عدلیہ میں ٹکرائو، تقسیم، بینچوں کا ٹوٹنا اور عدلیہ کا داخلی بحران
سیاست اورجمہوریت کی بے توقیری اور سیاسی تقسیم
آئین اور قانون کے مقابلے میں افراد کی بالادستی کا بحران
انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جڑے معاملات
مالیاتی اور معاشی بدحالی سمیت عوامی مفادات کا بحران
یہ ہے آج کا پاکستان جو بظاہر جمہوری ملک ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ ہم ایک سنگین نوعیت کے بحران میں مبتلا ہیں۔ ہم خود ہی مجموعی طور پر دنیا میں بھی اور اپنے ملک کے اندر بھی ایک سیاسی تماشے کے طور پر سب کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔ فیصلہ ساز اور طاقت ور قوتوں کے سامنے ریاستی اور معاشرتی مفاد کے مقابلے میں لوگوں کے ذاتی سطح کے مسائل کا غلبہ ہے۔ سب کا اپنا اپنا آئین، قانون، سیاست اورجمہوریت ہے، اورتمام فریق اپنی اپنی تشریح کرکے حالات کو بگاڑنے کے کھیل میں شریک ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ملک کو مختلف نوعیت کے بحرانوں میں ہی گھرا پایا اور ہم ہمیشہ مشکل حالات کا شکار ہی رہے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہے، کیونکہ سیاسی بحران ایک بڑے ریاستی بحران میں تبدیل ہوگیا ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے آج ہم ایک بڑے بحران میں مبتلا ہیں! ہماری تمام عقل و دانش معاملات کو سلجھانے کے بجائے بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن گئی ہے۔ جو لوگ سنجیدہ ہیں یا واقعی ملک میں مثبت تبدیلی کی عملاً خواہش رکھتے ہیں وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ کہاں سے بہتری کا آغاز ہو۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں واقعی آگے بڑھنے کو اپنی ترجیح بنانا ہے تو کیا موجودہ طرزعمل، سیاست اور حکمت عملیاں ہمیں فائدہ دے سکیں گی ؟ جواب نفی میں ملتا ہے۔ یہ منظرنامہ پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ قوتیں یعنی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ جو عمومی طور پر بڑے بحرانوں میں آگے بڑھ کر مفاہمت میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں اب ان کو بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود یہ ادارے جہاں مسائل میں بڑے فریق بن چکے ہیں وہیں ان کے اپنے داخلی بحران اور سیاسی تقسیم نے ان کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ اس سیاسی تقسیم یا پسند و ناپسند کے کھیل پر مبنی پالیسیوں نے قوم کو واقعی مشکل صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ مہم جوئی، ایڈونچر، بدلے اور تعصب کی جنگ نے ہمیں بدلے کی آگ کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ہر کوئی دوسرے فریق کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے اسے شکست دے کر اس کے وجود سے ہی انکار کررہا ہے۔آئین اور عدلیہ کے تناظر میں جاری لڑائی میں ملک کا آئین ہی دائو پر لگا ہوا ہے، اور خدشہ یہ ہے کہ اگر سب نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصوربہت پیچھے چلا جائے گا۔اس بات کو بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ ہم آئینی بحران پیدا کرکے، آئینی تعطل یا آئین سے انحراف کی پالیسی کو اختیار کرکے ملک کو آئینی پٹری سے اتارنے کے کھیل کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ آپ کسی بھی علمی و فکری مجلس میں جائیں یا عوامی بیٹھک کا حصہ بنیں یادیارِ غیر میں موجود عام پاکستانیوں سمیت وہاں کے علم و دانش یا میڈیا سمیت تھنک ٹینک میں رائے عامہ کو دیکھیں تو سب کا ایک ہی بنیادی سوال ہے کہ پاکستان کا سفر کیا ہے اور یہ خود کو کدھر لے کر جانا چاہتا ہے؟ عالمی میڈیا میں چار نکات پر پاکستان کے تناظر میں بحث موجود ہے: سیاست، معیشت، سیکورٹی اور جمہوریت… جسے بنیاد بنا کر لوگ ہم پر تبصرہ و تجزیہ کررہے ہیں۔ بیشتر اہلِ علم چاہے وہ پاکستان کے اندر ہیں یا پاکستان سے باہر، ان کا ایک ہی نکتہ ہے کہ جس انداز سے پاکستان کو چلایا جارہا ہے اس طرح یہ مزید نہیں چل سکے گا۔ ہمارے بہت سے پڑھے لکھے دوستوں کا خیال ہے کہ ہمیں اس لڑائی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ اس لڑائی میں شدت پیدا ہوگی تو اس کے نتیجے میں کچھ نیا سامنے آئے گا۔ کیونکہ طاقت کے مراکزکا عمل جس انداز سے چل رہا ہے وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ اب نئے حالات میں نئے کردار سامنے آئیں گے، اور ان نئے کرداروں کی بنیاد پر نئی حکمت عملیاں بھی سامنے آئیں گی۔ لیکن اس لڑائی کی جو بھاری قیمت عوام بری گورننس اور معاشی بدحالی کی صورت میں دے رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پہلی بار ہم نے واقعی معاشرے میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک کے لوگوں کو معاشی بدحالی اور ملکی صورتِ حال پر خاصی تشویش میں مبتلا دیکھا ہے، کیونکہ لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہیں۔ عوام کا یہ تبصرہ قابل غور ہے کہ اس جاری لڑائی میں کہاں عوام ہیں اورکہاں ان کے مفادات کو اہمیت دی جارہی ہے؟ یہ عمل پر ریاست اور حکمرانی کے نظا م کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو مزید گہرا کررہا ہے۔ یہ منظرنامہ کیسے آگے چل سکے گا؟
اس وقت چار بڑی کہانیاں قومی سیاست پر غالب ہیں:
اول: قومی سیاست میں حکومت اورحزبِ اختلاف کے درمیان بدترین بداعتمادی کا ماحول ہے۔ اس ماحول میں سیاسی اختلافات نے دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہے اور ہر ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ مثلاً وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جس انداز میں عمران خان کے وجود کو جائز و ناجائز ختم کرنے کا عزم دہرایا ہے وہ خاصا خطرناک ہے۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ کچھ وفاقی وزرا جس انداز سے سیاسی مخالفین کو پارلیمنٹ میں ننگی گالیاں دے رہے ہیں وہ بھی جمہوریت اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔ بنیادی لڑائی انتخابات پر ہے۔ حکومت انتخابات سے فرار اورعمران خان انتخابات چاہتے ہیں۔ اس انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر جو تعطل ہے اس نے سیاسی بحران کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حکومت انتظامی اور ریاستی طاقت کی مدد سے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنا چاہتی ہے یا ان کے خلاف بھرپور سیاسی انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ سب سے بڑھ کر سیاسی مخالفین کے خلاف ’’دہشت گردی‘‘ کو بطور ہتھیار استعمال کرکے مقدمات کی بارش کی جارہی ہے۔
دوئم: عدالتی تقسیم دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سوموٹو لینے اور بینچ کی تشکیل کے معاملات پر چیف جسٹس کو اپنے ہی ادارے کے اندر سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے بار بار بینچوں کی تشکیل اور بینچوں کا ٹوٹنا ظاہر کرتا ہے کہ حالات درست نہیں اور بہت سے لوگ ان حالات میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں، جسے چیف جسٹس کی جانب سے قبولیت نہیں ملی۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ جب خود ہی سپریم کورٹ یا چیف جسٹس نے سیاسی معاملات میں مداخلت کی تو اس کے نتیجے میں بحران سامنے آیا ہے۔ مسئلہ آئین سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ معاشرے میں جو سیاسی تقسیم ہے اس کے اثرات عدلیہ میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ چیف جسٹس کی حمایت اور مخالفت میں عدلیہ میں گروپ بندی اچھے حالات کی عکاسی نہیں کرتی۔ خود مسلم لیگ (ن) سمیت حکمران اتحاد بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے عدلیہ میں تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن میں بھی وکلا کا مجموعی لب و لہجہ حکمران اتحاد کے ہی خلاف تھا، اور ان کے بقول حکومتی اقدامات کی بنیاد پر عدلیہ میں تقسیم کا کھیل جاری ہے۔ مریم نواز بار بار اس نکتے پر زور دے رہی ہیں کہ عدلیہ عمران خان کی حمایت میں ہے، اور عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں عدلیہ کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ وہ بڑی شدت سے عدلیہ کے مخصوص ججوں کے خلاف تقریریں بھی کررہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ مخالف مہم میں مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کسی نہ کسی صورت میں پیش پیش ہیں۔ عمران خان عدلیہ کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں اور دونوں فریق کا یہ عمل آئینی اور قانونی بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔
سوئم: اسٹیبلشمنٹ کو بھی عمران خان کی مخالفت کا سامنا ہے، اور جس انداز میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید ہورہی ہے اس نے بھی حالات کو مزید خراب کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں بھی یہ بحث موجود ہے کہ ان پر سوشل میڈیا سمیت دیگر سطحوں سے جو تنقید ہورہی ہے وہ ادارے کی ساکھ کے لیے درست نہیں۔ سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعض میڈیا انٹرویوز کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی داخلی بحران سے گزر رہی ہے اور اس کے غیر سیاسی ہونے یا سیاسی عمل میں مداخلت کی پالیسی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ بعض لوگ جو یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں عمران خان کو اقتدار نہیں دے گی یا ان کو کسی صورت آنے نہیں دے گی، اس سے مزید ٹکرائو کی نشاندہی ہورہی ہے۔
چہارم: ملکی معیشت کی بدحالی خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہونا ہے وہ اب اپریل کے آخر تک چلاگیا ہے، اور بقول وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کے، آئی ایم ایف اب ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کی معاشی بحالی کی تمام تر حکمت عملیاں ناکام نظر آتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی پر ہر طرف سوالیہ نشان ہیں۔ غربت اورمہنگائی کے معاملات نے لوگوں کو واقعی مشکل میں ڈالا ہوا ہے اور بحران کی وجہ سے حکومتی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ انتخابات سے فرار کی جو پالیسی اس وقت حکومت کی ہے اُس کے پیچھے بھی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ معاشی بحران ہے جو حکومت کی ناکامی کا سبب بن رہا ہے۔
پنجم: حکمرانی کا بحران شدید ترین ہے۔ آٹے کے بحران اور اس کی تقسیم کے عمل نے ظاہر کردیا ہے کہ ہم عملی طور پر شفاف انداز میں مستحقین میں آٹا بانٹنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مارکیٹ کی قیمتوں پر عدم کنٹرول، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو بھی کنٹرول نہ کرنے کی پالیسی یا ناکامی نے سب کو بے بس کردیا ہے۔
اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کررہے تھے اور ان کی معاونت جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کررہے تھے جس میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کے التوا کا مقدمہ تھا، اس نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے 22مارچ کے انتخابات کو ملتوی کرنے اور 6 اکتوبر کو عام انتخابات کے اعلان کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ ان کے بقول الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ اس فیصلے کے تحت 14مئی کو پنجاب میں انتخابات ہوں گے، جبکہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خیبر پختون خوا کے انتخابات کے شیڈول کا بھی اعلان کرے۔ عدالت نے سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی سنا اور اُن کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحفظات کو بھی ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اسی طرح عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان انتخابات کے لیے 20ارب روپے الیکشن کمیشن کو جاری کرے، اور اگر حکومت نہیں دے گی تو اس پر عدالت نوٹس لے گی۔اس فیصلے سے قبل وفاقی حکومت نے عدالت پر مختلف طور طریقوں سے دبائو ڈالا، دھمکیاں دیں اور فیصلے سے پہلے ہی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے یہ بات طے ہے کہ اب معاملات انتخابات کی طرف ہی بڑھنے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وفاقی حکومت عدالت سے محاذ آرائی یا ٹکرائو کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے اوراگر وہ واقعی صوبائی انتخابات سے بچنا چاہتی ہے تو اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کرکے خود بھی اورملک کو بھی بحران سے باہر نکالے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے، اوراس سے سیاست اور جمہوریت سمیت آئین اور قانون کو بھی کئی طرح کے مسائل کاسامنا کرنا پڑے گا۔حکومتی فیصلے نے مستقبل کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو بھی بلاوجہ متنازع بنایا اورخود جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے طرزِ عمل سے بلاوجہ خود کو حکمران اتحاد کے ساتھ کھڑا کرکے اپنی پوزیشن کو بھی خراب کیا ہے۔بہرحال عدالت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے اور آئینی شق کے مطابق کسی بھی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں 90روز کے اندر انتخابات کا ہونا لازمی ہوتا ہے،تازہ ترین صورت حال بہت اچھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اور کابینہ سمیت حکمران اتحاد نے انتخابات کے انعقاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ ان کے بقول اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا، اور حکومت بضد ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اکثریتی نہیں بلکہ اقلیتی ہے اور موجودہ چیف جسٹس پر عدلیہ ہی میں سے عدم اعتماد کیا جارہا ہے۔ حکومتی ارکان نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈٹ جائیں اور اس کے نتیجے میں حکمران اتحاد کو عدلیہ اور عمران خان کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیراعظم کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ قوم سے سخت گیر خطاب کریں اور عدالتی سازشوں پر قوم کو اعتماد میں لیں۔ اسی طرح یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے عام انتخابات کی طرف رجوع کیا جائے۔ لیکن حکومت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو شہبازشریف کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کسی بھی صورت انتخابات کا راستہ اختیار نہ کیا جائے چاہے اس کے نتیجے میں ایمرجنسی یا مارشل لا بھی لگ جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد اور رضامندی کے بغیر کوئی مہم جوئی ممکن نہیں۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہوگی اور کس حد تک وہ خود کو غیرجانب دار رکھے گی۔
دوسری طرف عدلیہ میں جاری تقسیم بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے سوموٹو فیصلے کو بھی مسترد کردیا ہے، اور یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی میدان میں جاری لڑائی نے عدلیہ میں بھی تقسیم پیدا کردی ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عدلیہ میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید گہرا کیا جائے اور اس میں وکلا تنظیموں اور میڈیا کی مدد سے عدلیہ مخالف بیانیہ بنایا جائے۔
اس وقت حکومت کے پاس چار ہی راستے ہیں:
اول: سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرکے دو صوبائی انتخابات کو یقینی بنائے۔
دوئم: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو میں جائے اور عدالتی فیصلہ مخالف بیانیہ ترتیب دے۔
سوئم: قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔
چہارم: انتخابات کے انعقاد سے ہی انکار کردے اور توہین عدالت کا سامنا کرے، ایسی صورت میں وزیراعظم کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑےگا۔
اس ساری صورت حال میں فواد چودھری کے بقول سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ہم حکومت سے عام انتخابات کے فریم ورک پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب قوم منقسم ہے اور عدلیہ بھی تقسیم ہے، مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوگا!