کیا آئی ایم ایف سے معاہدہ سیاسی ٹکرائو کی نذر ہو رہا ہے
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا التوا طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس لیے جو فیصلہ سامنے آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا، بلکہ سبھی اس پر متفق تھے کہ موجودہ حالات میں حکمران اتحاد کسی بھی صورت میں انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ حکومت کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا ہے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس کھیل میں الیکشن کمیشن کی مکمل معاونت حکومتی اتحاد، دو صوبائی نگران حکومتوں، وزیراعلیٰ اور گورنروں نے کی تھی۔ ان ہی کے دبائو اور فیصلے کو بنیاد بناکر الیکشن کمیشن نے انتخابات سے معذرت کی، اور الیکشن کمیشن نے وہی کچھ کیا جو اس سے کہا گیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی اتحاد کا فیصلہ بالادست ہوگیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں قانون اور آئین کے مقابلے میں افراد یا حکومت کی خواہش کو بالادستی حاصل ہوئی۔ انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے کہ اسے آئین کو بچانا ہے یا حکومتی فیصلے کو تقویت دینا ہے۔ اور یہی فیصلہ حالیہ انتخابی بحران کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ اپنی سربراہی میں بنادیا ہے، دیگر ججوں میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین احمد شامل ہیں۔ اس بینچ پر بھی خدشہ یہی ہے کہ حکمران اتحاد تنقید کرے گا اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کرے گا۔ پہلے ہی مریم نواز موجودہ عدلیہ پر سخت تنقید کررہی ہیں اور اُن کے بقول عمران خان کی نئی اسٹیبلشمنٹ فوج نہیں بلکہ عدلیہ ہے اور وہ عدلیہ کی مدد سے سیاسی میدان میں غالب ہونا چاہتے ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔ یہ بات تواتر سے لکھی جارہی ہے کہ موجودہ صورت حال میں حکمران اتحاد کو کسی بھی صورت میں انتخابات قبول نہیں ہیں، اور ہر صورت میں فوری انتخابات کا راستہ روکا جائے گا۔ اسی طرح یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اگر انتخابات اکتوبر میں ہی ہونے ہیں تو پھر ان نگران حکومتوں کو کیسے اور کس قانون کے تحت توسیع دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی خان اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنا اختلافی فیصلہ سنادیا جس میں اُن کے بقول صوبائی الیکشن ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوچکا ہے۔ ان کے بقول چیف جسٹس کو ون مین پاور شو پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ شاہی عدالت نہ بنے کیونکہ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بینچ کی تشکیل کے لیے فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔ دو ججوں کے اس فیصلے سے ایک نیا سیاسی و آئینی پنڈورا باکس کھولنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس فیصلے کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے۔ عدالت انتخابات کے تناظر میں درخواست سن رہی ہے تو ایسے موقع پر دو ججوں کا اس طرح کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کھیل میں خرابیاں پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس مہم کو بھی عدلیہ مخالف مہم کے طور پر دیکھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ چار تین کا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ چیف جسٹس نے نیا بینچ تشکیل دیا تھا، اور اب حالیہ جاری مقدمے میں بھی جسٹس مندوخیل نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم اس مقدمے میں انتخابات کے التوا تک خود کو محدود رکھیں گے، تین چار کا فیصلہ ہمارا عدالتی داخلی معاملہ ہے اور موجودہ مقدمے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال ایک کوشش کی گئی ہے کہ عدالت میں موجود ججوں میں تقسیم کو نہ صرف گہرا کیا جائے بلکہ ان میں ٹکرائو کا ماحول پیدا ہو۔
دوسری جانب حکومتی وزرا میں سخت تنائو اور ٹکرائو کا ماحول غالب ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول عمران خان نے ہمارا سب کچھ ختم کردیا ہے اور اب ہم انہیں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اور ان کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح ہے۔ ان کے بقول جو بھی ہو عمران خان کا راستہ روکا جائے گا چاہے اس کے لیے غیر جمہوری یا غیر آئینی اقدامات ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔ اسی طرح مریم نواز بھی کہتی ہیں کہ عمران خان کا خاتمہ ہی ان کی سیاسی ترجیح ہے۔ ایسے میں سیاسی ماحول کو کیسے جمہوری اور سیاسی بنایا جائے؟ یہی رویہ اس وقت قومی سیاسی بحران کے حل میں رکاوٹ بھی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان کی سیاسی مقبولیت حکمران اتحاد کے لیے خوف کی علامت بن گئی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی طاقت بالخصوص پنجاب میں بھی ان پر غالب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ مختلف اداروں کی مدد سے ان کو انتظامی یا قانونی بنیادوں پر نااہل کیا جائے۔ یہ سوچ اور فکرہی خطرناک ہے کہ انتخابات آئین اور قانون کے بجائے حکمران اتحاد کی خواہش پر ہوں گے۔ جو لوگ یہ منطق دے رہے تھے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں، اس کی ایک ناکام جھلک ہمیں عمران خان کے لاہورکے حالیہ جلسے میں دیکھنے کو ملی۔ تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود لوگ اتنی بڑی تعداد میں پہنچ گئے تھے جو جلسے کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ اس جلسے کی کامیابی سے بھی حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو مشکل کا سامنا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کو کمزور کرنے کے لیے اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہے۔ صرف حکومت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران خان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور عمران خان کا راستہ روکنے کے خواہش مند ہیں۔ اس تمام تر حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کی سخت پالیسی کا فائدہ بھی عمران خان کو ہورہا ہے اور ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی رہی ہے۔ خود عمران خان برملا کہہ رہے ہیں کہ مجھے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ موجود ہے اور ان کے پاس سوائے میری مخالفت کے کوئی پلان نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کو ہٹاکر موجودہ حکومت کو سامنے لایا گیا تو یہ بھی سیاسی اور معاشی محاذ پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی، بلکہ موجودہ حکومت کے لیے رجیم چینج کا معاملہ خود اس کی مستقبل کی سیاست پر سوالات اٹھا رہا ہے۔
حکمران اتحاد یہ بنیادی بات سمجھنے سے قاصرہے کہ عمران خان کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی ممکن ہے، اور سیاسی محاذ پر ان کو عمران خان کے خلاف کوئی متبادل بیانیہ بنانا ہوگا۔ انتظامی اور قانونی بنیاد پر عمران خان کی نااہلی، گرفتاری مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے زیادہ مسائل جنم لیں گے۔ یہاں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں اور یہ مزید مسائل کو جنم دیں گے۔ حیرت ہے، اگر جمہوریت میں انتخابات ہی مسائل کا حل نہیں تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اورکیا ایسا متبادل نظام ہے جو انتخابات کے برعکس ہوسکتا ہے؟ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا کیا مسائل کا حل ہیں؟ اور کیا انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرکے سیاست اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟ دو صوبائی انتخابات کی بات تو ایک طرف رکھیں، یہاں یہ منطق بھی دی جارہی ہے کہ اکتوبر میں بھی عام انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔کیونکہ جب آج الیکشن کمیشن کچھ بنیادی نکات کو بنیاد بناکر انتخابات کو ملتوی کررہا ہے تو اکتوبر میں بھی یہی نکات انتخابات کو ملتوی کرسکتے ہیں۔ انتخابات کو ملتوی کرنے کا عمل ایک ایسی مثال قائم کررہا ہے جہاں مستقبل میں بروقت انتخابات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں تو سکھایا گیا تھا کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، اور اب انتخابات کو جمہوریت کے برعکس کہا جارہا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ طاقت ور فریق سیاست، جمہوریت اور آئین و قانون کو بنیاد بناکر انتخابات سے فرار چاہتا ہے اور اس میں بڑی رکاوٹ سپریم کورٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول تمام وفاقی اداروں، ایجنسیوں نے انتخابات میں سیکورٹی یا عملہ دینے سے انکا رکردیا ہے، تو کیا الیکشن کمیشن اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ یہی تمام ادارے اکتوبر میں بھی انتخابات کے انعقاد میں یہ روش اختیار نہیں کریں گے جو آج کی جارہی ہے؟ الیکشن کمیشن اس فیصلے سے اپنی بچی کھچی ساکھ بھی ختم کرچکا ہے اور واقعی عملی طور پر اس ادارے نے خود اپنی خودمختاری کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہلِ دانش میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو برملا کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کے حق میں نہیں، اور نہ ہی عمران خان کو اقتدار میں آنے دیا جائے گا۔ یہ بات اگر مان لی جائے تو پھر عمران خان کا مؤقف درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی حکمران اتحاد کی مدد سے ان کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتی ہے، اور ایسا عمل یقینی طور پر سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ ماضی میں جب بھی ہم نے بھٹو، بے نظیر یا نوازشریف مخالفت کو بنیاد بناکر سیاسی حکمت عملی اختیار کی تو نتائج منفی ہی ملے، اور آج بھی اگر اسی پرانی روش کے تحت عمران خان کو ٹارگٹ کرکے حکمت عملی بنانی ہے تو حالات درست نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ صدرِ مملکت کا وزیراعظم کو خط، اور پھر وزیراعظم کا صدرِ مملکت کو جوابی خط بھی ظاہر کرتا ہے کہ کشیدگی کس حد تک آگے چلی گئی ہے، اور دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات سے تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسی طرح جس بہیمانہ انداز میں پی ٹی آئی کی قیادت بشمول عمران خان اور سیاسی کارکنوں کے خلاف شدت یا تواتر سے مقدمات بنائے جارہے ہیں جن میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار ہے، وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کو مسلسل لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں سیر کروانے کا عمل بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کھیل میں قانون سے زیادہ انتقام کی بو آرہی ہے۔ سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمے بنانا، ہتھکڑیاں لگانا، یا ان کے منہ پر کپڑا ڈالنا، یا پولیس تحویل میں تشدد جیسے امور واقعی تکلیف دہ ہیں۔ عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کے ساتھ بھی جو کچھ ہورہا ہے وہ خود قانون کی حکمرانی کے برعکس ہے۔ ایک ایسے معاملے پر جس پر پنجاب کی نگران حکومت اورآئی جی کے بقول ظل شاہ ٹریفک حادثے میں مرا ہے، اس کے قتل کا مقدمہ سیاسی کارکنوں پر بننا کیسے قانونی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے! اسی طرح اظہر مشوانی کو جس انداز سے اغوا کیا گیا اوراسے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے چھپایا جارہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں طاقت کی حکمرانی کا راج ہے۔ اگر واقعی حکومت مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے تو اسے اس تشدد یا سیاسی مقدمات کے مقابلے میں دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف انتقامی سیاست کی جائے اور دوسری جانب مفاہمت کی سیاست کی جائے۔ مفاہمت کی سیاست کی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب ہم انتقامی سیاست سے باہر نکلیں۔ خود ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکمران اتحاد اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم یہ جو سیاسی مہم جوئی کررہے ہیں اس سے خود ملکی معیشت اور پھر اس معیشت کے براہِ راست منفی اثرات عوام پر پڑرہے ہیں۔ معیشت کی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اس حکومت کا عوامی مقدمہ مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔ بنیادی طور پر ہماری حکومت کو جن معاشی معاملات پر توجہ دے کر عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا تھا وہ اس وقت عمران خان کو فتح کرنے کے کھیل کا حصہ بنی ہوئی ہے۔آئی ایم ایف سے بھی جو معاہدہ ہونا تھا وہ ابھی تک نہیں ہوسکا، اورایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی قومی سیاست کی محاذ آرائی اور ٹکرائو کی نذر ہورہا ہے۔ اس لیے جو کھیل پاکستان کی عملی سیاست میں ہورہا ہے وہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں۔ اس کھیل سے بچا جائے، یہی قومی مفاد میں ہوگا۔