جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام عملی خاکے کی رونمائی سراج الحق اور پروفیسر محمد ابراہیم کا خصوصی خطاب
جماعت اسلامی ملک کی دیگر جماعتوں سے ویسے تو ہر لحاظ سے ممتاز اور مختلف ہے جس کی نمایاں ترین بات اس کا موروثیت سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بے داغ کردار اور یہاں موجود جمہوری کلچر کے ذریعے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے قابل اور مخلص افراد کا پارٹی کے مختلف عہدوں حتیٰ کہ مرکزی امارت تک کے عہدوں پر فائزہونے کی مستحکم روایات ہیں۔ جماعت اسلامی کی یہی خصوصیات ہیں کہ اگر ایک طرف آج اس کے مرکزی امیر خیبر پختون خوا کے ایک دورافتادہ ضلع دیرپائین کے گائوں ثمر باغ سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی عالم دین کے فرزند سراج الحق ہیں، تو دوسری جانب صوبہ خیبر پختون خوا کے موجودہ امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان سمیت ان کی ساری صوبائی ٹیم جن میں نائب امراء مولانا محمد اسماعیل، عنایت اللہ خان، جنرل سیکرٹری عبدالواسع اور پریس سیکریٹری سید جماعت علی شاہ سب کے سب پڑھے لکھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جو اپنی قابلیت اور پارٹی کے لیے اپنی خدمات اور قربانیوں کے صلے میں صوبائی سطح پر پارٹی کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی جہاں اپنے کڑے احتسابی نظام کی وجہ سے اب تک کرپشن کے کسی اسکینڈل سے محفوظ رہی ہے وہاں اس جماعت میں کونسلرشپ سے لے کر سینیٹ اور قومی اسمبلی تک ٹکٹوں کی تقسیم قابلیت، اہلیت اور پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ اور عوامی خدمات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی ایک اور خاص بات اس کی صفوں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کارکنان کی موجودگی ہے جس کی نمایاں مثال اگر کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن ہیں جوپیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں تو دوسری جانب بلوچستان کے ایک اہم راہنما اور گوادر کے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہدایت الرحمٰن صاحب عالم دین ہیں۔ خیبرپختون خوا کے امیر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے ٹیکنوکریٹ ہیں۔ اسی طرح صوبے میں دو مرتبہ صوبائی وزیر رہنے والے نوجوان قائد عنایت اللہ خان نے سیاسیات اور انگریزی ادب میں ماسٹر کررکھا ہے اور انہیں حکومتی معاملات اور رموز پر یدِ طولیٰ حاصل ہے جس کی معترف مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان کی کارکردگی سے واقف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی ہیں جو انہیں بذاتِ خود کئی دفعہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں، حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی قیادت انہیں وزارتِ اعلیٰ کی پیش کش بھی کرچکی ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی محتاجِ بیان نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں جماعت اسلامی نہ صرف مستحکم ووٹ بینک رکھتی ہے بلکہ وہ یہاں پر ماضی میں بھرپور انتخابی نتائج دینے کے علاوہ دو مرتبہ شریکِ اقتدار بھی رہ چکی ہے، اور اگر ملک بھر میں مستقبل کے کسی بھی سیٹ اَپ میں جماعت کو کوئی بڑی پذیرائی ملنے کا امکان ہے تو وہ صوبہ خیبر پختون خوا ہی ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وہ احساس ہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا نے دیگر صوبوں پر سبقت لے جاتے ہوئے آئندہ انتخابات میں متوقع کامیابی کی صورت میں صوبے کے لیے حکومتی سطح پر نہ صرف ایک واضح وژن2023-28 تیار کیا ہے بلکہ گزشتہ دنوں اس وژن کی باقاعدہ رونمائی کی ایک پُروقار تقریب بھی منعقد کی گئی جس کے مہمانِ خصوصی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق تھے، جب کہ اس موقع پر امیر صوبہ پروفیسر محمد ابراہیم خان، مولانا محمد اسماعیل، جنرل سیکرٹری عبدالواسع، نائب امیر عنایت اللہ خان، چیئرمین آئی آر ایس پشاور ڈاکٹرمحمد اقبال خلیل، افغان امور کے نگران شبیر احمد خان، معروف ماہرِ امراضِ معدہ وجگر پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق، ریٹائرڈ بریگیڈیئر محمد یونس، جے آئی یوتھ خیبر پختون خوا کے صدر صہیب الدین کاکاخیل، سینئر صحافی اور ممتاز کالم نگار سلیم صافی، ڈان کے بیوروچیف اسماعیل خان، اوصاف کے بیوروچیف فرید اللہ خان، خیبر نیوز نارتھ کے ڈائریکٹر وقاص شاہ، مصنف، کالم نگار اور صحافی عقیل یوسف زئی، معروف کالم نگار مشتاق شباب، بی بی سی کے نمائندے محمودجان بابر، مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے بیوروچیفس، صحافی، ڈاکٹرز، ریٹائرڈ سرکاری افسران، اساتذۂ کرام، تاجر برادری کے نمائندہ افراد، وکلا اور جماعت کے ذمہ داران بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تقریب سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ’’ آئین و قانون کی حکمرانی قائم اور کرپشن و مس مینجمنٹ کا خاتمہ ہوجائے تو ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے، ملک میں وسائل اور دولت کی کوئی کمی نہیں ہے، بحران کی وجہ نااہل قیادت ہے جو 75برسوں سے فوجی ڈکٹیٹروں اور نام نہاد و جمہوری لیڈران کی شکل میں قوم پر مسلط ہے، تبدیلی کا آغاز ذات سے ہوتا ہے مگر حکمران طبقہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہے، یہ لوگ ایکڑوں پر محیط محلات میں رہتے ہیں، صرف 18افراد کی دولت 4 ہزار ارب روپے ہے، ایک گورنر کے لیے 700کنال کا گھر اور ڈی سی ہاؤسز دو دو سو کنالوں پر مشتمل ہیں، برطانوی وزیراعظم چار کمروں کے گھر میں رہتا ہے، حکمران اشرافیہ ’اسٹیٹس کو‘ کی محافظ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے، اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور سابق وزیرخزانہ، سینیٹر اور سیاسی ورکر اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت نہیں، اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوسکے تو پاکستان کو کسی سے کوئی قرضہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے امیر صوبہ پروفیسر ابراہیم، مولانا اسماعیل، عبدالواسع، عنایت اللہ خان، ڈاکٹر اقبال خلیل اور دیگر صوبائی قیادت کو پنج سالہ (2023ء تا 2028ء) منصوبے کی تیاری پر مبارک باد دی اور خیبرپختون خوا کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے جدوجہد میں مزید تیزی لانے کی ہدایات جاری کیں۔
پروگرام میں جما عت اسلامی خیبر پختون خوا کے نائب امیر و سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان نے خیبر پختون خوا کی ترقی کے حوالے سے تفصیلی پریزنٹیشن پیش کی جس میں صوبائی حکومت کے دائرۂ کار میں شامل تمام محکموں کے حوالے سے اصلاحات اور گڈ گورننس کا تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا۔ عنایت اللہ خان نے کہا کہ جماعت اسلامی خیبر پختون خوا میں دو دفعہ اتحادی حکومتوں کا حصہ رہی ہے جس میں جماعت اسلامی کے وزراء اور ان کی وزارتوں کی کارکردگی مثالی رہی، جس میں ملاکنڈ میں 80 میگا واٹ پن بجلی کا منصوبہ، بلاسود بینکا ری کا اجراء، وفاق سے پن بجلی کے منافع کا حصول، خواتین کے لیے الگ یونیورسٹی، طالبات کے لیے الگ میڈیکل کالج، میڈیکل یونیورسٹی،کڈنی سینٹر، برن یونٹ سمیت بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور سیدو شریف میں ٹیچنگ ہسپتالوں کا قیا م شامل ہے۔ سراج الحق کی دو وزارتوں میں خیبر پختون خوا نے قبل از وقت قرضوں کی ادائیگی کرکے صوبے کے اربوں روپے کی بچت کی تھی اور صوبہ تقریباً قرض فری بن چکا تھا جو آج بدقسمتی سے 970 ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس طرح 18-2013ء لوکل گورنمنٹ کے تحت پشاور اَپ لفٹ پروگرام، بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی تفویض، سولڈ ویسٹ ہٹانے کے پراجیکٹ سمیت پورے صوبے میں 80 ارب روپے سے زائد کے پراجیکٹس مکمل کیے گئے جس پر ورلڈ بینک اور یو این ڈی پی نے محکمہ بلدیات کی کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ صحت سہولت کارڈ سمیت ماضی کی حکومتوں کے شروع کردہ عوامی مفاد کے منصوبوں کو ختم کرنے کے بجائے اس میں کرپشن کے موجود دروازوں کو بند اور ان منصوبوں سے متعلق خرابیوں کو دور کرکے انہیں عوامی مفاد میں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر شعبے کے ماہرین کی زیر نگرانی صوبے کی ترقی کا 300 صفحات پر مشتمل لائحہ عمل کی دستاویز تیار کی ہے جس میں صوبے کی مالیاتی خودمختاری اور استحکام کےساتھ ساتھ ایک جامع ترقی اور گڈ گورننس کا عملی خاکہ موجود ہے جس کو جماعت اسلامی کی حکومت عملی شکل دے گی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی، زراعت، مویشی پروری، معدنیات اور سیاحت کے شعبوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کھربوں روپے کے وسائل جمع کیے جاسکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی حکومت تعلیم، صحت، روزگار اور زراعت پر خصوصی توجہ دے گی۔ صوبے میں پرائیویٹ اداروں اور انڈسٹریز کے ذریعے روزگا ر کے مقامی مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 20 ہزار ایکڑ پر جنگلات کی کاشت کی جائے گی۔ 1.5 ملین ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا۔ صو بے میں شرح خواندگی 80 فیصد تک بڑھائی جائے گی۔ 5 نئی سرکاری جامعات، 50 ڈگری کالج، 30 ہائر سیکنڈری اور 1000 پرائمری اسکول قائم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں وسائل کی کمی نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے لانگ ٹرم پلاننگ کے فقدان اور کرپشن کی وجہ سے آج صوبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی خیبرپختون خوا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے جس سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے، ہماری حکومت برسراقتدار آنے کے بعد پانچ سالوں میں کم از کم پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرے گی جس کے لیے صوبے کی اپنی الگ ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ مقامی سیاحت کو مذہبی اور میڈیکل سیاحت کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور آمد ورفت کو فروغ دینے کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون سے بارہ انٹری پوائنٹس کو فعال بناکر وہاں تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ عنایت اللہ خان نے کہا کہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں، انہیں تعلیم، کھیل کود اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے علاوہ ایک لاکھ نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کی مفت ٹریننگ دے کر خود روزگاری کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
صوبائی امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا پروفیسر ابراہیم خان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کریں اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کے خاکے پیش کریں۔ پروگرام سے سینئر صحافی سلیم صافی نے بھی خطاب کیا اور جماعت اسلامی کی کارکردگی کی تعریف کی، جب کہ آخر میں عنایت اللہ خان نے تحمل اور مہارت سے تمام شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔