بروز پیر 3اپریل 2023ء کو معروف کالم نگار لطیف جمال نے حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ اور تلخیص قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’فرانسیسی انقلاب پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے فلسفی اور دانشور روسو کی کتاب “The Social Contract”کی ایک سطر ہے کہ ’’انسان پیدا تو آزاد ہوا ہے، لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘۔ جس نے اختیارات پر یورپ کے پادریوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’فلسفی نے کبھی بھی کسی پادری کو نہیں مارا، لیکن پادریوں نے بہت سارے فلسفیوں کو مروا دیا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کسی کو بھی چرچ کے پادریوں کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کی جرأت نہیں تھی۔ ’’برونو‘‘ نے جب عیسائی عقائد کو رد کیا تو اسے زندہ جلادیا گیا۔ عیسائی انبوہ کے ہاتھوں یونان کے مشہور فلسفی ’’ہائیپیا‘‘ کا قتل، ’’سقراط‘‘ اور ’’گیلیلیو‘‘ سے لے کر ’’پیئر بیلی‘‘ اور ’’اسپنوزا‘‘ تک یورپ کی پوری تاریخ یورپ کے عظیم انسانوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ کلیسا کے پادری اصلاح پسندوں کو زندہ جلوادیا کرتے تھے۔ بعدازاں 1830ء اور 1870ء کے درمیانی عرصے میں فرانس صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہوا اور ملک جدیدیت اور صنعتی ترقی کے دور سے گزرا تو معاشرہ اور معیشت مکمل تبدیل ہوگئے۔ انقلابِ فرانس کے بعد نپولین بونا پارٹ برسراقتدار آیا جس نے جمہوریت کا خاتمہ کرکے بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ جس کے اثرات یورپ کے کئی ممالک پر بھی پڑے اور کئی قومی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔
یورپ میں اٹھارہویں صدی میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے تمام یورپ کے مادی حالات کو بھی تبدیل کر ڈالا۔ ایسی عظیم تبدیلی دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ اس انقلاب نے پرانی روایات اور اقدار کو یکسر بدل ڈالا۔ اسے بعدازاں صنعتی انقلاب کی ترقی کا دور قرار دیا گیا۔ یورپ میں 19 ویں صدی میں نئی ایجادات کے نتیجے میں صنعتی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ صنعتوں کے اندر پرانے نظام میں تبدیلی آئی اور پیداواری طریقے بجلی اور مشینری کے نظام میں بدل گئے۔ بڑے اور نئے کارخانوں کے نتیجے میں نئے صنعتی شہر بننے لگے۔ آبادی بڑھ گئی جس سے نئی قسم کی دولت وجود میں آئی اور سرمایہ داروں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔ صنعت کار اور ملرز پیدا ہوئے جنہوں نے اپنا سرمایہ صنعتوں میں لگایا اور اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں سیاسی طاقت پر سرمایہ دار قابض ہوگئے اور دن بہ دن ان کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یورپ کے اندر صنعتی انقلاب کا دوسرا بڑا اثر یہ ہوا کہ آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور لوگ روزگار کی تلاش میں اپنے گائوں کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہونے لگے جس کی وجہ سے شہری آبادی تین گنا ہوگئی، اور اس وجہ سے بہت سارے معاشی اور سماجی مسائل نے جنم لیا۔ بڑے پیمانے پر تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے معاشروں میں عوامی سوچ، افکار اور فلسفے کے نئے تضادات ابھرے اور شہروں سے کئی سیاسی تحاریک کا آغاز ہوا، اور شہری آبادیوں کے مسائل کے باعث نئے سیاسی مفکرین نے دنیا کے سامنے معاشی نظریات پیش کیے۔ ایک طرف برطانیہ نے اپنی عظیم سلطنت کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک پر بھی قبضے کرنا شروع کردیے، تو دوسری طرف برطانیہ اور فرانس نے 19ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کی شروعات میں افریقی ممالک پر اپنا نوآبادیاتی کنٹرول قائم کرنا شروع کردیا۔ بیلجیم اور جرمنی تقسیم ہوگئے۔ اٹلی کا بھی اس تقسیم میں حصہ تھا۔ اٹھارہویں صدی سامراج کے ابھار کی صدی ثابت ہوئی، کئی سلطنتیں وجود میں آئیں، جن میں سب سے بڑی سلطنت برطانیہ کی تھی۔ صنعتی ترقی اور پیداوار میں برطانیہ سب سے بڑھ کر تھا، جس نے سامراجی بنیادوں پر جارحانہ قوم پرستی کی بنیاد رکھی۔ اقتصادی نیشنل ازم اور سامراج کا قیام صنعتی انقلاب کا نتیجہ تھا۔ اقتصادی نیشنل ازم سے مراد پالیسیوں اور طریقوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو دیگر ممالک کے معاشی مفادات پر اپنے ملکی معاشی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ اقتصادی نیشنل ازم کی اصطلاح اگرچہ ہمارے لیے نئی ہے لیکن یہ اصطلاح 1930ء میں برطانیہ اور جرمنی کی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ تھی۔ اس وقت بھی اقتصادی نیشنل ازم دنیا کے طاقت ور ممالک کا ایک اہم ہتھیار ہے جس نے معاشی حب الوطنی کا درجہ حاصل کرلیا ہے، جو ملکی مارکیٹ کے میکنزم پر ریاستی مداخلتوں کی حمایت کرتا ہے، جس میں معیشت کا گھریلو ضابطہ، مزدوری اور نئے انداز کی سرمایہ کاری جیسی پالیسیاں شامل ہیں، اور اس کی ایک بڑی مثال چین، امریکہ اور بھارت ہیں۔ اقتصادی نیشنل ازم کا بنیادی مقصد ملکی اقتصادی، معاشی ترقی کو فروغ دینا، درآمدات کو محدود کرنا اور برآمدات کو بڑھا کر مقامی روزگار کی حفاظت کرنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دور کی نامزد کردہ انتظامی حکمت عملیاں اور خارجہ پالیسیاں، انڈیا کی اقتصادی پالیسیاں، جس نے ملکی اور غیر ملکی مارکیٹوں میں بھارت کی مصنوعات کو پھیلایا اور معاشی بحرانوں پر قابو پالیا۔ اسی طرح سے چین کی جانب سے اپنی صنعتوں کی اقتصادی نیشنل ازم کی بنیاد پر حفاظت کرنا، کارخانوں کو بڑھانا اور درآمدات کو گھٹانا، دنیا کی منڈیوں اور مارکیٹوں پر اپنی مصنوعات کے ذریعے چھا جانا۔ روس، فرانس اور ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک اس ازم کی علامت بنے ہوئے ہیں جس کا مقصد اپنی ملکی صنعتوں کے توسط سے پیداوار کو بڑھانا ہے، تاکہ وہ اپنی قوم کے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے ابتدائی ایام سے ہی ریاستی بحرانوں کا شکار ہے، اور جہاں پر سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر اقتدار حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارا ملک شروع سے ہی مختلف معاشی چیلنجوں کا سامنا کرتا چلا آرہا ہے۔ ملک میں قرضوں اور قرضوں کی ادائیگیوں کا توازن ہمیشہ سے ہی بگڑا چلا آرہا ہے، جب کہ سیاسی عدم استحکام، کرپشن، خراب حکمرانی، کم پیداواری صلاحیت اور کمزور انفرا اسٹرکچر کی اصلاحات کی جانب کبھی بھی حکومتی حلقوں نے سنجیدگی سے سوچا ہے اور نہ ہی کبھی پائیدار معاشی ترقی کی جانب کوئی توجہ دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کی معاشی پالیسیوں کے سامنے اندرونی اور بیرونی رکاوٹیں حائل رہی ہیں، جن میں پائیدار معاشی پالیسیاں اور حکمت عملی کا فقدان، سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول کا نہ ہونا، نئے صنعتی یونٹ لگانے کے لیے کسی جامع پالیسی کا تشکیل نہ دیا جانا، طویل المیعاد ملکی، معاشی مفادات پر مبنی پالیسیاں بنانے کے بجائے ملک کو عارضی اور جگاڑی معاشی فارمولوں کے ذریعے چلانا، تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کا ناقص ہونا، علاوہ ازیں علاقائی اور عالمی جیوپولیٹکل کشیدگی نے بھی پاکستان کی اقتصادی ترقی کو متاثر کیا ہے جس میں پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی بھی شامل ہے۔
ہمارے ملک کے معاشی زوال کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیوں کو مفلوج کرنے کے لیے انہیں مکمل طور پر کاروباری بنا ڈالا ہے۔ اگر کسی سیاست دان کا اسکینڈل سامنے آتا ہے تو وہ اسکینڈل کسی ایک سیاست دان کے بجائے پورے سسٹم کی ساکھ کو ظاہر بلکہ عریاں کر ڈالتا ہے۔ اب تو ہماری بیشتر سیاسی پارٹیاں مکمل کاروباری کمپنیاں اور مافیائیں بن چکی ہیں۔ ایسے ملک کے اندر جہاں احتساب کا نظام اور مواخذے کا عمل خود گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہوچکا ہو، ہم کس حکومتی جماعت سے یہ توقع قائم رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں معاشی اصلاحات لاسکے گی؟ اگر حکومتی حلقے اور سیاسی پارٹیاں چاہتیں تو پاکستان 75 برس میں معاشی طور پر دنیا کا امیر ترین ملک بن چکا ہوتا۔ لیکن ہمارا ملک اپنے ریاستی بحرانوں کی وجہ سے آج بھی بجائے آگے بڑھنے کے روبہ زوال ہے۔ پاکستان اپنی ساری تاریخ میں ہی بحرانوں میں مبتلا ملک رہا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، آمریتیں، اقتصادی اور معاشی مسئلے، لسانی، مذہبی تنازعات، بدعنوانی، دہشت گردی، کمزور سول ادارے، علاقائی سلامتی کے معاملات یا خارجہ امور اور تعلقات جیسے مسائل شامل ہیں، اور یہ ایسے سنگین ترین مسائل ہیں جو اب بڑھ کر تناور درخت بن چکے ہیں۔ جمہوریت کا حال تو یہ ہے کہ اب سیاسی جماعتیں بھی اور حکومتیں بھی غیر جانب دارانہ اور شفاف الیکشن پر یقین رکھنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ریاستی بحران کے حل کے لیے اس وقت تک اقتداری حلقوں کے ہاں کئی تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں لیکن سارے حکومتی حلقے بجائے ان پر عمل پیرا ہونے کے ان سے اغماض برتتے رہے ہیں۔ مثلاً ملکی معیشت کی پائیداری، سرمایہ کاری کے لیے مطلوبہ سازگار ماحول، توانائی کے شعبے کی کارکردگی بہتر کرنا، اچھی حکمرانی، ملک کے اندر مختلف شعبوں میں انسانی وسائل کے لیے افرادی قوت کی فراہمی اور سیاسی استحکام جیسے سارے امور سیاسی انتشار اور ریاستی بحران کا سبب بنے ہیں۔
ہمارا ملک اس وقت غربت کے الائو میں جل رہا ہے۔ جب سعودی عرب کے شہزادے اپنے ملک کے وسیع تر مفاد میں معاشی مفادات کی خاطر جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ پاکستان کے شہری راشن حاصل کرنے کے لیے کچلے جارہے ہیں اور انسانی جانوں کا آئے دن اتلاف ہورہا ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر بھلا کون سے سانحے ہمارے چہرے کو مزید مسخ کرسکتے ہیں؟ لیکن اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین سیاسی دنگل ابھی جاری ہی ہے کہ چیف جسٹس اور ججوں کے درمیان بھی قانونی معاملات پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے سیاست اب عدالتوں کے احاطوں میں بھی دخیل ہوگئی ہے جس سے ملک کے اندر ایک نئے بحران نے جنم لے لیا ہے، لیکن ملک کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیلنے کے ذمہ داران نیم حکیم آج بھی ریاست کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اپنی کوئی کاریگری دکھانے کے بجائے عطائی نسخے آزما رہے ہیں۔‘‘
نوٹ: کالم کے سارے مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔