وسائل سے محروم بلوچستان

صوبے کی سیاسی جماعتیں زندہ ہوتیں تو کسی کو حقوق سلب کرنے کی ہمت نہ ہوتی

بلوچستان بدیہی طور پر سمجھتا ہے کہ وفاق اس کے قدرتی وسائل پر سانپ بن کر بیٹھا ہے۔ وفاق کی اس پالیسی کا صوبے کی تمام جماعتیں نہ صرف اظہار کرتی ہیں بلکہ مختلف نوعیت و سطح کے احتجاج بھی کرتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ حلقے بھی وفاق کے طرزعمل پر خفگی دکھاتے ہیں جو بادی النظر میں خود بھی اپنے صوبے کے وسائل اور حق و اختیار کا سودا کرنے کی شہرت و تعارف رکھتے ہیں۔ یہ استحصال اور غاصبانہ پالیسیاں صوبے کے اندر لاقانونیت، بد ظنی اور پُرتشدد سیاست کا موجب ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے حالات کی خرابی اور اس کے نتیجے میں26 اگست 2006ء کو نواب اکبر خان بگٹی کی موت کے سانحے کی وجہ ہی ڈیرہ بگٹی کے قدرتی وسائل اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور وفاق کی غاصبانہ اور استحصال پر مبنی روش سمجھی جاتی ہے، جس کے بعد صوبے نے امن کا دن نہیں دیکھا ہے۔ برابر ملک کا نقصان ہورہا ہے، کوئی گوشہ محفوظ نہیں رہا ہے۔ سیکورٹی فورسز پر متواتر حملے ہورہے ہیں۔ قیام امن اور سیکورٹی پر خطیر رقم خرچ ہورہی ہے، جس کی ادائیگی بھی بلوچستان کررہاہے۔ اب تو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور اُن کی کابینہ بھی وفاق پر برس رہی ہے،حالانکہ یہ حلقۂ فکر استحصال گر تصور کیا جاتا ہے۔انہیں ریکوڈک معاہد ے کے لیے مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ صوبے کو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں اپنا پورا حصہ نہیں مل رہا،مانگ مانگ کر دس ارب لیے جا چکے ہیں۔ صوبے کو بجلی کی شدید قلت کا سامناہے۔ ضرورت سے بہت کم بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ وفاق کی عدم توجہی کی بنا پررواں سال2022-23ء کی پی ایس ڈی پی پر کام ٹھپ پڑا ہے۔ وفاق منصوبوں کے لیے فنڈ جاری نہیں کرتا۔ منگل28مارچ کو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال بلوچستان کے اندر وفاقی منصوبوں کی تخمینہ لاگت103ارب روپے ہے، جس کے لیے ہر سہ ماہی میں26ارب روپے کا اجراء ہونا تھا۔یعنی78ارب روپے کے بجائے اس وقت تک محض31ارب روپے جاری ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تمام منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہنگامی نوعیت کے تعمیراتی کام سے گریزاں ہے۔ سیلاب سے متاثرہ شاہراہیں اور پل سات مہینے گزرنے کے باوجود متاثرہ حالت میں ہیں۔ گزشتہ سال اگست کی بارشوں میں بولان میں پنجرہ پل ٹوٹ کر بہہ گیا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پنجرہ پل کے مقام کا خود دورہ کیا۔ عارضی کچا راستہ بنایا گیاجو بارشوں سے بہہ جاتا ہے۔24مارچ اوربعد ازاں 29 مارچ کو ہونے والی بارش کے بعد ندی ابھر آئی، عارضی راستہ بہہ گیا۔اس طرح این65کے ذریعے سندھ اور پنجاب سے رابطہ منقطع ہوا۔ ایسا آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ حالاں کہ اس مقام پر پل کی لمبائی بہت کم ہے۔ اگر چا ہتے تو اب تک برج تعمیر ہوچکا ہوتا۔ صوبے کو گیس بحران کا سامناہے۔ عوام اذیت میں مبتلا ہیں۔ یہاں تک کہ پی پی ایل واجبات کی ادائیگی کا بھی خود کو پابند نہیں سمجھتا۔ صوبے کو مطلوب گیس کی فراہمی نہیں ہورہی۔گویا بلوچستان اپنے وسائل سے محروم ہے۔ صوبے کے پی پی ایل کے ذمہ30ارب روپے کے واجبات ہیں۔ واجبات کی وصولی کے لیے صوبہ منتیں کررہا ہے۔ صوبے کی سیاسی جماعتیں زندہ ہوتیں اور صوبائی حکومت بااختیار ہوتی تو کسی کو حقوق سلب کرنے کی ہمت نہ ہوتی اوروسائل پر فی الواقع صوبے کی حاکمیت ہوتی۔ عبدالقدوس بزنجو حکومت کہتی ہے کہ پی پی ایل کو طے شدہ واجبات کی فوری ادائیگی کے لیے ٹائم فریم دیا جائے گا جس کے بعد صوبائی حکومت آئین ا ور قانون کا راستہ اختیار کرے گی۔ صوبائی حکومت وزیر خزانہ زمرک خان اچکزئی، وزیر صحت سید احسان شاہ، صوبائی مشیر گہرام بگٹی اور پارلیمانی سیکریٹری عمران جمالی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ یہ کمیٹی وزیراعظم سمیت متعلقہ حکام اور ذمہ داروں سے ملاقات کرے گی۔

بلاشبہ استحصال اور حق تلفی کی پالیسیاں پُرتشدد رویوں کو جنم دینے کا باعث ہیں۔1954ء سے بلوچستان کی گیس سے ملک کے کارخانے چل رہے ہیں، گھریلو ضروریات پوری ہورہی ہیں، جبکہ صوبے کا غالب حصہ اپنے اس قدرتی وسیلے سے محروم ہے۔ یہاں تک کہ خود ڈیرہ بگٹی اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ تک محروم ہے۔ سوئی گیس بلوچستان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ صوبے کے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کی صریح حق تلفی ہورہی ہے، اور وفاق اور یہ کمپنیاں ان کا استحصال کررہی ہیں۔