وطن عزیز کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا، سینیٹ نے سود کے خاتمہ سے متعلق قرار داد کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے، قرار داد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان ملک سے ربا کے خاتمہ کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک کی اپیلیں واپس لینے کے حکومتی فیصلے کو بھی سراہتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے، یہ اقدام پاکستان میں سود سے پاک مالیاتی اور بینکنگ نظام کے لیے نہایت حوصلہ افزا ہے۔ ایوان بالا سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی یہ قرار داد جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خاں نے پیش کی تھی قرار داد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں سود سے پاک معاشی و مالی نظام کی تشکیل کے لیے درج ذیل اقدامات کئے جائیں، سود سے پاک معاشی نظام کے قیام اور سود کے خاتمہ کے لیے عملی روڈ میپ کی تیاری کے لیے وزارت خزانہ کے زیر انتظام ایک مستقل ڈویژن قائم کیا جائے اور اس کے تحت ایک ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سود پر مبنی ذاتی اور اجتماعی کاروبار کی ممانعت کے لیے قوانین وضع کئے جائیں، مختلف مالیاتی اداروں یعنی این آئی ٹی یونٹ، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پنشن فنڈ، سیونگز فنڈ، کنزیومر فنانس اور دیگر متعلقہ اداروں میں سود کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ سود کے خاتمہ کے لیے قائم کردہ گزشتہ تمام کمشنوں، کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کی رپورٹوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش پاشا نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سود سے پاک معیشت حکومت کی اولین ترجیح ہے، سود کے خاتمہ کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دے دی گئی ہے…!
سود کے حرام، ناجائز اور ایک اسلامی مملکت میں قطعی ناقابل قبول ہونے سے متعلق دو آرا نہیں ہو سکتیں کیونکہ قرآن حکیم میں بار بار اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو، اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پائو گے۔‘‘ سورہ الروم میں واضح کیا گیا کہ: ’’جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا‘‘ سورۂ البقرہ میں نہایت سخت الفاظ میں سود خور کے لیے جہنم کے ٹھکانہ کی خبر دی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: ’’مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے‘‘، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خواری سے باز آ جائے ، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘
سورہ بقرہ ہی کی اگلی آیت میں فرمایا گیا کہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو نشوو نما دیتا ہے۔‘‘ پھر حکم دیا کہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔‘‘ اس آیت میں سود چھوڑنے کو ایمان لانے کی شرط قرار دیا گیا مگر اس سے اگلی آیت میں تو دو ٹوک الفاظ میں سود خوروں کے خلاف خود اللہ اور اس کے محبوب کی طرف سے اعلان جنگ کر دیا گیا ہے، فرمایا گیا: ’’لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جائو کہ اللہ اور رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے، اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایا لینے کے تم حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘ رب رحیم و کریم کے ان سخت اور واضح احکام کے بعد بھلا کسی سود خور اور وہ بھی اسلامی ہونے کی دعویدار مملکت اور مسلمانوں کے معاشرے کی فلاح و ترقی کی توقع کیوں کر رکھی جا سکتی ہے، اس کے بعد بھی ہمیں اپنی معاشی و معاشرتی تباہی کی وجہ سمجھ نہ آئے تو قصور کسی اور کا نہیں ہمارے فہم کا ہے…!
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، سود کے خلاف آئینی، قانونی، عدالتی اور عوامی محاذوں پر اس کی جدوجہد کی داستان خاصی طویل ہے، اسی جدوجہد کے نتیجے میں 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک جامع تفصیلی فیصلہ سود کے خاتمہ کا جاری کیا مگر میاں نواز شریف کی اس وقت کی حکومت نے اس کے خلاف ایک اپیل دائر کر کے فیصلے پر عمل درآمد کو معرض التوا میں ڈال دیا۔ 1999ء میں شریعت اپلیٹ بنچ نے بھی 1991ء کے فیصلے کو بحال رکھتے ہوئے سود کے خاتمہ کی حتمی تاریخ حکومت کو دے دی مگر اس فیصلے کے خلاف بھی عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ 2002ء میں یہ اپیل عدالت عظمیٰ سے واپس لے کر وفاقی شرعی عدالت میں نظر ثانی کی درخواست جمع کرا دی جو گیارہ برس تک سرد خانے میں پڑی رہی۔ جس کے خلاف جماعت اسلامی نے بار بار درخواستیں دے کر اس کی سماعت شروع کرائی اور آخر گزشتہ برس حکومت کی ٹال مٹول کی پالیسی کے باعث 32 برس ضائع کرنے کے بعد عدالت نے حکومت کو یکم جون 2022ء اور 31 دسمبر 2022ء تک انسداد سود کے قوانین نافذ کرنے کا حکم دیا مگر اس کے خلاف بھی سٹیٹ بنک، نیشنل بینک اور چار نجی بینکوں کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دلوا دی گئیں مگر اس بار رائے عامہ کے دبائو اور سودی بینکوں کے بائیکاٹ کی مہم کے بعد حکومت نے اپنی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا جو اب واپس لی جا چکی ہیں مگر نجی بنکوں کی اپیلیں تاحال موجود ہیں…!
حکومت اگرچہ اب معیشت اور بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہی ہے، سینٹ میں مشتاق احمد خاں صاحب کی قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی خزانے کی وزیر مملکت نے سود سے پاک معیشت کو حکومت کی ’’اولین ترجیح‘‘ قرار دیا ہے مگر اس ’’اولین ترجیح‘‘ کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک نجی بینکوں کو اپیلیں واپس لینے کے لیے ایک خط تک لکھا گیا ہے نہ عدالت کی جانب سے انسداد سود کے لیے یکم جون اور 31 دسمبر تک قوانین سازی کی طرف کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ ’’اولین ترجیح‘‘ کا تو یہ حال ہے، معلوم نہیں وہ کون سی ترجیحات ہیں جن کے لیے راتوں رات مجلس شوریٰ سے قوانین بھی منظور کروا لیے جاتے ہیں اور فوری احکام بھی جاری ہوجاتے ہیں…!!! (حامد ریاض ڈوگر)