حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول کریم ﷺ جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے
وہاں سے نہیں اٹھتے تھے۔ جب سورج طلوع ہوجاتا تو آپؐ وہاں سے اٹھتے۔
(مسلم ،کتاب الفضائل)
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو مسجدنبویؐ میں تشریف لے گئے اور دو رکعتیں پڑھیں۔آپؐ کو یہ طریقہ پسند تھا کہ سفر سے واپس آئیں تو مسجد جائیں اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر اَزواجِ مطہراتؓ کے پاس چلے جاتے۔ چنانچہ ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو مسجد کے بعد حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے گھر کے دروازے پر آپؐ کا استقبال کیا، آپؐ کے چہرۂ انور کو بوسے دینے لگیں اور رونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس لیے رو رہی ہوں کہ مشقت اُٹھانے کے سبب آپؐ کی رنگت بدل گئی ہے اور آپؐ کے کپڑے بوسیدہ ہوچکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہؓ! اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے کہ زمین پر کوئی مٹی کا گھر باقی رہے گا اور نہ خیمے مگر اللہ تعالیٰ اس میں عزت داخل کرے گا یا ذلت (ایمان والوں کے لیے عزت اور کافروں کے لیے ذلّت)۔ یہاں تک کہ یہ عزت اور ذلت وہاں وہاں پہنچ جائے جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں (اس لیے کامیابی ہمارے لیے ہے۔ پوری دنیا میں اسلام کے لیے عزت ہے اور کفرکے لیے ذلّت ہے۔ جب نتیجہ بہتر ہے تو مشقت اور تکالیف کا احساس نہیں ہونا چاہیے)۔(کنزالعمال، طبرانی، حاکم)
اسلام کی دعوت دینے کے لیے پوری قوت صرف کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دن رات ایک کیا۔ دعوت بھی دی اور قتال بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا نے دین کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگادی۔ حضرت نوحؑ نے ۱۴۰۰ سال عمرپائی اور دن رات ایک کیا۔ سورئہ نوح میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کررہے ہیں کہ اے میرے رب! میں نے دن اور رات ان کو دعوت دی لیکن میری دعوت کے نتیجے میں یہ لوگ راہِ راست پر آنے کے بجاے مزید دُور ہوتے چلے گئے۔ جب میں انھیں دعوت دیتا یہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے اور کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور کفر پر اصرار کرتے اور انتہائی تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرتے۔ چنانچہ حضرت نوحؑ نے ان پر عذاب کے لیے دعا کی جس کے نتیجے میں روے زمین کو ان سے پاک و صاف کردیا گیا۔ اس طرح زمین اسلام کے لیے ہموار ہوگئی اور اسلام غالب ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کفر وجود میں آیا تو پھر انبیاعلیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کا آخری مرحلہ وہ ہے جس کی پیش گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ اب یہ کام ہمیں کرنا ہے تاآنکہ یہ دین غالب ہوجائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کا دنیا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کرلے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو دیکھا کہ مہاجرین اور انصار صبح کے وقت سخت سردی میں خندق کی کھدائی کر رہے ہیں۔ انصار اور مہاجرین خود یہ کام کر رہے تھے، ان کے خادم نہ تھے جو ان کی جگہ یہ کام کرتے۔ جب آپؐ نے ان کی مشقت اور بھوک کی حالت کو دیکھا تو دُعا کی: اے اللہ! اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ انصار اور مہاجرین نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں جنھوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے۔ ہم اس بیعت اور عہد پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے کیسی غربت اور فاقہ کشی کے ساتھ محنت و مشقت اُٹھاتے ہوئے دین کو غالب کیا، اس کا ایک منظر غزوئہ خندق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین اور یہود کی متحدہ ۱۲ہزار فوج کا مقابلہ خندق کی کھدائی کے ذریعے کیا۔ مدینہ طیبہ کی جس جانب سے حملہ ہوسکتا تھا، اس طرف خندق کی کھدائی کرکے مدینہ میں داخلے کا راستہ روک دیا۔ چھے دن کے اندر ساڑھے تین میل لمبی خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے مل کر حصہ لیا۔
منافقین مختلف قسم کے بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ اب ۱۲ہزار فوج مسلمانوں کو ختم کرکے رکھ دے گی۔ دوسری طرف یہود بنی قریظہ نے بھی عہدشکنی کر کے متحدہ محاذ کا ساتھ دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنوقریظہ کی سازش اور متحدہ محاذ کو ناکام و نامراد کر دیا۔ ۲۵دن متحدہ محاذ نے محاصرہ کیا تو اس کے بعد بے حوصلہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی بھی چلا دی جس نے ان کے کیمپ اور چولھوں پر چڑھی دیگیں اُلٹ دیں۔ بنوقریظہ ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے اور یوں یہ دونوں گروہ خائب و خاسر ہوگئے۔
مشرکین بھاگ گئے اور بنوقریظہ بدعہدی کے انجام سے دوچار ہوئے۔ بنوقریظہ کی گڑھیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کیا۔ انھوں نے کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں اس شرط پر کہ ہمارا فیصلہ سعد بن معاذؓ کریں۔ چنانچہ سعد بن معاذؓ نے فیصلہ دیا کہ ان کے جنگی مردوںکو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ یہ فیصلہ انھوں نے تورات کے مطابق کیا تھا۔ تورات میں آج بھی ’غدر عہد‘ کی یہی سزا لکھی ہوئی ہے۔ دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق قرار دے کر اس پر عمل درآمد فرمایا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی کس مپرسی کی حالت کے موقعے پر انھیں یاد دلایا کہ اس مشقت کے عوض میں تمھیں جنت ملنے والی ہے اور وہی اصل زندگی ہے۔ رہی دنیاوی زندگی تو وہ فانی ہے اور اس دنیا میں جتنی بڑی نعمتیں مل جائیں وہ بالآخر زائل ہونے والی ہیں۔ اس لیے دنیوی عیش و عشرت کی طلب اور خواہش سے بے نیاز ہوکر اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔