سیاسی قیادت کی کم نگہی:شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ’’ہولناک‘‘ ناکامیاں

زندگی بیانیوں کی جنگ کا نام ہے۔ جس شخص، جس گروہ، جس جماعت اور جس قوم کا بیانیہ طاقت ور ہوتا ہے وہی بالآخر غالب ہوتی ہے

غالب نے کہا تھا:
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولہ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقان کا
لیکن پاکستان میں ’’سیاسی حکومتوں‘‘ کا نعرہ یہ ہے:
مری تعمیر میں مضمر ہے ’’ہر صورت‘‘ خرابی کی

1988ء میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت اقتدار میں آئی تو صرف دو سال میں ناکام ہوگئی۔ صرف دو سال میں اُن پر کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگ گئے۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار1993ء میں اقتدار میں آئیں تو تین سال میں ناکام ہوگئیں۔ 1990ء میں میاں نوازشریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو ان کا طمطراق دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، مگر میاں صاحب کی پہلی حکومت صرف سوا دو سال میں منہ کے بل گر پڑی۔ ان کی دوسری حکومت بھی تین ساڑھے تین سال میں رخصت ہوگئی۔ عمران خان بڑے ارمانوں کے ساتھ اقتدار میں لائے گئے تھے، مگر وہ اقتدار میں آتے ہی ناکام ہونے لگے۔ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے، ملک کیسے چلایا جاتا ہے، معیشت کس طرح Manage کی جاتی ہے، ذرائع ابلاغ سے تعلق کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ چنانچہ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی کہا کہ ہمیں کم از کم چھے ماہ دیے جائیں۔ چھے ماہ کے بعد انہوں نے ایک سال مانگ لیا، مگر وہ ایک سال میں بھی کچھ نہ کرسکے۔ چنانچہ ان کی حکومت صرف پونے چار سال میں تاریخ بن کر رہ گئی۔ لیکن عمران خان کے بعد اقتدار میں آنے والی اسٹیبلشمنٹ، شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی حکومت نے تو حد ہی کردی۔ یہ حکومت صرف گیارہ ماہ میں شرمناک اور ہولناک ناکامیوں سے دوچار ہوچکی ہے۔ عام طور پر حکومتیں کسی ایک دائرے میں ناکام ہوتی ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ، شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی حکومت ہر دائرے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا ایک زندہ لطیفہ مشہورِ زمانہ ہے۔ منٹو ایک رات ریڈیو پاکستان آئے تو ریڈیو پاکستان کے احاطے میں ایک سائیکل مڈگارڈوں کے بغیر کھڑی تھی۔ منٹو اس سائیکل کو دیکھ کر مسکرائے اور دوڑتے ہوئے ممتاز شاعر ن۔م۔ راشد کے پاس آئے اور کہنے لگے ’’راشد صاحب! اس سائیکل کو دیکھیے، خدا کی قسم یہ سائیکل نہیں آپ کی نظم ہے‘‘۔ اِس وقت پاکستان کے احاطے میں شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی جو سائیکل کھڑی ہے اس کے نہ ٹائر ہیں، نہ ہینڈل ہے، نہ گھنٹی ہے۔ اس سائیکل کو دیکھ کر اوسط درجے کا کوئی بھی پاکستانی کہہ سکتا ہے کہ یہ سائیکل نہیں شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی حکومت ہے۔ اقبال نے میرِ کارواں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
لیکن شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی قیادت کا معیار دیکھ کر اقبال کا شعر پیروڈی میں ڈھل کر کچھ یوں ہو گیا ہے:
نگاہ پست، سخن دل خراش، جاں پُرشور
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں دوسروں کا اچھا برا معلوم ہو یا نہ ہو، مگر ہر انسان اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہے۔ مگر ہمارے شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں ملک و قوم کا کیا، اپنا اچھا برا بھی معلوم نہیں۔ ہوتا، تو یہ لوگ کبھی عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کی سازش نہ کرتے۔ عمران خان سے نہ معیشت سنبھِل رہی تھی، نہ مہنگائی کنٹرول ہورہی تھی، نہ خارجہ امور نمٹائے جارہے تھے۔ چنانچہ عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل کمی واقع ہورہی تھی اور اندیشہ یہ تھا کہ عمران خان خود اپنی حکومت کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے، وہ آئندہ انتخابات لڑنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ نواز لیگ کے رہنمائوں نے کہنا بھی شروع کردیا تھا کہ آئندہ انتخابات میں لوگ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب نہیں لڑنا چاہ رہے اور پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے آئندہ انتخابات میں نواز لیگ کے ٹکٹ کے لیے شریفوں سے رابطہ کررہے ہیں۔ چنانچہ شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کے لیے بہترین لائحہ عمل یہ تھا کہ وہ عمران خان کو اپنی حکومت کے بوجھ تلے دبنے دیتے اور آرام سے بیٹھ کر عمران خان کے زوال کا تماشا دیکھتے رہتے۔ مگر شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ہوسِ اقتدار نے ایسا نہ ہونے دیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو خرید کر عمران خان کی حکومت کو گرا دیا اور عمران خان کے زوال کو اپنے زوال میں ڈھال لیا۔ رہنمائوں کی ایک تعریف یہ ہے کہ وہ زمانوں کے پار دیکھ سکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے 1950ء کی دہائی میں کہہ دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی پناہ نہیں ملے گی، اور مولانا کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ اقبال نے مغرب کے عروج کے زمانے میں مغرب سے کہہ دیا تھا:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

قائداعظم کو 1940ء ہی میں یہ یقین ہوگیا تھا کہ پاکستان بن کر رہے گا، لیکن ہمارے شریف بدمعاش، ہمارے زرداری اور ہمارے مولانا فضل الرحمان اتنے کم نگاہ ہیں کہ وہ ایک سال کیا، چھے ماہ کے پار بھی نہ دیکھ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گیلپ پاکستان کے حالیہ ملک گیر سروے کے مطابق عمران خان کی مقبولیت کی سطح 61 فیصد ہے، اور میاں نوازشریف کی مقبولیت کی سطح صرف 34 فیصد ہے۔ صاحبانِ نظر کا اصرار ہے کہ گیلپ پاکستان کے سربراہ اعجاز شفیع گیلانی صاحب میاں نوازشریف کے بڑے قریب ہیں چنانچہ یہ سروے قابلِ اعتبار نہیں کیوں کہ عوام میں عمران خان کی مقبولیت 61 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

زندگی بیانیوں کی جنگ کا نام ہے۔ جس شخص، جس گروہ، جس جماعت اور جس قوم کا بیانیہ طاقت ور ہوتا ہے وہی بالآخر غالب ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ عہدِ حاضر کی ایک ایسی شخصیت ہیں جس کی ہر دائرے میں مخالفت ہوئی۔ مولانا پر کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں نے حملے کیے، مولانا پر سیکولر اور لبرل لوگوں نے وار کیے، مولانا کی دیوبندیوں اور بریلویوں نے مخالفت کی، ریاست پاکستان مسلسل مولانا کا تعاقب کرتی رہی اور انہیں موت کی سزا تک سنا دی، مگر مولانا نے اتنا طاقتور بیانیہ تخلیق کیا کہ بالآخر مولانا ہی غالب آکر رہے۔ مولانا پر ہندوستان اور پاکستان کے جن علما نے اعتراضات کیے اُن کا اثر ہندوستان اور پاکستان تک محدود رہا، مگر مولانا کے بیانیے نے مولانا کو پوری امت کا امام بنا کر کھڑا کردیا۔ مولانا کے مقابلے پر بھٹو صاحب ایک معمولی آدمی تھے مگر انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کا بیانیہ ایجاد کیا، اور اس بیانیے نے بھٹو کو مقبول بنادیا۔ لیکن شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ ان کا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ مریم نواز عمران خان اور ان کی جماعت کو دہشت گرد کہتی ہیں، وہ عمران خان کو فتنہ خان کہتی ہیں۔ یہ گالیاں ہیں، بیانیہ تھوڑی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان نے امریکہ، جنرل باجوہ، شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کے خلاف طاقتور بیانیہ تخلیق کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے، امریکہ اور جنرل باجوہ نے انہیں ایوانِ اقتدار سے نکالا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے عمران خان کے اس بیانیے کو قبول کیا۔ چنانچہ عمران خان نہ صرف یہ کہ پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے ہر ضمنی انتخاب میں شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کو شکست سے دوچار کیا۔

اسٹیبلشمنٹ، شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ایک بہت بڑی اور ہولناک ناکامی یہ ہے کہ وہ عمران خان کو سیاسی طور پر شکست دینے کے بجائے انہیں کسی طرح قتل کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ عمران خان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں مرتضیٰ بھٹو کی طرح قتل کرنے کی سازش تیار کرلی گئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے اتحادی مقبولِ عوام رہنمائوں سے سیاسی طور پر نمٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مشرقی پاکستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی تھا مگر اس کا حل فوجی آپریشن میں تلاش کیا گیا جس سے ملک ٹوٹ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی طور پر شکست دینا ممکن تھا مگر جنرل ضیا الحق نے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی لاش آج بھی ہمارے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی سیاسی طور پر نہ نمٹ سکی، اور انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسٹر ٹین پرسنٹ کہلانے والے آصف زرداری ملک کے صدر بن گئے اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔ نواب اکبر بگٹی سے بھی سیاسی طور پر نمٹنا ممکن تھا، مگر جنرل پرویز نے انہیں مار ڈالا اور نواب اکبر بگٹی کی لاش بلوچستان کو آج بھی غیر مستحکم کیے ہوئے ہے۔ عمران خان بھٹو سے بڑے لیڈر نہیں ہیں مگر وہ ان سے زیادہ مقبولِ عوام ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھٹو اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، مگر عمران خان نے عملاً اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ ملک کے اندر برپا انتشار ایک حد سے بڑھا تو فوج کا مشہورِ زمانہ ڈسپلن ٹوٹ سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو اس کے مضمرات عیاں ہیں۔ چنانچہ خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے شریف، زرداری اور مولانا فضل الرحمان ہوش کے ناخن لیں اور عمران خان سے سیاسی طور پر نمٹنے کی کوششیں کریں۔

شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنی اہلیت اور صلاحیت کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔ کبھی میاں شہبازشریف کی ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ مشہورِ زمانہ تھی مگر اب ’’بدنامِ زمانہ‘‘ ہے۔ شہبازشریف کو وزیراعظم بنے گیارہ ماہ ہوگئے مگر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ملک میں عملاً کوئی وزیراعظم بھی موجود ہے۔ نواز لیگ اسحاق ڈار کو ’’اقتصادی جادوگر‘‘ کے طور پر پیش کرتی تھی، مگر اسحاق ڈار اقتصادی شعبدہ باز تک ثابت نہ ہوسکے۔ اسحاق ڈار دعویٰ کرتے تھے کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کرنا جانتے ہیں اور آئی ایم ایف انہیںDictate نہیں کرسکتا، مگر معلوم ہوا کہ انہیں تو آئی ایم ایف سے بات کرنی بھی نہیں آتی، اور وہ مسلسل آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لے رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کہتے تھے وہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لے آئیں گے، مگر ڈالر ٹرپل سینچری کرنے ہی والا ہے۔ نواز لیگ پانچ ماہ سے کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہونے ہی والا ہے، مگر ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ مہنگائی نے 50 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ شریفوں، زرداریوں اور فضل الرحمانوں کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ وہ ابھی تک بھگوڑے نواز شریف کو پاکستان واپس نہیں لاسکے ہیں۔