ملکی معیشت ، آئی ایم ایف کی سولی پر

ملکی سیاست اخلاقی نادہندہ بن چکی، اور معیشت کشکول لیے اپنوں اور غیروں کی دہلیز پر کھڑی ہے، اور کسی سیاسی جماعت کو ادراک ہے اور نہ فکر کہ ہم ملک کو کدھر لے جارہے ہیں۔

حکومت دسمبر سے مسلسل یہی کہہ رہی ہے کہ آج، کل یا اگلے ہفتے سعودی عرب، قطر اور دیگر دوست ممالک سے ڈالرز آجائیں گے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا۔ اب مارچ بھی گزرنے والا ہے، چین کے سوا کسی دوست ملک سے کوئی دھیلہ بھی نہیں ملا، یوں آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی تک بحال نہیں ہوسکا۔ وزیر خزانہ کی یہ یقین دہانیاں اور بیانات مذاق اور تماشا لگنے لگے ہیں۔ ہماری ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان جنوبی ایشیا کا کمزور ترین کرنسی کا حامل ملک ہے، دیوالیہ ہونے کے باوجود سری لنکا سے آئی ایم ایف کا معاہدہ ہوگیا ہے، بنگلہ دیش کو بھی قرض مل چکا ہے، ایک ہم ہی ہیں کہ جنہیں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے باوجود قرض کی اگلی قسط نہیں مل سکی۔ ادارہ جاتی یادداشت ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے مراد کسی بھی ادارے کے ماضی میںکیے گئے فیصلے ہیں۔ ماضی میں آئی ایم ایف کی طرف سے قرض چٹکی بجاتے ملتا رہا، لہٰذا ہم سوچ رہے تھے کہ کوئی چیلنج نہیں ہوگا۔ ماضی میں سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک بھی پیسہ دیتے رہے ہیں۔ لیکن دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، وہ ممالک جن سے مالی امداد ملتی رہی آج ان کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام رکا ہوا ہے کہ وہ خود بہت بدل رہے ہیں، عوام پر ٹیکس لگا رہے ہیں، حکومت کی شاہ خرچیاں کم کی جارہی ہیں، وہ ممالک اب ہم سے بھی اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ ممالک آج ہمارے حکمرانوں سے سوال کررہے ہیں کہ جب جیب خالی ہے تو شاہ خرچیاں کیوں؟ اس وقت اصل مسئلہ ہماری ساکھ کا ہے۔ ہم وعدے کرتے ہیں اور پھر انہیں پورا نہیں کرتے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کوملک کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہے، انہیں صرف اقتدار چاہیے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ اور دوست ممالک ہم پر اعتبار نہیں کررہے ہیں، اس وقت ہماری کوئی معاشی سمت نہیں ہے۔ اگر مکمل غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو اس میں پی ڈی ایم، عمران خان اور ماضی کے تمام اسٹیک ہولڈرز برابر کے شریک ہیں۔ جب ذاتی مفادات ملکی مفادات پر غالب ہوں تو ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ پاکستان کا آنے والے چند ماہ میں کیا بنے گا اور سیاست کے ساتھ معیشت کا کیا ہوگا؟ سنگین حالات کی ایک تو یہ وجہ ہے، دوسری وجہ امریکہ ہے۔

واشنگٹن میں رواں ہفتے ڈیموکریسی سربراہی کانفرنس ہورہی ہے، یہ پاکستان کی سفارت کاری کے لیے ایک امتحان ہے جہاں اپنے دیرینہ اتحادی چین کو ناراض کیے بغیر امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو 2021ء میں پہلی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، جہاں بھارت نے شرکت کی تھی لیکن پاکستان شامل نہیں ہوا تھا۔ کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کے باعث بائیڈن انتظامیہ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے دور ہوئی تھی۔ معاشی بحران سے دوچار پاکستان کے لیے یہ کانفرنس بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے امریکہ کی حمایت کا ایک موقع ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب چین بھی قریب سے جائزہ لے رہا ہے، کیونکہ امریکہ نے چین کے بجائے تائیوان کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ چین نے اگر پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت سے روکنا چاہا تو ہم سے امریکہ ناراض ہوگا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ واشنگٹن آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی حمایت کرے۔ پاکستان کے لیے اس کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے ایک اور پیچیدہ معاملہ ترکیہ کو شرکت کی دعوت نہ دینا بھی ہے۔ بہرحال دیکھنا ہے کہ یہ امتحان کیا نتائج لاتا ہے۔

معاشی بحران میں گھرے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اس وقت اپنے عروج پر ہے کہ پنجاب میں انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد تحریک انصاف سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ لے کر پہنچ گئی ہے، جہاں عدالتِ عظمیٰ کے سامنے دو سوال ہیں: کیا الیکشن کمیشن صدر کی دی گئی تاریخ بدل سکتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ بدل سکتی ہے؟ الیکشن کمیشن جو کہ خود ایک آئینی ادارہ ہے، اب بہت دلچسپ سوال ہے کہ اس آئینی ادارے کو کیسے توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا جائے؟ حالیہ دنوں میں عدالت ِعظمیٰ بہت ہی واضح فیصلہ دے چکی تھی کہ آئین کے آرٹیکل254 کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے اسی آرٹیکل کی بنیاد پر پنجاب میں انتخابات ملتوی کیے ہیں۔ اب سپریم کورٹ میں سماعت ہورہی ہے۔ تحریک انصاف بھی جانتی ہے کہ کیا ہوگا، وہ صرف دبائو برقرار رکھنے کے لیے عدالت میں گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بات چیت کا دروازہ بھی کھول چکی ہے، اس پر حکومت کا ردعمل آگیا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہو توتمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہونے چاہئیں، سب کو بیٹھ کربات چیت کرنی چاہیے، نیاعمرانی معاہدہ سامنے آنا چاہیے، اور نئے انتخابات سے قبل یہ عمرانی معاہدہ ہوگا جس میں کسی کے لیے راستہ بند نہیں ہوگا بلکہ سب کے لیے راستے کھل جائیں گے۔ یہ بھی طے ہے کہ اب عمران خان کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے،کیونکہ سب تشویش میں مبتلا ہیں کہ ملک کی سیاست اور معیشت دونوں اس وقت پٹری سے اتری ہوئی ہیں، اور کوئی مسیحا بھی نہیں ہے جو آگے بڑھ کر معاملات سنبھال سکے۔

ملکی سیاست اخلاقی نادہندہ بن چکی، اور معیشت کشکول لیے اپنوں اور غیروں کی دہلیز پر کھڑی ہے، اور کسی سیاسی جماعت کو ادراک ہے اور نہ فکر کہ ہم ملک کو کدھر لے جارہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنے منصب اور اختیار کا نشہ ہے، جو جتنا بااختیار ہے وہ اسی قدر اپنی ذات اور انا کا اسیر بنا ہوا ہے۔ عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے 39 ماہ کے ایک پروگرام پر دستخط کیے تھے، اور ملکی تاریخ کا یہ سخت ترین معاہدہ تھا۔ معاہدے کے دوران ہی کورونا جیسی وبا نے آن گھیرا، یوں یہ معاہدہ طے شدہ معادہوںپر قائم نہ رہ سکا۔ کورونا ختم ہوا تو ملکی سیاست نے کروٹ لے لی، عمران خان نے حکومت جاتے ہوئے دیکھی تو آئی ایم ایف کے معاہدے کی خود ہی دھجیاں بکھیر دیں، اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ایک پیج پر نہیں آرہے۔ گزشتہ سال مئی سے پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام پر معاہدے اور اگلی قسط کے لیے بات چیت کررہے ہیں، لیکن گیارہ ماہ ہوگئے ہیں، معاہدے کی کوئی شکل نہیں بن رہی، اور پاکستان کی حکومت ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی قسط کے لیے ریاستی ساکھ پر لٹکائے کھڑی ہے۔ جب سے یہ بیان دیا گیا کہ ملک نادہندہ ہونے جارہا ہے تب سے غیر یقینی ایسی ہے کہ حکومت کی جیب خالی ہے اور ارب پتی، کروڑ پتی لوگوں نے گھروں میں تجوریاں بھر لی ہیں، یوں وہ ملک سے بالکل ہی لاتعلق ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے تو انہیں گھر بیٹھے کوئی کام کیے بغیر منافع مل رہا ہے۔ اس طبقے کے خلاف حکومتی رٹ صفر ہے۔ گزشتہ ماہ امید تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا۔ دس روز تک مذاکرات چلتے رہے، توقع تھی کہ اب معاہدہ ہوجائے گا اور قسط مل جائے گی جس کے بعد دوست ملکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی تعاون کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن قسط کے بجائے مالیاتی ادارے کی جانب سے نئی نئی شرائط سامنے آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی گئی کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات پر کیش مارجن کی شرط 31 مارچ 2023ء سے ختم کردی۔ درآمدات کو محدود کرنے کے لیے لگژری اور غیرضروری اشیاء کے لیے کیش مارجن کی شرط تھی۔ حکومت نے درآمدات کو محدود کرنے کے لیے یہ پابندی اگست 2022ء میں عائد کی تھی۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر درآمد پر عائد کیش مارجن کو واپس لے لیا گیا ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے، بینکوں کے پاس کھاتے داروں کے 5ارب 54 کروڑ ڈالر کے ڈپازٹس ہیں، جبکہ پاکستان کے ذخائر کا مجموعی مالی حجم 10 ارب 14کروڑ ڈالر ہے۔ چین سے 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ ری شیڈول ہونے سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوئے۔ چین نے پاکستان کے ذمہ دو ارب ڈالر قرض کی ادائیگی رول اوور کردی، دوارب ڈالرکے چینی سیف ڈپازٹس کی واپسی ایک سال کے لیے مؤخرکی گئی۔ اتحادی حکومت اور آئی ایم ایف میں معاہدہ ہوگیا تو 22 کروڑ افراد کے نقدی کی قلت سے دوچار ملک کو ایک ارب 10کروڑ ڈالر مل جائیں گے۔ تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے مالی تعاون کی یقین دہانیوں کے بعد ہی اب پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوگا۔ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشیائی انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک اور دیگر دوطرفہ شراکت داروں میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی یقین دہانیاں نہیں بلکہ عمل درکار ہے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ فی الحال قسط کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے پاس انتہائی ضروری اخراجات کے لیے خاطر خواہ رقم موجود ہے، اسٹاف لیول معاہدہ اسی وقت ہوگا جب شرائط پوری کی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پیاز کے چھلکے کی طرح ایک کے بعد ایک سامنے آرہی ہیں، یوں ملکی معیشت کوسست شرحِ نمو اور بلند افراطِ زر جیسے خطرناک حالات کا سامنا ہے اور تباہ کن سیلاب کے باعث پیش آنے والی مشکلات الگ ہیں، جس کا ایک بڑا زرعی اثر گندم کی فصل پر پڑا ہے کہ لاکھوں ایکڑ کے ایک بڑے رقبے پر سیلاب کی وجہ سے گندم کی بوائی نہیں ہوسکی۔ مستقبل قریب میں ہمیں بیرونِ ملک سے گندم منگوانا پڑے گی، یوں ملک میں آٹے کا ایک شدید بحران متوقع ہے۔ دو ہفتے قبل آئی ایم ایف کی قسط کے لیے اسٹاف لیول معاہدے کا امکان تھا، حکومت کی حالیہ ایندھن سبسڈی اسکیم کے باعث یہ امکان دھندلا گیا ہے، وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک اگرچہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، وزارت کو قیمتوں کے تعین کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے 6 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ قسط کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی وضاحت کردی ہے کہ معاہدے پر دستخط سے قبل ایندھن سبسڈی اسکیم پر آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ اس نے ایندھن سبسڈی اسکیم کی تفصیلات طلب کی ہیں، یوں اسٹاف لیول معاہدہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے جس کے باعث دونوں فریق اب تک میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز پر اتفاقِ رائے میں ناکام ہیں۔ اب معاملے کے حتمی فیصلے کے لیے 10اپریل 2023ء تک انتظار کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہونے والا ہے، اگر حکومت کو قسط مل گئی تو ملک میں انتخابات بھی ہوجائیں گے، نہ ملی تو اکتوبر میں بھی انتخابات متوقع نہیں ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اگرچہ کہا ہے کہ صوبائی انتخابات کے انعقاد کے لیے آئینی حیثیت، فزیبلٹی اور وقت صرف پاکستان کے اداروں کے ماتحت ہے اور پروگرام میں ایسا کوئی تقاضا نہیں ہے جس سے انتخابی عمل میں مداخلت ہو۔آئی ایم ایف کی طرف سے ایسا بیان اُس وقت آیا ہے جب الیکشن کمیشن نے ملک میں اقتصادی اور سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات میں پانچ ماہ تاخیر کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں وزارتِ خزانہ کے سیکریٹری نے کمیشن کو بریفنگ دی تھی کہ فنڈز کی کمی اور مالیاتی بحران کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور ملک آئی ایم ایف پروگرام کے دباؤ میں ہے جس نے مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے اہداف مقرر کیے ہیں۔ آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے تحت اہداف مجموعی طور پر عام حکومتی سطح پر مقرر کیے جاتے ہیں اور ان کے اندر اخراجات کو مختص کرنے یا دوبارہ ترجیح دینے یا اضافی محصولات بڑھانے کے لیے مالی گنجائش موجود ہوتی ہے تاکہ آئینی سرگرمیوں کی ضرورت کے مطابق انجام دہی یقینی بنائی جا سکے۔