔ جنوبی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کا یہ حملہ شام چار بجے کے قریب انگور اڈہ اور وانا کے راستے میں گھات لگا کر کیا گیا، حملے میں کاؤنٹر انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہوگئے، یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شہید فوجی افسر افغانستان میں ایک اہم میٹنگ میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے۔ ادھر ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 3 فوجی جوان شہید اور 2 زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، جبکہ اس واقعے میں تینوں دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کھوٹی میں پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ کی جس کی اطلاع ملنے پر سیکورٹی فورسز نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور فرار ہونے کے تمام ممکنہ راستوں کو مسدود کردیا۔ اس دوران فرار کی کوشش کرنے والے دہشت گردوں کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے سگو میں گھیر لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں تینوں دہشت گرد مارے گئے، تاہم اس دوران تین فوجی جوانوں حوالدار محمد اظہر اقبال، نائیک محمد اسد اور سپاہی محمد عیسیٰ نے بھی جام شہادت نوش کیا، جبکہ سپاہی اصغر اور حذیفہ شدید زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے جبکہ دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے علاقے کی کلیئرنس کی جارہی ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ اس معرکے میں شہید ہونے والے لودھراں کے حوالدار محمد اظہر کے سوگواران میں 4 بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں، اسی طرح خانیوال سے تعلق رکھنے والے نائیک محمد اسد نے بیوی اور ایک بیٹا، جبکہ ضلع جنوبی وزیرستان کے سپاہی محمد عیسیٰ نے سوگواران میں والدین، 2 بہنیں اور 3 چھوٹے بھائی چھوڑے ہیں۔