رائے ریاض حسین کی عمر حکومتِ پاکستان کے رائے عامہ کی تشکیل کے لیے قائم محکمہ اطلاعات و نشریات میں خدمات انجام دیتے بسر ہوئی۔ اس دوران پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی خاطر جہاں انہیں صحافی برادری کے ارکان سے ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا، وہیں اقتدار کے ایوانوں تک بھی رسائی حاصل رہی۔ اس کے علاوہ مختلف چھوٹے بڑے ممالک میں پریس اتاشی کے طور پر بھی کام کیا۔ ملک کے اندر اور باہر جہاں بھی موقع ملا انہوں نے ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے متحرک اور جان دار کردار ادا کیا۔ آخر ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان سے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں باقاعدگی سے ’’رائے عامہ‘‘ کے عنوان سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ یہ عنوان رائے ریاض حسین کے نام کے علاوہ ان کی عمر بھر کی پیشہ ورانہ مصروفیات کا بھی عکاس تھا۔ زیرنظر کتاب ’’رائے عامہ‘‘ کا بڑا حصہ ان کے انہی کالموں پر مشتمل ہے، تاہم ابتدائی صفحات میں ملکی سیاست کی بعض اہم شخصیات کے تعارفی خاکے اور اپنی ذات و خاندانی پس منظر کے حوالے سے بھی بعض تحریریں شامل کی ہیں۔ اربابِ اقتدار و اختیار اور ان سے قریبی تعلقات کا ذکر تو سبھی کرتے ہیں مگر رائے ریاض حسین کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ملک و ملت کی خدمت کرنے والوں کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ان کے آبائی علاقے جھنگ سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کی نہایت محترم شخصیت جناب گوہر صدیقی، جنہوں نے اپنے علاقے میں اعلیٰ معیار کے بہت سے ’’غزالی اسکول‘‘ قائم کررکھے تھے، کو اپنا محسن تسلیم کرتے ہوئے ان کے متعلق ایک بھرپور مضمون، دو تصویروں کے ساتھ کتاب میں شامل کیا ہے، جس میں مولانا گوہر صدیقی کو ’’صحیح معنوں میں جھنگ کا سرسید احمد خاں‘‘ قرار دیتے ہوئے احسان شناسی کا حق ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
’’انفارمیشن گروپ میں35 سال نوکری کر کے آج مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہا ہوں، ان ساری کامیابیوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعد گوہر صدیقی صاحب کی بروقت مدد شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ترقی کا زینہ بنایا۔‘‘
ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق ’’محسنِ پاکستان ہم شرمندہ ہیں‘‘ اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے ’’میری بیٹی ہم شرمندہ ہیں‘‘ کے عنوان سے کالم رائے ریاض حسین کی پاکستان اور اس کے خیر خواہوں سے محبت اور حکمرانوں کی اس بارے میں سرد مہری کا نوحہ ہیں۔
وزارتِ اطلاعات و نشریات میں رائے ریاض حسین کو دیگر اہم ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ چار وزرائے اعظم کے پریس سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح وہ اقتدار کے ایوانوں میں پنپنے والی سازشوں اور مختلف داستانوں کے اتار چڑھائو کے چشم دید گواہ رہے ہیں۔ اپنے کالموں میں اکثر و بیشتر کہیں واضح اور کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں وہ ان داستانوں کے مختلف کرداروں کو بے نقاب کرتے پائے جاتے ہیں۔ ’’پاکستان میں اسلامی نظام میں دنیا کی دلچسپی‘‘ اور ’’مصر میں فوجی بغاوت اور جمہوریت کا قتل‘‘ کے عنوانات کے تحت ان کے کالم ان کی اسلام اور اسلامی تحریکوں سے گہری قلبی وابستگی کے مظہر ہیں۔ وطنِ عزیز کی ماضیِ قریب کی تاریخ خصوصاً اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہنے والی سیاسی شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی کے لیے ’’رائے عامہ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہوگا۔ ممتاز بزرگ صحافی جناب مجیب الرحمٰن شامی کی ’’رائے عامہ‘‘ اور رائے ریاض حسین سے متعلق یہ رائے نہایت صائب ہے کہ:
’’رائے صاحب کے ہاں دھماکے بھی ہیں اور ذائقے بھی۔ مجھے امید ہے ان کی یہ تصنیف پاکستانی سیاست اور اس کے مختلف کرداروں کو سمجھنے میں مدد دے گی اور ان کو بھی اُس صف میں کھڑا کردے گی، جس میں قدرت اللہ شہاب، مختارمسعود اور الطاف گوہر جیسے مینار کھڑے ہیں‘‘۔
کتاب اعلیٰ معیاری کاغذ پر نہایت اہتمام سے شائع کی گئی ہے، موقع محل کی مناسبت سے جابجا رنگین تصاویر بھی شامل ہیں۔ مضبوط جلد، خوبصورت سرورق اور گرد پوش سے آراستہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ’’رائے عامہ‘‘ کو ملک کی تمام جامعات کی لائبریریوں کی زینت بنایا جائے۔