آپ کا درس و تدریس، ٹریڈ یونین تحریک، تحقیق،صحافت، تصنیف و تالیف میں علمی، فکری اور نظریاتی جدوجہد کا سفر سات دہائیوں پر محیط ہے
(دوسری قسط)
حیدر آباد سے مستقل طور پرکراچی منتقلی:
پروفیسر محمد شفیع ملک جنوری 1970ء میں حیدرآباد سے مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ پہلے آپ ناظم آباد نمبر2، پھر بلاک Hنارتھ ناظم آباد میں کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر رہے، اور بعد ازاں کراچی شہر کو اپنا مستقل مسکن بنانے کے لیے آپ نے اپنا لطیف آباد، حیدرآباد میں واقع دو منزلہ مکان اور 25 ایکڑ وراثتی زرعی اراضی فروخت کرکے بلاک L نارتھ ناظم آباد کراچی میں اپنا ذاتی مکان تعمیرکرایا اور مستقل طور پر کراچی میں رہائش پذیر ہوگئے۔
ماہنامہ الکاسب کراچی کا اجراء:
پروفیسر محمد شفیع ملک کو وطن عزیز کے محنت کش طبقے اور مزدور رہنمائوں کو مثبت ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے انہیں فکری و نظریاتی رہنمائی اورضروری تعلیم و تربیت فراہم کرنے سے ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی اس فکر اور نظریے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے1986ء میں کراچی سے ایک ماہنامہ جریدہ ’’الکاسب‘‘ کا اجراء کیا تھا۔ ماہنامہ الکاسب کو پروفیسر محمد شفیع ملک کا Brain Childکہا جا سکتا ہے۔ ’’الکاسب‘‘ ملک میں اسلامی مزدور تحریک کا واحد ترجمان ہے۔ ایک دور میں حکومتِ پاکستان بھی ملک کے محنت کش طبقے کے لیے لیبر گزٹ (Labour Gazette)کے نام سے ایک باقاعدہ جریدہ شائع کرتی تھی۔ اسی طرح ملک میں آجران کی سب سے بڑی انجمن، ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے زیر اہتمام انڈسٹریل ریلیشنز جرنل (Industrial Relations Journal) بھی شائع کیا جاتا تھا۔لیکن عرصہ ہوا ان دونوں جرائد کی اشاعت بند ہوچکی ہے۔ اب شعبہ محنت میں صرف’’ الکاسب‘‘ کا وجود باقی رہ گیا ہے، جو ملک میں مزدور تحریک کی آبیاری و نشوونما اورصنعتی تعلقات کے اسلامی ماڈل کو روشناس کرانے کے لیے کوشاں ہے، جس کے ہر شمارے میں شائع ہونے والے مضامین، رپورٹوں اور خبروں کے لیے آپ اپنی ذاتی نگرانی میں نہ صرف معیاری اور معلوماتی مواد کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ نہایت سنجیدگی اور عرق ریزی کے ساتھ مختلف موضوعات پر نت نئی معلوماتی تحریریں اور مضامین بھی قلم بند کرتے ہیں۔
ماہنامہ الکاسب کراچی اپنے محدود وسائل اور مختلف انتظامی اور مالی رکاوٹوں کے باوجود گزشتہ37برسوں سے آج بھی بڑی باقاعدگی کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ جبکہ ملک میں شدید اقتصادی بحران، بدترین مہنگائی اور بلند افراطِ زر کے باعث بے شمار اخبارات و جرائد کاغذ و دیگر طباعتی مصنوعات کی دن بدن بڑھتی قیمتوں اور طباعت و ترسیل کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث تیزی سے دم توڑ رہے ہیں۔ لیکن پروفیسر محمد شفیع ملک نے اپنی ذاتی دلچسپی اورذوق و شوق کی بدولت ماہنامہ الکاسب کراچی کے وجود کو آج بھی زندہ و تابندہ رکھا ہوا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظرملک کے شعبہ محنت (Labour Subject)کے متعلقہ وفاقی و صوبائی سرکاری و خودمختار اداروں ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF)، ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) اورادارہ سماجی تحفظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) سمیت چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل، صنعت کاروں کی ملک گیر تنظیم ایمپلائرزفیڈریشن آف پاکستان (EFP) اور اہم صنعتی، تجارتی اور کاروباری اداروں کو آجران اور محنت کشوں کے ترجمان ماہنامہ الکاسب کراچی کی اشاعت کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی بھرپور سرپرستی اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
ماہنامہ الکاسب کراچی ملک میں شعبہ محنت(Labour Subject) کے تناظر میں اسلامی تعلیمات، فقہ و احادیث، حب الوطنی، قائداعظم کے ارشادات، فکرِاقبال، اقتصادیات، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدور تحریک کی سرگرمیوں، ٹریڈ یونین اور اجتماعی سودے کاری کے فروغ، مزدور قوانین کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزدور تحریک کے فروغ و ترقی کے لیے بیش بہا نظریاتی خدمات انجام دے رہا ہے۔ جناب غلام ربانی ایک طویل عرصے سے ماہنامہ الکاسب کراچی کے نائب مدیر کی حیثیت سے اس جریدے کی تیاری اور بروقت اشاعت کے لیے مدیر اعلیٰ پروفیسر محمد شفیع ملک کی بھرپور معاونت کے ساتھ ساتھ اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے اپنے گزشتہ اجلاس میں جنوری2023ء سے الکاسب کراچی کو نئی آب و تاب کے ساتھ ماہانہ بنیاد پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ جریدہ اب ماہانہ بنیادوں پر شائع کیا جارہا ہے۔ ماہنامہ الکاسب کراچی کو باقاعدگی کے ساتھ شعبہ محنت کے تمام متعلقہ وفاقی اداروں،صوبائی محکموں،عالمی ادارہ محنت(ILO) پاکستان، اسلام آباد، ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (EFP)، چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت و انسانی وسائل،مرکز سمیت نیشنل لیبر فیڈریشن (NLF) کے تمام دفاترو عہدیداران،مختلف مزدور فیڈریشنز،ٹریڈ یونین تحریک سے وابستہ فعال افراد کے علاوہ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ شخصیات، وکلا اورصنعت کار حضرات کو باقاعدگی کے ساتھ ارسال کیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کے لیے نامزدگی اورمجلس شوریٰ کے رکن کا اعزاز:
پروفیسر محمد شفیع ملک کو میدانِ سیاست میں سرگرم رہنے کے دوران عام انتخابات کے موقعوں پر کم از کم تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی کی نشست کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔پہلی مرتبہ1959ء میں جب ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد عام انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔ دوسری بار1979ء میں،اس بار بھی فوجی حکومت نے عام انتخابات ملتوی کردیے تھے اور بعد ازاں 1985ء میں، جس میں آپ کورنگی کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے دوسرے نمبر پر کامیاب قرار پائے تھے۔ چنانچہ مجلس شوریٰ کے قیام کے وقت آپ کی مزدور تحریک میں گرانقدر اور غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں اُس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے آپ کو مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا تھا۔چنانچہ آپ1982ء تا1985ء مجلس شوریٰ کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے نمایاں طور سے خدمات انجام دیتے رہے۔جبکہ آپ کے وسیع تدریسی تجربے،ملک میںٹریڈ یونین تحریک کے لیے بیش بہا اور گرانقدر خدمات اور فکری و انتظامی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی دیرینہ خواہش تھی کہ آپ وزیر محنت و افرادی قوت کی حیثیت سے وفاقی وزارتِ محنت و افرادی قوت کا قلمدان سنبھال لیں، لیکن آپ نے بوجوہ یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ آپ بہت عرصے تک محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم دو قومی اداروںایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے بورڈ آف ٹرسٹیز اور ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF) میں صوبہ سندھ کے ملازمین کے نمائندے کی حیثیت سے بھی نمایاں طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ(We Trust) کا قیام:
پروفیسر محمد شفیع ملک نے اپنی پوری زندگی تحصیل و تدریسِ علم، ٹریڈ یونین تحریک کے فروغ اور محنت کشوں کی ہر ممکن فلاح و بہبود کے لیے بسر کی ہے۔ لہٰذا آپ کا کہنا ہے کہ ہر مزدور تحریک کے رہنمائوں اور محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کی ہمہ جہت تعلیم و تربیت کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے ملک کے محنت کش طبقے میں ضروری تعلیم و تربیت کے فقدان کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے مزدور رہنمائوں اور محنت کش طبقے میں اسلامی تعلیمات، پُرامن صنعتی تعلقات اور مزدور قوانین کے فروغ اور تعلیم و تربیت کی فراہمی کے لیے اپنے رفقائے کار کے بھرپور تعاون سے17اکتوبر 1983ء کو پاکستان ورکرز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ(We Trust) پاکستان کی داغ بیل ڈالی، جوپاکستان میں محنت کش طبقے اور مزدور رہنمائوں کے لیے اپنی طرز کا ایک اہم اور منفرد تربیتی و تعلیمی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔
وی ٹرسٹ کا 17رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز معاشرے کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی معروف، تجربہ کار اور بے لوث شخصیات پر مشتمل ہے جو وی ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ مختلف تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے مشاورت، معاونت، رہنمائی اور نگرانی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ٹرسٹ کے عہدیداران میں رانا محمود علی خان وائس چیئرمین، محمد سلمان اشرف وائس چیئرمین، ڈاکٹر فواد احمد سیکریٹری، ضیاء الحق گیلانی فنانس سیکریٹری، اور چودھری احمد خان، برجیس احمد، ریاض عالم، زاہد عسکری، عطا محمد تبسم، نسیم احمد، نعمان پٹیل، کاشف عبدالرحمٰن، مغیث صدیقی، سید محمد فرحان، فدا محمد خان اور محمد فہیم صدیقی جیسی معروف شخصیات شامل ہیں۔ وی ٹرسٹ کے زیر اہتمام مختلف اوقات میں مزدور رہنمائوں اور محنت کشوں کے لیے تربیتی اور تعلیمی کورسز، ورکشاپس، سیمینارز، مذاکروں، مشاعروں اور دیگر اہم تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ وی ٹرسٹ کمپلیکس، گلشن اقبال کراچی میں پروفیسر محمد شفیع ملک کے مطالعہ، تحقیق اور تصنیف وتالیف سے گہرے شغف اور علوم و فنون سے ذاتی دلچسپی کی بدولت مختلف موضوعات اور نادر و نایاب کتب کے ذخیرے پر مشتمل ایک وسیع ریفرنس لائبریری قائم ہے۔ جبکہ وی ٹرسٹ کا بورڈ روم ایئرکنڈیشنڈ اور جدید سمعی و بصری سہولیات سے آراستہ 120 نشستوں پر مشتمل ایک کشادہ ’’عبدالمجید ضیاء سیمینار ہال‘‘ بھی قائم ہے جہاں شہر کی مختلف ٹریڈ یونین، تعلیمی، ادبی اور سماجی تنظیمیں اور ادارے برائے نام فیس پر اپنی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام آل پاکستان کانفرنسوں اور بین الاقوامی سیمینارز کا انعقاد:
ملک کی مزدور تحریک کے سرخیل کی حیثیت سے پروفیسر محمد شفیع ملک کے دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے، مزدور تحریک کے اہم رہنمائوں سے ذاتی رابطے استوار رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کا کہنا ہے کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں مسلم ممالک کی مزدور تحریکیں اور ان کی قیادت بے حد قریب آگئی تھیں اور ایسے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ ہم صحیح معنوں میں دنیا میں ایک بین الاقوامی مزدور تحریک میں فعال اور قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے نیشنل لیبر فیڈریشن نے پروفیسر محمد شفیع ملک کی بصیرت افروز قیادت میں ملکی اور عالمی سطح کے سیمینارز کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا تھا جن میں1991ء میں ’’اسلام میں سماجی تحفظ کا تصور‘‘ منعقدہ کراچی، 1992ء میں’’ اسلام اور مزدور تحریک‘‘ منعقدہ کراچی، 1993ء میں’’ اسلام میں صنعتی تعلقات کا نظام‘‘ منعقدہ اسلام آباد،1994ء میں ’’اسلامی معیاراتِ محنت اور بین الاقوامی معیاراتِ محنت‘‘ منعقدہ لاہور، 1998ء میں’’عالمگیریت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ منعقدہ کراچی، اور 1999ء میں ’’ورلڈ اکنامک آرڈر اور ترقی پذیر ممالک‘‘ منعقدہ اسلام آباد قابل ذکر ہیں۔ ان میں اول الذکر تین سیمینارز کی روداد ’’اسلامک ماڈل آف انڈسٹریل ریلیشنز‘‘ 1994ء میں شائع ہوچکی ہے۔
ان سیمینارز سے عالمی ادارہ محنت(ILO)جنیوا اور ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (EFP)کے نمائندگان کے علاوہ انٹرنیشنل اسلامک کنفیڈریشن آف لیبر (IICL) کے صدر جمال البناء، معروف عالم دین مفتی رفیع عثمانی، نائب امیر جماعت اسلامی چودھری رحمت علی، استنبول یونیورسٹی کے پروفیسر صباح الدین زعیم، معروف دانشور پروفیسر کریم بخش نظامانی، آجر برادری کے مرکزی رہنماء اشرف ڈبلیو تابانی، جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد، آئی بی اے کراچی کے ڈاکٹر عبدالوہاب کے علاوہ ایران، ترکی، مصر، مراکش، بنگلہ دیش اور ملائشیا کی ٹریڈ یونین تحریک کے منتخب نمائندوں، دانش وروں، صحافیوں، سرکاری افسران، مزدور رہنمائوں اور محنت کشوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ ان سلسلہ وار سیمینارز کے انعقاد کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر سے آگہی ضروری ہے۔ اپنے قیام سے اب تک ہماری جدوجہد مزدور تحریک میں اشتراکی نظریے کی یلغار کو روکنے کے لیے جاری تھی، لیکن1990ء میں سوویت یونین کی اشتراکی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں مزدور تحریک میں اشتراکی نظریات کے پھیلائو کا کام عملاً رک گیا تھا،کیونکہ مزدور تحریک پر پوری یلغار صرف سوویت یونین کے بھاری سرمائے اور اس کی سفارتی سرپرستی کی وجہ سے ہورہی تھی۔ اس اشتراکی سلطنت کے خاتمے کے نتیجے میں اب ہمارا پورا زور خود اپنی ٹریڈ یونین لیڈرشپ کی تعلیم وتربیت پر مرکوز ہوگیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ایک اچھے مقام پر ایک اچھی تربیت گاہ کا قیام ناگزیر تھا۔ اس مقصد کے لیے1991ء سے ہم نے ٹریڈ یونین تحریک کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اور تربیتی سیمینارز کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ مزدور تحریک میں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی اپنے نظریاتی کام کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں جاری رکھ سکیں۔
(جاری ہے)