جدید دنیا کے معاشروں پرلبرل ازم کے اثرات

اس تحقیق کے لیے پوری دنیا کے پانچوں براعظموں کے 24 ممالک کا انتخاب کیا گیا

دنیا بھر میں مسلمان جہاں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور اپنے ایمان میں اضافے، رب سے قربت اور روح کی تسکین کا سامان کررہے ہیں.. وہیں دنیا میں ایک اور سمت میں بھی تیز ترین ترقی نظر آتی ہے، اور وہ ہے مادر پدر آزادی۔ جدید مغرب اس کو لبرل ازم کا نام دیتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں ہم اس بات کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ سرکاری طور پر مسیحی ریاست برطانیہ اب مسیحی ملک نہیں رہا، گوکہ اس کا مشاہدہ آپ کو یہاں بند ہوتے ہوئے چرچ اور مذہب سے دوری کی صورت میں نظر آتا ہے لیکن برطانیہ کی نئی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اب برطانوی باشندوں کا اکثریتی مذہب عیسائیت نہیں ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں برطانوی باشندوں کی اکثریت اب مذہب سے لادینیت کی جانب منتقل ہوچکی ہے۔ برطانیہ میں مذہب کی حیثیت جہاں تیزی سے ختم ہورہی ہے وہیں اس کے برعکس مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا، لیکن اس کی بنیادی وجوہات میں ہجرت اور مسلمانوں کی آبادی میں افزائش نسل کی بنیاد پر ہونے والا اضافہ ہے۔ اب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے جس کو پالیسی انسٹی ٹیوٹ کنگز کالج لندن نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق برطانیہ دنیا کے لبرل ترین ممالک کی صفِ اول میں شامل ہے، اور چند معاملات میں دنیا کے لبرل ترین ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ کر سرفہرست ہے۔ اس تحقیق کا مقصد لبرل ازم کے اثرات اور معاشروں میں اس کے نفوذ کا تجزیہ تھا۔ اس تحقیق کے لیے پوری دنیا کے پانچوں براعظموں کے 24 ممالک کا انتخاب کیا گیا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ہم جنس پرستی، قحبہ گری اور بغیر کسی مستقل ساتھی کے جنسی مراسم کو برطانوی معاشرے میں حیرت انگیز قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اب برطانیہ دنیا کے چار صفِ اول کے ممالک میں شامل ہے کہ جس کے باشندے طلاق، خودکشی، بغیر کسی مستقل ساتھی کے جنسی مراسم، اور اسقاط حمل کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے پُرزور حامی بھی ہیں۔ واضح رہے کہ اب تک برطانوی قانون میں خودکشی کو جرم تصور کیا جاتا ہے، یا پھر اس کی اجازت قانون میں موجود نہیں ہے۔

اس تحقیق کے مطابق اس وقت اسقاطِ حمل اور طلاق کے حوالے سے سوئیڈن کے باشندوں کا پہلا نمبر ہے، خودکشی کو جائز سمجھنے والوں میں فرانسیسی سرفہرست ہیں، جبکہ آسٹریلیا کی نصف سے کم آبادی اب تک کسی مستقل ساتھی کے بغیر جنسی مراسم کی حامی ہے۔ سروے میں پوچھے گئے سوالات کے نتائج کے مطابق سوئیڈن کے 75 فیصد سے زائد باشندے اس کو جائز سمجھتے ہیں یا اس عمل میں حصہ لے چکے ہیں، اس کے بعد دوسرا نمبر برطانیہ کا ہے جہاں 63 فیصد باشندے اس کے حامی ہیں یا اس میں شامل ہیں۔ ہم جنس پرستی کو جائز سمجھنے والوں میں سوئیڈن سرفہرست ہے جہاں 75 فیصد سے زائد باشندے اس کے حامی ہیں، جرمنی 67 فیصد کے ساتھ دوسرے اور برطانیہ 65 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اسقاطِ حمل اور بغیر کسی مستقل ساتھی کے جنسی مراسم قائم کرنے کے حوالے سے برطانیہ اس وقت دنیا میں تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ یہ حقائق اس حوالے سے بھی چشم کشا ہیں کہ سال 2009ء کے مقابلے میں صرف 14 سالوں میں آزاد جنسی مراسم قائم کرنے کے بارے میں برطانوی باشندوں کی رائے سو فیصد تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے یہ تعداد بیس فیصد کے قریب تھی جو اب بڑھ کر اکتالیس فیصد ہوچکی ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ تمام رجحانات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ نئی نسل کی ترجیحات پرانی نسل سے مختلف ہیں۔ اب وہ گھر بسانے، اس کو آباد رکھنے، بچوں کی پرورش جیسے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتے، اسی وجہ سے سال 2021ء میں انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کی بلند ترین شرح ریکارڈ کی گئی۔

دنیا میں برطانیہ کو مسیحی ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے کہ جہاں کی اقدار میں اب تک آپ کو مذہب کی جھلک نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کی عظیم درسگاہ رائل کالج آف سرجنز کے کانوکیشن میں شرکت کا موقع ملا۔ وجہ یہ بنی کہ ہماری اہلیہ نے رائل کالج آف سرجنز، ایڈنبرا کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی لہٰذا ڈگری کے حصول کے لیے تقریب میں شرکت کی۔ پانچ سو سال پرانی طب کی اس عظیم درسگاہ میں آج بھی تقریبِ تقسیم اسناد کا آغاز و اختتام دعا سے ہوتا ہے۔ برطانیہ کی تاریخ خود مسیحیت سے وابستہ ہے، برطانوی بادشاہت بھی مسیحی عقائد کے مطابق خدا کی نیابت ہی ہے جس کا کام ریاست کو مذہب کے اصولوں پر چلانا تھا۔ برطانیہ میں بتدریج بادشاہت کا زوال بھی مسیحیت کا زوال ثابت ہوا اور آج جہاں بادشاہت محض ایک علامت ہے وہیں برطانیہ میں مذہب کی علامت بھی اب ماند پڑ چکی ہے۔

اس تاریخی سفر میں اصل میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آیا اس کے اثرات سماج پر کیا منتقل ہورہے ہیں۔ اس وقت جدید دنیا کے رجحانات میں مذہب سے لادینیت کی جانب سفر، اعلیٰ ترین معیارِ زندگی کا حصول، اور اس کے پہلے زینے کے طور پر دولت کا حصول ہے، لیکن خود لبرل ازم اعلیٰ ترین معیارِ زندگی کی تشریح کرنے سے قاصر ہے، یا وہ ایک ایسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کررہا ہے جس کا کوئی سرا اس کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر آپ اعلیٰ ترین معیارِ زندگی کو فی کس شرح آمدنی، اعلیٰ ترین تعلیم، طب کی بہترین سہولیات، اعلیٰ ترین غذا اور بہترین رہائش کے ترازو میں تولتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے فی کس شرح آمدنی کا معیار مقرر کرتے ہیں تو بھی اس سب کا مقصد انسان کی تسکین کا ایسا سامان ہے جس کے بعد انسان کو شاید کسی اور چیز کی تمنا نہ رہے، لیکن حیرت انگیز طور پر ان تمام باتوں کے حصول میں انسان جیسے جیسے آگے جارہا ہے ویسے ویسے اس کی جبلت میں کھوکھلا پن ظاہر ہوکر اس کو مزید بے چینی و اضطراب میں مبتلا کررہا ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ خود برطانیہ میں کی گئی تحقیقات اس بات کو ظاہر کررہی ہیں کہ انگلینڈ میں ہر چار میں سے ایک فرد ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ جبکہ ہر چھ میں سے ایک فرد ڈپریشن اور Anxiety کا شکار ہے۔ یہ ایسے معاشرے کی بات ہے جہاں تعلیم، صحت، خوراک اور رہائش تک ریاست کی نہ صرف مکمل ذمہ داری ہے بلکہ ریاست اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی ادا بھی کرتی ہے… یعنی خوراک، مکان، صحت و تعلیم کی ضروریات مہیا ہونے کے باوجود خود مغرب میں نفسیاتی مسائل کی یہ شرح ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر پانچ میں سے ایک فرد خودکشی کے بارے میں سوچتا ہے، جبکہ ہر چار میں سے ایک فرد خود پر تشدد کرتا ہے، اور ہر پندرہ میں سے ایک فرد خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے اور اس کو حقیقت کا روپ دینے کے باوجود مغرب میں عورت کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ چکے ہیں اور 2016ء کی ایک تحقیق کے مطابق عورتوں میں خودکشی کی شرح مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں ہر تین میں سے ایک فرد کسی نہ کسی ذہنی معالج سے منسلک ہے اور اس کے لیے زیادہ تر نفسیاتی ادویہ ان کو علاج کی غرض سے دی جارہی ہیں۔ 2021-22ء کے اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ لاکھ افراد کو صرف انگلینڈ میں علاج کی غرض سے نفسیاتی معالجوں کے پاس بھیجا گیا۔ گزشتہ سروے میں جوکہ سال 1993ء تا 2014ء کیا گیا تھا اس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 16سے24 سال کی خواتین میں نفسیاتی امراض کی شرح بلند ترین ہے جوکہ 28 فیصد ہے، جبکہ اسی عمر کے مردوں میں یہ شرح 10 فیصد ہے۔ سروے کے نتائج اس امر پر بھی دلالت کررہے ہیں کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ نفسیاتی طور پر بیمار افراد کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ اضافہ بیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

ایک اور پہلو جس پر پوری دنیا کو سنجیدگی سے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے وہ ہم جنس پرستی ہے، کیونکہ برطانیہ کی تحقیق کے مطابق نفسیاتی بیماریوں کی بلند ترین شرح ہم جنس پرستوں میں نوٹ کی گئی جوکہ غیر ہم جنس پرستوں سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔

ان تمام نکات کو اگر ذہن میں رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب سے بتدریج لادینیت کی طرف سفر نے انسان کے نفسیاتی مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ جبکہ انسان خود اس بات کا اعتراف بھی کررہا ہے کہ اس کا معیارِ زندگی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ لیکن آج کے انسان کے معیارِ زندگی کے تصور پر نہ صرف ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو محض مادے کے علاؤہ روحانی، نفسیاتی اور جذباتی تسکین کے پیرائے میں بھی جانچنے کی شدید ضرورت ہے۔

مغرب مذہب کا لبادہ پھینک کر ترقی کے جس سفر پر تین سو سال قبل گامزن ہوا تھا جہاں ایک طرف کلیسا کی جکڑبندی سے نجات اور دوسری جانب لبرل بنیادوں پر ریاست، سیاست و قانون کی تشکیل تھی آج وہ جدید ریاست بھی اسی جگہ پہنچ چکی ہے جہاں کلیسا اور بادشاہت کی ہٹ دھرمی و مظالم کی بنا پر انقلابِ فرانس سے قبل کا معاشرہ تھا۔ مغرب میں جدیدیت خود اس کے لیے نئے نفسیاتی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہے، اس کی وجہ محض ترقی نہیں بلکہ وہ مادر پدر آزاد ترقی ہے جو اب خود مغربی معاشروں کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے جس میں اسقاطِ حمل، بچوں کی پرورش سے نجات اور بے راہ جنسی آزادی سرفہرست ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے اب مغرب خود اس ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور ہے۔ ایک طرف کم ترین شرح افزائشِؒ نسل کی بنیاد پر مغرب کو اب نظام کو چلانے کے لیے مزدور کارکن میسر نہیں، اور افرادی قوت کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ ہرسال لاکھوں افراد کو اپنے معاشروں میں اپنے کاروبارِ مملکت کو چلانے کے لیے بلاتے ہیں، اور دوسری جانب جنسی بے راہ روی کا عفریت کسی صورت مغرب کے انسان کو تسکین فراہم کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ شادی سے آزادی، جنسی بے راہ روی اور اب ہم جنس پرستی میں بھی تسکین کا حاصل نہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ مغرب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ لبرل بنیادوں پر بننے والے قانون خود مغرب کو ترقیِ معکوس کی جانب لے جارہے ہیں۔

ایک جانب مغرب کا المیہ سامنے ہے اور دوسری جانب اس ماہِ مقدس میں مسلمان اپنی روحانی تسکین کا خود تو خوب اہتمام کررہے ہیں لیکن مغرب میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کا یہ فرض اوّلین ہے کہ وہ مغرب کے اس نفسیاتی بحران میں اس کا حل خود مغرب کے اصولوں کے مطابق پیش کریں۔ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اور اس کی دعوت کی اولین مخاطب دکھی انسانیت ہے۔ اس دکھی انسانیت کی مثال محض کشمیر و فلسطین ہی نہیں، بلکہ خود مغرب میں مغرب کے ہاتھوں ستم رسیدہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امداد کے لیے مغرب میں سیکڑوں تنظیمیں چندے و عطیات جمع کرتی ہیں وہاں خود مغرب کی سسکتی و بلکتی انسانیت کو فراموش کردیتی ہیں۔ مغرب کی سسکتی انسانیت کا مسئلہ مالی

امداد نہیں بلکہ نفسیاتی و روحانی تسکین کی امداد ہے۔ اس کو پیش کرنے اور مقبول بنانے کے لیے کٹھ ملائیت کے بجائے خود مغرب کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ایک جامع دعوت ان کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جو مغرب کے نہ صرف اصولِ تحقیق و مباحث کے معیار پر پورا اترتی ہو بلکہ مغرب کے اندر موجود جدید مسائل کا منطقی حل بھی ان کے سامنے رکھ سکے۔ یہ کام افراد کا بھی ہے اور مغرب میں موجود سیکڑوں چیریٹی آرگنائزیشنز کا بھی، کیونکہ آپ کی روحانی و نفسیاتی فلاح کے پہلے مخاطب آپ کے اہلِ محلہ ہیں۔ مغرب میں اب تک اس ضمن میں چند کاوشیں ضرور ہوئی ہیں لیکن وہ اب معدوم ہوچکی ہیں، جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مغرب میں پیدا ہونے والے مسائل خود دعوت کے نئے میدان کو جنم دیتے ہیں۔ مغرب میں موجود افراد و تنظیمیں اگر اس کو فراموش کرکے محض چندے جمع کرنے کے معمول کو ختم نہیں کریں گی تو اسلام کی حیثیت مغرب میں پوجا پاٹ کے ایک دین کی سی ہوگی جوکہ عصری معاملات سے لاتعلق ہے، اور پھر مغرب میں اسلام کا انجام بھی عیسائیت سے مختلف نہیں ہوگا۔