استحصال اور حق تلفی کی پالیسیاں کدورتوں کو جنم دیتی ہیں۔ صوبے کے اندر عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت ہوتی تو وفاق استحصال نہ کرسکتا
بلوچستان کے دیگر اضلاع و علاقوں کی محرومیوں کی تو اپنی الگ داستان ہے، یہاں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ تک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ کوئٹہ میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ایسا مسئلہ ہے جسے سوئی سدرن گیس کمپنی، واپڈا اور وفاق سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتے۔ سردیاں کوئٹہ کے عوام ایک عذاب میں گزار چکے ہیں اور اب ماہِ صیام میں شہری بجلی اور گیس کی کمیابی کا سامنا کررہے ہیں۔ عوام روزے کی حالت میں گیس بحالی کی خاطر سڑکوں پراحتجاج کرتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مذمتی بیانات محض خانہ پری کی حد تک جاری کرتی ہیں تاکہ کل کلاں کہہ سکیںکہ وہ احتجاج کرچکی ہیں۔ یہی حال بلوچستان اسمبلی کا ہے، اس ایوان کے اندر بھی احتجاج صرف تقاریر تک محدود ہے۔ 65 ارکان کی اسمبلی صوبائی دارالحکومت کی یہ اہم ضرورت پوری اور مسئلہ حل کرانے میں یکسر ناکام ہے۔
کوئٹہ کے اندر آٹھ سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ٹرانسفارمر اور لائنوں کی خرابی کی صورت میں متعلقہ گرڈز کا عملہ اپنی مرضی کا پابند ہوتا ہے۔ شکایت درج کرانے کے باوجود عملہ ایک دن یا دو دن بعد خرابی دورکرنے چلا جاتا ہے۔ ٹرانسفارمر اگر خراب ہو تو ان کے پاس اضافی ٹرانسفارمر نہیں۔ مرمت کے لیے لے جائیں تو کئی کئی دن علاقہ مکین بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ اس دوران لوگوں کو قلتِ آب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ان سردیوں میں کوئٹہ کا غالب حصہ گیس سے محروم رہا ہے بلکہ اب بھی محروم ہے۔ عوام متبادل ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگ مجبوراً گیس کشید کرنے والا آلہ (کمپریسر) استعمال کرتے ہیں، جبکہ گھنٹوں بجلی غائب رہنے کی وجہ سے کمپریسر بھی کام نہیں آتے۔
رمضان میں افطاری اور سحری کے اوقات میں بجلی کی فراہمی معطل نہ کرنے کے وفاق کے اعلان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا۔ صوبے کے اندر حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف ایک ہی تھالی میں کھاتی ہیں۔ یہ سنجیدہ اور مخلص ہوتے تو شاید گیس کی لوڈشیڈنگ اور پریشر کی کمی کا معاملہ حل ہوجاتا۔ لوگ ماہِ مبارک میں سڑکوں پر نکل آ ئے ہیں۔ مستونگ وغیرہ میں گیس کی قلت کے خلاف عوام نے قومی شاہراہ بند کردی۔ اس مشکل وقت کے پیش نظر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے رسماً لب کشائی کرلی۔ وہی ٹرخانے والے الفاظ کہ اگر وفاق نے گیس کی کمی کا معاملہ حل نہ کیا تو احتجاج کیا جائے گا۔ صوبے کی سیاسی جماعتیں اور اسمبلی چاہے تو وفاق مزید استحصال نہیں کرسکتا۔ خرابیوں کے لیے صوبے کے نمائندے سب سے پہلے ذمے دار ہیں۔ وفاق میں صوبے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسمبلی ارکان اور وزراء اسمبلی اجلاسوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ 20 مارچ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صرف اسپیکر جان محمد جمالی اور رکن خلیل جعفر جارج شریک تھے۔ اکثر اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی بنا پر ملتوی ہوجاتے ہیں۔ وفاق ان کی کسی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ گیس کی مد میں وفاق بلوچستان کا پچاس سے ساٹھ ارب روپے کا مقروض ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ برابر نہیں دیا جاتا۔ صوبے کے وزیر خزانہ انجینئر زمرک اچکزئی نے بتایا ہے کہ وفاق نے پچھلے مالی سال کے این ایف سی ایوارڈ میں دس ارب روپے بادلِ نخواستہ دیے ہیں۔ بلوچستان کو گیس مطلوبہ ضرورت سے کم مل رہی ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی پر صوبے کے عوام کی چیخ پکار کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ بجلی بھی مطلوبہ ضرورت سے کم مل رہی ہے۔ صوبے کی حکومت کہتی ہے کہ 800میگا واٹ ضرورت ہے جبکہ چار سو میگا واٹ دی جارہی ہے۔
استحصال اور حق تلفی کی پالیسیاں کدورتوں کو جنم دیتی ہیں۔ صوبے کے اندر عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت ہوتی تو وفاق استحصال نہ کرسکتا۔ ایسی حکومت اور نمائندے صوبے کوکیا حقوق دلائیں گے جن کی کارکردگی فقط سوشل میڈیا اور اخباری بیانات تک محدود ہو! جبکہ برسرِ زمین محرومیاں ہیں، شہری اور عوامی مسائل کے انبار ہیں۔ صوبے کی حکومت بیدار ہوتی تو کم از کم این ایچ اے، بولان میں پنجرہ پل بہہ جانے کے بعد نیا پل تعمیر کرتی۔ این 65 کا یہ پل گزشتہ سال اگست میں سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ یہ شاہراہ مختلف مقامات پر شدید متاثر ہوئی ہے۔ چناں چہ 24 مارچ 2023ء کو بارش ہوئی تو عارضی راستہ بہہ جانے سے اس سڑک کے ذریعے دوسرے صوبوں سے رابطہ منقطع ہوا۔ بارش رکی اور بولان ندی میں پانی کم ہوا تو دوبارہ عارضی طور پر شاہراہ بحال کردی گئی۔ یعنی بارشوں کی صورت میں یہ شاہراہ بند ہوتی رہے گی۔ حالاں کہ وزیراعظم شہبازشریف اس مقام کا خود دورہ کرچکے ہیں۔ مگر این ایچ اے رتی بھر کام نہیں کرسکی ہے۔ صوبائی حکومت سے کیا گلہ، وہ تو ہوش میں ہی نہیں۔