معروف محقق و مصنف محترم محمد انور عباسی صاحب ہمارے دیرینہ کرم فرما ہیں۔ تعلق باغ (آزاد کشمیر) سے ہے، اور شہر شاداب اسلام آباد میں قیام فرما ہیں۔ شگفتہ مزاج اور شگفتہ گو آدمی ہیں۔ علالت میں بھی لبوں پر مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے۔ اللہ انھیں مکمل صحت و عافیت کے ساتھ تبسم بھری طویل زندگی عطا فرمائے، آمین۔ باوجود بذلہ سنجی کے سنجیدہ، ادق بلکہ انتہائی دقیق معاشی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں اس عاجز کے ایک عاجزانہ کالم ’’وہ بڑی تجربہ کارہ ہے‘‘ کے حوالے سے رقم طراز ہوئے:
’’الحمدللہ! کئی الفاظ کی اس عمر میں تصحیح ہوگئی۔ مثلاً کاشت کارہ کا لفظ پڑھا نہ سنا مگر گلوکارہ کا لفظ نہ صرف پڑھا اور سنا بلکہ دیکھا بھی۔ جیتے جاگتے بھی اور فلموں میں بھی۔
ایک عرصے سے ایک محاورے کو استعمال کرتے اور پڑھتے آئے، مگر لغت میں دیکھا تو مطلب اُلٹا نکلا۔ ہم یوں لکھتے رہے:
’’میں اچھا بھلا کام کررہا تھا کہ دوست آڑے آگیا، کام تمام ہوگیا‘‘۔
ہم اسے رکاوٹ ڈالنے کے معنوں میں لے رہے تھے، جب کہ لغت میں مدد کرنا لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس پر الگ سے ایک ’’نثرپارہ‘‘ ہوجائے تودل کو اطمینان آجائے۔ ورنہ قیامت کے دن یہی سوال کرلیا گیا تو کیا منہ دکھائیں گے؟‘‘
صاحب! قیامت کے دن منہ دکھانے کے مسئلے نے بہت قیامت ڈھائی ہے۔ سچا وقوعہ ہے۔ ایک وکیل صاحب بے کل تھے کہ ’’چھوٹی بہن کے منشا پر جھوٹا بیان (حلفی) نہ پیش کروں تواور کیا کروں؟ سب سے بڑا بھائی ہوں۔ قیامت کے دن ماں باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ چھوٹے بھائی بہنوں کو مجھے ہی سونپ گئے تھے‘‘۔ بیرسٹر صاحب کو سمجھایا گیاکہ ’’فکر نہ کریں۔ قرآنِ مجید کی سورۂ عبس، آیات 33تا 36 میں آپ ہی کے لیے خوش خبری ہے کہ ’’جب کان بہرے کردینے والی آجائے گی تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا‘‘۔ لہٰذا اس بات سے منہ دھو رکھیے کہ وہ صرف آپ کا منہ تاکنے کی چاہت لیے محشر کے بھیڑ بھڑکّے میں دھکوں پر دھکے کھا رہے ہوں گے۔ یاشیخ ! وہاں سب اپنی اپنی (کرنی) دیکھ رہے ہوں گے۔ آپ کو کون پوچھے گا؟ ہاں! پوچھنے والا اُس روز یہ ضرور پوچھے گا کہ بولو! ’آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟‘ تو بھلا کس کے سینے میں اتنا سانس ہوگا کہ یہ ’بیانِ حلفی‘ اُس کے حلق سے نکل سکے: اللہ واحد القہار کی‘‘۔
ایک دوست اس فکر میں گھلے جارہے تھے کہ فلاں نے فلاں دن دھمکی دی تھی: ’’ قیامت کے دن تمھارا دامن پکڑلوں گا‘‘۔ اُن کو تسلی دیتے ہوئے کہا ’’گھبرائیو متی! اُس دن انسان کے بدن پر دامن نام کی دھجی تک نہیں ہوگی۔ سو، دھمکی دینے والا جوجی چاہے پکڑلے دامن تو ہرگز نہیں پکڑ سکے گا‘‘۔ انور عباسی صاحب کو بھی تسلی ہووے کہ قیامت کے امتحان کا پرچہ ’آؤٹ‘ ہوچکا ہے اور اس پرچے میں وہ ’آؤٹ آف کورس‘ سوال شامل ہی نہیں جس پر آپ اپنی رونمائی کے ضمن میں متردد ہیں۔ حضرت! ہم نے تو سوچا ہے کہ اگر وہاں عدو کو دکھانا ہی پڑا تو ہم اپنا یہی (فٹے) منہ دکھا دیں گے۔
صاحبو! ایک مختصر سا… یعنی دو حرفی لفظ ہے ’آڑ‘۔ آڑ کامطلب سب ہی جانتے ہیں۔ بھلا کون ہوگا جس نے کبھی کسی کی آڑ نہ لی ہو۔ اوٹ لینے یا سہارا لینے کو ’آڑ لینا‘ کہتے ہیں۔ اس دو حرفی لفظ کے بہت سے مطالب ہیں۔ پردہ یا حجاب، جیسے:
’’وہ دیوار کی آڑ میں چھپ گئے‘‘
یا… ’’وہ لوٹا لے کرٹیلے کی آڑ میں بیٹھ گئے‘‘۔
’آڑ کرنا‘ خواتین کے لیے پردے کا بندوبست کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ’’آتا تھا‘‘۔ اب تو اس قسم کے فقرے سننے ہی کو نہیں ملتے کہ ’’جناب!آڑ کرلیجے تاکہ مستورات نکل جائیں‘‘۔
حفاظت اور پشت پناہی کے معنوں میں بھی آڑ کی آڑ لی جاتی ہے:
’’مجھے معلوم ہوچکا ہے کہ دونوں خواتین نے یہ سب کچھ کس کی آڑ میں کیا تھا‘‘۔
اصل حقیقت یا کسی واقعے کے اصل سبب کو چھپانے کے لیے جو حیلہ بہانہ کیا جائے اُسے بھی آڑ ہی کہا جاتا ہے۔
’’نائن الیون کی آڑ میں اسلام اور عالمِ اسلام سے صدیوں کا بغض نکالا گیا‘ ‘۔
’آڑ لگانا‘ کسی چیز سے ٹیک لگانے کے معنوں میں آتا ہے۔ یعنی وہی، ’سہارا لینا‘۔کیا آپ نے لگائی ہے تکیے کی آڑ خوب۔ غرض یہ کہ آڑ ہر صورت میں مفید، مددگار اور معاون ہے۔ ہمارے بچپن تک ایسا تھا کہ کھیلوں میں جو دو گروہ بنتے تھے، اُن میں سے ہر گروہ کا ہر رکن اپنے گروہ کے دوسرے ساتھیوں کا مددگار اور معاون ہوتا تھا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے ’آڑی‘ کہلاتے تھے:
’’ارے میرے آڑیو! اِدھر آؤ!‘‘… یا …’’دیکھو! تم اپنے اِس آڑی کو سمجھا لو‘‘۔
یہی آڑی ایک دوسرے کے آڑے آتے ہیں۔ بقول شاعر: ’میرا آڑی تھا جو آڑے آیا‘۔ لغت میں دیے ہوئے معنی درست جانیے۔ ’آڑے آنا‘ کا مطلب بُرا وقت پڑنے پر کسی کی مدد کرنا،کسی مظلوم کی حمایت کرنا یا مصیبت کے وقت کسی کے کام آجانا۔ بقولِ بحرؔ:
ٹل گئی غیر کے سر پر مرے سر کی آفت
میرے آڑے بخدا میری وفائیں آئیں
’آڑے آنا‘ کے منفی معنیٰ غالباً ایک اور محاورے سے مستعار ہوئے اور غلط فہمی کی بنیاد پر لے لیے گئے۔ مشہور محاورہ ہے ’آڑے ہاتھوں‘ لینا۔ یہاں ’آڑے‘سے مراد ٹیڑھا یا ترچھا ہے۔’آڑے ہاتھوں لینا‘ کا لفظی مطلب ہوا ٹیڑھے ہاتھوں سے نمٹنا۔ ’’آڑی ترچھی لکیریں تو میں بھی کھینچ لیتا ہوں‘‘۔ انھیں معنوں میں اُریب پاجامہ یا آڑا پاجامہ بھی ہوا کرتا تھا، جو ترچھی پٹری کی بیلوں سے بنایا جاتا۔ شاید اب بھی بنایا جاتا ہو۔ شادی بیاہ کا مشہور گیت ہے:’’آڑا پجامہ ریشم کا کمر بند، کہو کہاں گئے تھے؟‘‘ یہی آڑا پجامہ شاید چوڑی دار پاجامہ بھی کہلاتا ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں میں کوئی تیکنیکی فرق ہو، مگر چوڑی دار پاجامہ کسی کو پہنے دیکھیں تو بڑی معصومیت اور بہت دھیرے پوچھنے کا جی چاہتا ہے کہ’’ صاحبِ عالم!سِلوا کر پہنا ہے یا پہن کر سِلوایا ہے؟‘‘ ہاں توآڑے ہاتھوں لینے کا مطلب کسی کو لتاڑنا، بُرا بھلا کہنا، شرمندہ کرنا یا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ جیسا کہ پہلوانِ سخن شیخ امام بخش ناسخ ؔ نے پاگل خانے کے ڈاکٹر کو دھمکایا تھا:
چارہ گر ہوں گے تجھے کپڑے چھڑانا مشکل
آڑے ہاتھوں مری وحشت کبھی ایسا لے گی
’آڑے آنا‘ تو نہیں البتہ’آڑے ہونا‘ ایک محاورہ تھا، جو کسی غلط کام کے کرنے میں رکاوٹ بنتا تھا۔ یعنی ’آڑے ہونا‘ منفی کاموں کو روکنے کے لیے کوئی مثبت رکاوٹ پڑجانا۔جیسے شرم، حیا، حجاب، لحاظ، ضمیر وغیرہ۔ ضمیر بے چارہ آپ کو گناہ کرنے سے روک تو نہیں پاتا لیکن اس سے لطف اندوز بھی نہیں ہونے دیتا۔تاہم اخترؔ کو تو روک دیا تھا:
دردِ دل پہ یہ کون تھا مانع
شرم آڑے ہوئی، حیا مانع