کیا عدلیہ کراچی کے حساس مسئلے کا نوٹس لے گی؟
کراچی میں پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کا کھیل جاری ہے۔ ملک بے یقینی کی حالت میں ہے اور حکمراں لوٹ مار اور قبضے کے کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن اس سارے کھیل میں پیش پیش ہے اور ایک ”سہولت کار“کا کردار ادا کررہا ہے۔ اور یہی اس شہر کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بنا ہوا ہے۔6 نشستیں جن کا نوٹس ازخود الیکشن کمیشن نے لیا تھا، ان کا فیصلہ ری کائونٹنگ کے نام پر جاری کردیا گیا۔ دو ماہ کی تاخیر کے بعد پیپلز پارٹی کے آراوز اور ڈی آراوز نے تھیلوں سے ووٹ نکال کر ووٹ تبدیل کیے۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ:
”جماعت اسلامی نے 66 نشستوں پر ری کائونٹنگ کا مطالبہ کیا تھا۔الیکشن کمیشن نے 66 نشستوں کے بجائے 17 نشستوں میں ری کائونٹنگ کا فیصلہ جاری کیا ہے جب کہ ضلع غربی کی 6 نشستوں میں ری کائونٹنگ کا مسئلہ ہی نہیں تھا، دو ماہ تک فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد ری کائونٹنگ کا کیوں کہا گیا؟“
آر اوز اور ڈی آر اوز نے اورنگی کی نشستوں کا رزلٹ تبدیل کیا ہے، حافظ نعیم الرحمٰن ملتوی شدہ 11 نشستوں کے انتخابات اپنے وقت پر ہی ہونے پر زور دے رہے ہیں جو 18اپریل منگل کے دن ہونے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی ایک بار پھر انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے۔ پہلے ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے پہلے 6 سال اور پھر ڈھائی سال تاخیر سے انتخابات کروائے ہیں جس کے نتائج کو وہ کسی طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے حق کے لیے جہاں جماعت اسلامی کراچی کی مقامی قیادت اور اس کے کارکنان لڑرہے ہیں وہاں اس کی پشت پر پورے ملک کی جماعت اسلامی اور اس کی قیادت اور کارکنان بھی کھڑے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے وہ کراچی کا مقدمہ لڑتے ہیں ۔
اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام درخواست میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے صاف شفاف انعقاد میں الیکشن کمیشن کی ناکامی اور جانب داری پر ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ چیف جسٹس کے نام خط میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن نہ صرف صوبائی دارالحکومت میں ایمان دارانہ الیکشن کرانے میں ناکام ہوا بلکہ الیکشن کے عمل کے دوران اور بعد میں بدترین جانب داری کا بھی مرتکب ہوا۔ امیر جماعت نے اپنی درخواست کے ہمراہ کراچی کے 12حلقوں میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی صوبے کی حکمران جماعت کے حق میں جانب داری کے ثبوت بھی ارسال کیے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاملے کا نوٹس لے اور الیکشن کمیشن کی دیدہ دانستہ آئین کی خلاف ورزی پر فیصلہ دے، اور متنازع یونین کمیٹیوں میں الیکشن کو کالعدم قرار دے۔
سراج الحق کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ:”آئینِ پاکستان کی رو سے ریاست پاکستان میں وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی غرض ہر سطح پر حکومتوں کے اختیارات کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے کرنا طے کردیا گیا ہے، اس مقصد کو بروئے کار لانے اور صاف و شفاف انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ فی الوقت کراچی میں 15 جنوری2023ء کو ہونے والے انتخابات میں بدترین دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی اس دھاندلی کو روکنے میں ناکامی میرے اس خط کا موضوع ہے۔ اس موقع پر میں آپ کی توجہ کراچی کی ملک میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے اہمیت کی جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، نیز یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی گزشتہ 30/35 سال میں گزرے حالات کی وجہ سے خاص حساسیت رکھتا ہے اور بدترین بلدیاتی حالات کی وجہ سے یہاں کے شہری ہر آنے والے دن بہتری کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی مسائل کے حل کے لیے بھرپور جدوجہد کو شہریوں نے سراہا اور انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ دیے۔
بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے پر 120 دن میں انتخابات کرانا لازمی قانونی تقاضا ہے، لیکن 2009ء میں یہ مدت پوری ہونے کے بعد 2015ء میں، اور 2020ء میں یہ مدت پوری ہونے کے بعد 2023ء میں یہ انتخابات منعقد ہوئے۔ شیڈول جاری ہونے کے بعد 3مرتبہ انتخابات کی پولنگ حکومتِ سندھ کی خواہش پر ملتوی کی گئی۔ ان انتخابات کو منعقد کرانے کے لیے جماعت اسلامی کو مسلسل الیکشن کمیشن، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک سے رجوع کرنا پڑا۔15 جنوری 2023ء کو ہونے والے انتخابات سے قبل ہی سندھ میں حکومتی جماعت نے علی الاعلان کہنا شروع کردیا تھا کہ کراچی کا آئندہ میئر جیالا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ناقص انتخابی فہرستیں، بدنیتی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر انتخابی عملے کی تعیناتی کی گئی، جس کے خلاف جماعت اسلامی نے مسلسل الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا لیکن بالکل بے سود رہا۔
15جنوری کے انتخابات کی پولنگ بالعموم پُرامن فضا میں منعقد ہوئی، تاہم اس دوران واضح طور پر یہ بات نوٹ کی گئی کہ حکومتی جماعت نے اپنی منتخب کردہ 35/40 یونین کمیٹیوں میں نہ صرف جعلی ووٹ بھگتائے ہیں بلکہ ان حلقوں میں مقرر کردہ زیادہ تر پریزائیڈنگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز حکومتی جماعت کے حامی لگائے گئے تھے، اور انہوں نے فارم XI اور فارمXII (متعلقہ پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ دینے) سے انکار کیا، جس پر جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس نے اصرار کیا تو بعض جگہ آدھی رات اور بعض جگہ اگلے دن تک انتظار کرایا گیا۔ جب سخت جدوجہد کے بعد پولنگ اسٹیشن سے رزلٹ لینے میں کامیاب ہوئے تو کئی یوسیز کے ریٹرننگ افسران نے ہزاروں ووٹوں کے فرق سے جیتے ہوئے امیدواروں کو بھی ہرا کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی جیت کا اعلان کردیا اور جعلی Appendix-A جاری کردیے۔ یہ معاملات علم میں آتے ہی جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ یہی معاملہ بہت سی UC کی نشستوں پر PTI کے ساتھ کیا گیا، چنانچہ بڑی تعداد میں الیکشن کمیشن میں درخواستیں داخل کی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام معاملات پر طویل سماعت کی۔
جماعت اسلامی نے تمام ثبوت مع اصل فارم XI اور XII الیکشن کمیشن میں پیش کیے، لیکن افسوس یہ تمام سماعتیں وقت گزاری کا حربہ ثابت ہوئیں اور الیکشن کمیشن نے زیادہ تر کیس دوبارہ اُن ہی ریٹرننگ افسروں کے پاس Recounting کے لیے بھیج دیے جن پر دھاندلی کے الزامات تھے، یا پھر جان چھڑانے کے لیے ٹریبونل کے پاس جانے کا کہہ دیا۔ 6 یونین کمیٹیاں جن میں بدترین دھاندلی ہوئی، ان میں فارم XI کے رزلٹ کے علی الرغم RO نے نتیجے جاری کیے اور الیکشن کمیشن نے انہیں Take up کیا۔ ان میں جماعت اسلامی نے 66 ایسے پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کردی تھی جہاں رزلٹ تبدیل کیے گئے ہیں۔ وہاں 22مارچ کو حقائق کے برعکس محض 17 پولنگ اسٹیشنز کو خود ہی منتخب کرکے Recounting کا حکم جاری کردیا گیا۔ بقیہ پچاس کے قریب پولنگ اسٹیشنز کو Consider ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بات الیکشن کمیشن کے علم میں تھی کہ تمام انتخابی میٹریل دھاندلی کے ذمہ دار ریٹرننگ افسروں کے قبضے میں ہی ہے اور مختلف سماعتوں کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے اس بات کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی، لیکن الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کے باوجود اس تمام میٹریل کو اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ محفوظ رکھنے کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اس موقع پر یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے 22فروری کو دورانِ سماعت یہ کہا تھا کہ تمام میٹریل جو جماعت نے فراہم کیا ہے وہ ریٹرننگ افسروں نے دیا تھا، اس کا بھرپور تجزیہ کرکے حتمی سماعت کی جائے گی۔ لیکن بنائی گئی کمیٹیوں کی نہ تو رپورٹس فراہم کی گئیں، نہ ان پر اعتراضات کا موقع دیا گیا اور نہ ہی کوئی سماعت ہوئی بلکہ 22 مارچ کا فیصلہ سامنے آگیا۔
دورانِ سماعت جماعت اسلامی کی جانب سے اس بات پر مسلسل اصرار کیا گیا تھا کہ ریٹرننگ افسروں نے نہ صرف نتائج تبدیل کردیے ہیں بلکہ ان جعلی نتائج کے مطابق فارمز میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور بہت سے پریزائیڈنگ افسروں سے جبراً دستخط کرائے گئے ہیں، تھیلے پھاڑ کر بڑے پیمانے پر ووٹوں میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ لہٰذا اب Recounting بے فائدہ ہے بلکہ دھاندلی پر ہی مہر ثبت کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہاں Repolling کرائی جائے۔ لیکن ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ہماری سب درخواستیں اور دھاندلی کے ثبوت صدا بہ صحرا ثابت ہوں گے اور الیکشن کمیشن سندھ حکومت کی خواہش کے مطابق فیصلے دے گا جس طرح اس نے سندھ حکومت کی فرمائشوں پر تین دفعہ الیکشن ملتوی کیے تھے۔
اس تمام صورتِ حال کو ہم انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صورتِ حال کی یہ سنگینی برقرار رہی اور کہیں سے انصاف نہ ملا تو کراچی کے شہری کہیں انتخابات کے عمل اور اداروں سے انصاف ملنے سے ہی مایوس نہ ہوجائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نہ صرف صاف شفاف اور ایمان دارانہ الیکشن کرانے میں بری طرح ناکام ہوا بلکہ الیکشن کے تمام عمل کے دوران اور بعد میں بدترین جانب داری کا مرتکب ہوا ہے۔ اپنے آئینی اور قانونی فرائض سے جان بوجھ کر روگردانی کی ہے اور اپنے فیصلوں سے دھاندلی کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم درخواست کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس تمام معاملے کا فوری نوٹس لے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دیدہ دانستہ آئین و قانون کی خلاف ورزی پر واضح فیصلہ دے۔ متنازع یونین کمیٹیوں پر الیکشن کمیشن کے جانب دارانہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر انصاف پر مبنی فیصلے کو یقینی بنائے تاکہ ملک کے شہریوں کا نظامِ انصاف اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد بحال ہو۔“
اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کراچی کے سب سے اہم ایشو کو کتنا سنجیدہ لیتی ہے، کیونکہ کراچی کے شہری امید کرتے ہیں کہ جس طرح عدلیہ عمران خان، پی ڈی ایم، اور ضمنی انتخابات کے ایشوز پر متحرک ہے اسی طرح کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے مسئلے پر بھی اپنا حکم جاری کرے گی۔ یہ صرف ایک بلدیاتی انتخاب کا مسئلہ نہیں بلکہ کراچی شہر کے مستقبل کا معاملہ ہے جس کا حال کراچی دشمن طبقے نے تباہ کردیا ہے اور کراچی ایک آسیب زدہ شہر کے سوا کچھ نہیں رہا ہے، جہاں لوگ بدترین افلاس کا شکار ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔