رمضان وہ فرصت اور موقع ہے جس میں بُرائی سے دُوری اور بھلائی سے دوستی میں نجات ہے
ماہِ رمضان ایک معزز مہمان ہے۔ کیا ہی اچھا مہمان ہے! یہ معزز مہمان بھی ہے اور محترم و مکرم ملاقاتی بھی جو ایک سال کے طویل وقفے کے بعد ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ یہ ایک شوقِ عظیم ہے جس کی طرف دل لپکتے ہیں۔ گناہ گار اس کے منتظر رہتے ہیں تاکہ اس کے بابرکت لمحات میں گناہوں سے تائب ہوجائیں۔ عبادت گزار اور طاعت شعار لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اپنی عبادت و اطاعت میں اضافہ کرسکیں۔ اس ماہِ مبارک میں دن کو صیام، رات کو قیام، شب و روز کے اوقات میں اعمالِ صالحات، آلودہ نفوس کا تزکیہ، زنگ آلود قلوب کا تصفیہ، شرحِ صدر اور اصلاحِ احوال، رحمت ِرب کا حصول، مغفرتِ رب کا نزول، جہنم سے آزادی، آتشِ دوزخ سے نجات، رب کی خوشنودی و رضامندی اور اعمالِ صالح کی قبولیت و مطلوبیت کے قابلِ رشک لمحات اُمت مسلمہ کو سال بھر کے وقفے سے میسر آجانا رب کی بے پایاں رحمت کا کرشمہ ہے!
یہ سنہری لمحات ہر صاحب ِ ایمان کے لیے اپنی محرومیوں کو دُور کرنے، کمیوں کو پورا کرنے، رب سے لَو لگانے، شیطان سے جان چھڑانے اور کامیاب کلمہ گو بننے اور کہلانے کا عظیم اور بے نظیر موقع ہے۔ اس عظیم فرصت کو اپنے لیے غنیمت کا موقع بنانا ہر مسلمان کے اپنے اختیار میں ہے۔ مومن کو اس مہینے میں اپنے ساتھ، اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، اپنے احباب و اقارب، اور محلہ و بستی کے ساتھ، اپنی قوم و ملّت کے ساتھ، اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کے ساتھ اخلاص و خلوص، وفاداری ووفاشعاری اور نصیحت و خیرخواہی کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔ اس ماہِ عظیم کو دیگر مہینوں کے معمولات کی طرح گزار دینا بہت بڑی اور ناقابلِ تلافی محرومی ہے۔ معلوم نہیں یہ اوقاتِ مبارک، یہ لمحاتِ بابرکت، یہ نیکیوں کا موسم بہار، یہ رب کی عطائوں، عنایتوں، مہربانیوں، بخششوں اور نعمتوں، ثروتوں کا بے مثل مہینہ اگلے برس کسے نصیب ہوتا ہے! لہٰذا مومنانہ فراست کا تقاضا یہ ہے کہ اس ماہِ عظیم کو اپنی زندگی سنوارنے اور کامیاب و کامران بنانے کا آخری موقع تصور کیا جائے۔
خالص اور مضبوط عزم و ارادہ
نیت خالص اور درست کرلی جائے کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے اچھے اور نیک کام بھی حسنِ نیت سے اجر کے اعتبار سے پہاڑ بن جاتے ہیں مگر پہاڑ جیسے اچھے کام نیت کی خرابی سے رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ وقت کا ضیاع اس مہینے میں مومن کے لیے بہت بڑے نقصان کا سبب ہے اور اس کا درست اور بھرپور استعمال اجرِعظیم اور فلاحِ کبیرکا ضامن ہے۔ بہت سی حلال، مباح اور جائز مصروفیات میں وقت گزاری کے بجائے نگاہ ارفع اور اعلیٰ اعمالِ صالح پر رکھی جائے۔
یہ موقع خوش نما لباس خریدنے، بنانے اور افطاری میں انواع و اقسام کے دسترخوان سجانے کا نہیں۔ یہ سامانِ افطاری کی مہنگے نرخوں پر فراہمی کے ذریعے چندروپے کمالینے کو غنیمت سمجھنے کا موقع نہیں۔یہ اپنی قسمت بدلنے، رجحانات کو تبدیل کرنے، روشِ زندگی کو بامقصد بنانے، دنیوی امتحان گاہ میں شرکت کے موقع کو آخری سمجھ کر کامیابی کے لیے پورا زور صرف کرنے کا موقع ہے۔ خطرات و خدشات میں گھرے اِس موقع سے بحفاظت و سلامتی باہر نکل آنے کے لیے بھرپور قسم کی منصوبہ بندی چاہیے۔ ایسی منصوبہ بندی ماہِ رمضان کے 30روز و شب تک محدود نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نفس و کردار کی دائمی تبدیلی کا مستقل عنوان بن جائے۔
ہدف کا تعین اور اس کے لیے جدوجہد
رمضان کے مقاصد و مطالب کے حصول کے لیے رمضان میں ذاتی معمول بنالینا مفید ہوتا ہے۔ منتشر اُمور و معاملات کو سمیٹنا اور مجتمع کرنا لمحاتِ سعادت سے حقیقی طور پر مستفید ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ زندگی بھر انسان ترقی و کامیابی کے بے شمار خواب دیکھتا اور ان کی تعبیر پانے میں کوشاں رہتا ہے۔ صاحب ِ فراست مومن کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی ایک خواب دیکھے، سہانا خواب، کامیابی و کامرانی کا خواب، ترقی و خوش حالی کا خواب، یعنی جنت کا خواب! ہم بہت سی عبادات، اعمالِ طاعات اور کارہائے صالحات انجام دیے جارہے ہوتے ہیں مگر پیش نظر کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہوتا، کوئی ہدف اور منزل نہیں ہوتی۔ اگر کسی بڑے خواب کی تعبیر پانے کی غرض سے یہ جدوجہد کی جائے تو وہ خواب جنت ہی ہوسکتی ہے۔ حصولِ جنت سے بڑھ کر منزل کیا ہوسکتی ہے! رب کی خوشنودی سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے! قربِ خداوندی سے بڑا مرتبہ کیا ہوسکتا ہے! جنت کے خواب سے اعلیٰ اور برتر خواب کیا ہوسکتا ہے! جنت کا حصول، رب کی رضاجوئی سے ممکن ہے، اور رب کی رضا کا حصول سزاوارِ جنت ہونے کا نام ہے۔ کاش! ہم دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے خوابوں سے نکل کر حصولِ جنت اور خوشنودیِ رب کا عظیم خواب دیکھیں۔ پھر اس کی تعبیر کو ممکن بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہوجائیں۔ تمام چھوٹے اور عارضی اساس رکھنے والے خوابوں پر اسی عظیم اور دائمی خواب کو ترجیح اور اوّلیت دیں تاکہ اپنی منزل اور ہدف کو پالیں۔
محرومیوں کا ازالہ بھرپور جذبے کے ساتھ
خسارے کی صورتِ حال سے دوچار کاروبار سے نکلنے کے لیے جہاں چند نئے اُمور ناگزیر اور لازمی ہوتے ہیں، وہیں ماضی کی کوتاہیوں سے نہ صرف دستکش ہونا ضروری ہوتا ہے، بلکہ ان کوتاہیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں کا ازالہ کرنا بھی ناگزیر ٹھیرتا ہے۔ رمضان مومن و مسلم کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں کا ازالہ بھرپور طریقے سے کرسکے۔ اس نئی زندگی کی کامیابی کا انحصار ماضی کی تلافیِ مافات پر ہے۔ لہٰذا انسانی معاشرے کے بشری معاملات میں خطائوں، لغزشوں اور کمیوں کوتاہیوں کو اپنے اعمال نامے کے بدنما داغ کے طور پر قبول کیے رکھنا، یا اُن پر کسی بے چینی اور اضطراب کا احساس نہ ہونا زندہ دل اور زندہ ضمیر کی علامت نہیں۔ یہ موقع ہے کہ دلوں کے بند دریچوں کو وَا کرلیا جائے۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان بند دروازوں کو کھول دیا جائے۔ دوسروں کے بارے میں اپنے دل کو صاف و شفاف کرلیا جائے۔ اُن کے لیے دل میں محبت و مودت اور خیروفلاح کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ عفو و درگزر اور رواداری و برداشت اور تحمل و تسامح کا رویہ اپنا لیا جائے۔ اس عمل کی انجام دہی کے دوران قرآن کی یہ آیت ہمیشہ مدنظر رہے:
وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo (آل عمران 3:133-134)
”دوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔“
قلب و نظر اور کردار و عمل کی صفائی
رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا عشرہ ہے۔ رب سے اُس کی رحمت کا سوال کیا جائے۔ لہٰذا پہلے خود اس رحمت کو دوسروں کے لیے عام کیا جائے۔ کیوںکہ جو انسانوں پر رحیم نہیں ہوگا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔ رب کے درِ رحمت پر دستک دینے سے قبل اپنی نرمی و ملائمت اور رحم دلی کے دروازے پر دستک دی جائے۔دُور و نزدیک، عزیز و عامی ہر کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ روا رکھا جائے۔ صلہ رحمی کرکے اللہ کی رحمت کا مستحق بنا جائے۔ خیر اور بھلائی صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حق دار سمجھا جائے۔ حسد و بُغض اور کینہ و کدورت کو دلوں سے نکال باہر کیا جائے۔ دل کے اندر جو بھی سیاہی موجود ہے اس کو ایمان کے پانی سے دھو ڈالا جائے۔ اس میں تاریکی طاری رکھنے کے بجائے اُسے روشن اور چمک دار بنا دیا جائے اور اسے بلند و برتر اور اعلیٰ و ارفع خیالات کی آماج گاہ بنایا جائے۔ اسے قلب ِ سلیم کا مطلوب اور قابلِ رشک روپ دے لیا جائے۔ وہ قلب جو قیامت کے دن اہلِ دل کو نفع دے گا۔
رمضان میں رب کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ خود اپنے نفس کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کیا جائے۔ اپنے غموں اور پریشانیوں، مصروفیتوں اور مشغولیتوں سے توکل علی اللہ کے سہارے باہر نکل آیئے۔ کیوںکہ وہی واحد ذات ہے جو کاشف الغم اور مفرج الہم ہے۔ جو اُس پر توکل کرے وہ کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔ انسان کو ازخود اپنے اُوپر عائد کردہ پابندیوں اور ازخود پہنی ہوئی بیڑیوں سے خود کو آزاد کرنا چاہیے۔ اپنے آپ کو اَلم و حزن کی قید سے چھڑا لینا چاہیے۔ ان تمام چیزوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہے۔ آپؐ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبُنِ وَالْبُخْلِ ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدِّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَالِ
”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکروغم سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ناتوانی و سُستی سے، اور بچائو چاہتا ہوں تیرے ذریعے بُخل اور بزدلی سے، اور تیری پناہ میں آتا ہوں قرض کے غلبے اور لوگوں کے سخت دبائو سے۔“
عفو و درگزر اپنے لیے بھی، دوسروں کے لیے بھی
اصلاحِ حال اور تزکیۂ نفس کا عمل اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان دوسروں کو ایذارسانی کی ذہنیت سے کامل طور پر دست بردار نہ ہوجائے، لہٰذا کسی انسان کو تکلیف دینے، ایذاپہنچانے، اُس کا حق مارنے، اُس پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے کا تو ایک مومن سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں تو اُن لوگوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک اور عفو و درگزر کی تعلیم ہے جو انسان کو دُکھ دے چکے ہوں، اُس کا حق کھا چکے ہوں، اُس پر ظلم ڈھا چکے ہوں۔ مومن اُن کے غلط اعمال کو اپنے نیک اعمال کے لیے رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ مومن کا رویۂ احسان اُن کے لیے بھی عام ہوتا ہے جو اُس کی جان کے دشمن ہوں۔ ماہِ رمضان موقع ہے ایسے لوگوں کے دلوں میں اُتر جانے کا، اُن کے نظریۂ زندگی کو بدل ڈالنے کا، اپنی پارسائی اور فطری شرافت کو اُن پر واضح کر نے کا، اُن کا دل بدل ڈالنے اور روشِ زندگی کا رُخ موڑ دینے کا!
دلوں میں کدورت، حسد اور بُغض پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب غیبت اور چغلی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ محفلوں اور مجلسوں کا مرغوب پھل بن گیا ہے۔ لوگ اپنی نشست و برخاست اور میل ملاقاتوں کے مواقع پر یہ پھل کھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان معلوم رہنا چاہیے کہ:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات 49:12)
”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔“
غیبت سے بچنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم روزہ تو حلال رزق کھاکر رکھیں مگر افطار غیبت جیسی حرام چیز سے کرلیں۔
رمضان جہاں دوسروں کو معاف کردینے، درگزر سے کام لینے اور عفو و تسامح اختیار کرنے کا بہترین موقع ہے، وہیں دوسروں سے اپنی کوتاہیوں اور خطائوں کی معافی مانگ لینے کا بھی سنہری موقع ہے۔ اپنے بُرے اعمال کا اعتراف اور اُن پر رب اور رب کے بندوں سے اعتذار کرلینا مومن کے اُن اوصاف میں سے عظیم وصف ہے جنھیں قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہ موقع ہے کہ قیامت کے روز دنیا کے ظلم کو ظلمات بننے سے روک لیا جائے۔ اپنی نیکیوں کو دوسروں کے نامۂ اعمال کی زینت بننے اور اُن کے ترازو کا وزن بننے کے بجائے اپنے ہی ترازو کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ دوسروں کے گناہوں کو اپنے نامۂ اعمال کا ثقل مزید بننے نہ دیا جائے۔ لہٰذا موقع ضائع کیے بغیر متاثرین سے معافی مانگی جائے۔ زبانی کلامی اور تحریری و قلمی جس طریقے سے بھی ممکن ہو اُن سے اپنے قصور کی بخشش کا سوال کیا جائے۔ دوسروں سے انسان کا اعترافِ حق تلفی اِس کی اپنی عظمت و فضیلت اور دوسروں کے لیے درسِ حکمت ہے۔ اُن کے دل اِس عمل سے شاداں و فرحاں ہوجائیں گے اور معافی کا خواستگار اُن کی آنکھوں میں بہت بڑا بہادر اور انصاف پسند ٹھیرے گا۔ حق تلفی کے مجرم کو فوراً ان سے معذرت کرلینا نہایت ضروری ہے، خصوصاً اُن لوگوں سے اپنے ظلم و ناانصافی کی معافی مانگ لینا اشد ضروری ہے جن کے اُوپر کیے گئے ظلم و ستم اور حق تلفی نے انسان کی نیند اُڑا کر رکھ دی ہو، راتوں کا چین غارت کردیا ہو، ہر کروٹ کے ساتھ یہ احساس بیدار رہتا ہو، رات آنکھوں میں گزر جاتی ہو، رات بھر ضمیر ملامت کرتا اور جھنجھوڑتا رہتا ہو کہ اے انسان تُو نے اِن مظلوموں کے ساتھ کیا کیا تھا؟
رمضان ماضی کے غم میں مبتلا رہنے اور ماضی کی ناکامیوں کے احساس میں اپنے آپ کو گھلانے کے بجائے مستقبل پر نظر رکھنے اور اُس کی تیاری اور منصوبہ بندی کرنے کا سبق دیتا ہے۔ ہمت اور حوصلے کو چار نہیں دس چاند لگا دیتا ہے۔ ناکامی کی جگہ کامرانی کا احساس پیدا اور نمایاں کرتا ہے۔ دل و ضمیر کو اُمید و رجا سے بھرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ حسرت و ندامت کے بجائے عزم و ہمت اور ارادہ و نیت کو عمل میں لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ظالموں اور حق تلف کرنے والوں کو چھوڑ دینے، نظرانداز کرنے، اور اُن کے لیے ہدایت کی دُعا کرنے کا وقت ہے۔ اگر وہ راہِ راست پر نہیں آتے تو جان رکھو کہ اللہ حاکمِ عدل ہے، وہ ایک روز اُن کے ظلم وستم کا حساب لے کر رہے گا۔
ذاتی جائزہ و احتساب
رمضان وہ فرصت اور موقع ہے جس میں بُرائی سے دُوری اور بھلائی سے دوستی میں نجات ہے۔ ہر مومن کو قرآنِ مجید کی ان دو آیتوں کی روشنی میں اپنا روزانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج 22:77،78)
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، اِسی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجائو اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملّت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا۔ اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔“
(المجمتع: عدد 2011،2013)