تین روزہ ورکشاپ برائے نوجوان اہل ِقلم

معروف اہلِ قلم نے شرکا کی رہنمائی کی اور اُن کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات دیے

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے تحت اسلام آباد میں نوجوان قلم کاروں کے لیے تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے فیصل مسجد کیمپس میں قائمIRDکے اقبال آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی، جہاں ملک بھر سے شرکا اور ریسورس پرسن خواتین و حضرات نے شریک ہوکر ورکشاپ کو کامیاب بنایا۔ ورکشاپ میں سیکڑوں نوجوانوں نے رجسٹریشن کروائی ، جن میں سے مخصوص شرکا اس ورکشاپ کے لیے منتخب کیے گئے۔

اس تین روزہ ورکشاپ کے پہلے دن افتتاحی خطاب میں ڈائریکٹر IRD نے ادارے کا ’’تعارف اور پروگرام کے مقاصد‘‘ پر روشنی ڈالی۔

حسن آفتاب (ڈائریکٹر IRD ) نے بتایاکہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے قیام کے چار مقاصد ہیں جن میں تحقیق، مکالمہ، تربیت اور اشاعت شامل ہیں، اور انسٹی ٹیوٹ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ جبکہ اس ورکشاپ کے چیدہ چیدہ مقاصد میں غیر روایتی میڈیا کے بڑھتے رجحانات پر اسلام پسند عناصر کو سامنے لانا، نوجوانوں کی تربیت، شخصیت میں نکھار اور مؤثر علمی مکالمے کو فروغ دینا ہے۔ اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لکھاری کو اپنا فن بغیر کسی ستائش و تحسین کی طلب کے تخلیق کرنا چاہیے۔ یہ سوچ کر لکھنا اور بولنا چاہیے کہ آپ کو اپنی تحریر اور گفتگو کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ ذاتی تفاخر اور ذاتی تسکین کے بجائے سماج اور امت کی بہتری کے لیے لکھیں۔

معروٖف مصنف، مدیر اور تربیت کار اختر عباس نے ’’ادب کی تخلیق میں وژن کا کردار‘‘کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وژن کا مطلب آج میں رہنا اور کل میں جینا ہے۔ جو دیوار کے پار دیکھتا ہے وہ وژنری ہے۔ انسان کو 20 سال تک ادب سکھایا جاتا جاتا ہے، پھر علم دیا جاتا ہے، پھر مل کر وژن بنتا ہے۔ اُنھوں نے چند وژنری لوگوں کی مثالیں دیں جن میں حضرت عبداللہ ابن عباس، امام مالک اور امام شافعی کی مثالیں نمایاں تھیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آپ کا وژن ہمیشہ وننگ ویژن ہونا چاہیے، اور جس انسان میں وژن نہیں، وہ کیڑے مکوڑوں کی مانند ہے۔

اُردو نیوز سے وابستہ صحافی اسرار احمد نے ’’صحافتی اخلاقیات‘‘ کے حوالے سے بات رکھی اور کہا کہ ریاست کے چار ستون ہیں: انتظامیہ، عدلیہ، پارلیمان اور صحافت۔ اخلاقیات ایک بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک، ادارہ یا شخص اخلاقیات سے عاری ہوکر کوئی کام کرے گا تو وہ ناکام ہے۔ صحافت اب ایک صنعت بن چکی ہے۔ صحافت کا مقصد لوگوں تک حقائق پہنچانا، بنیادی حقوق کی ترسیل اور عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔ صحافت کے تین بنیادی شعبے ہیں جن میں رپورٹنگ، تجزیہ نگاری اور کالم نگاری شامل ہیں۔ صحافی کو ہمیشہ سچ کا علَم بردار ہونا چاہیے، ہر طرح سے آگاہ رہنا چاہیے اور غیر جانب دار رہنا چاہیے۔

معروف ناول نگار، شاعر اور ادبیات کے مدیر اختر رضا سلیمی نے ’’ناول نگاری ایک فن‘‘ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لکھنے کے فن کے لیے عمریں درکار ہوتی ہیں۔ یہ ہنر کسی کے سکھانے سے فوراً نہیں آجاتا۔ ادب کی دو اقسام ہیں: سیریس ادب اور پاپولر ادب۔ سیریس ادب میں ادیب اپنے نقطۂ نظر سے لکھتا ہے جس میں قاری تو کم ہوتے ہیں لیکن یہ طویل عرصے تک مؤثر رہتا ہے، جبکہ پاپولر ادب اس کے بالکل برعکس ہے جہاں قاری کے نقطۂ نظر سے لکھا جاتا ہے اور قارئین کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود لمبے عرصے کے لیے مؤثر نہیں رہتا۔ ادب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف ناول ہے۔ بیسویں صدی کے بعد سے ناول نے عروج پانا شروع کیا۔ زرعی دور میں شاعری عروج پر تھی جبکہ صنعتی دور میں ناول نگاری عروج پارہی ہے۔ کوئی ناول اُس وقت تک عظیم نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ دوسرے ناولوں سے اسلوب اور ہیئت میں مختلف نہ ہو۔ ناول لکھنے کے حوالے سے اُنھوں نے رہنمائی کرتے ہوئے چند تجاویز دیں کہ آپ کو روایت کا علم ہونا چاہیے، یعنی زبان کی ادبی روایت کا شعور ہونا چاہیے۔ اردو زبان کے کم از کم تیس معیاری ناول پڑھے ہوئے ہوں۔ تراجم پڑھیں اور اردو میں پڑھیں۔ جس سماج کے لیے لکھ رہے ہیں، اس کا شعور ہونا چاہیے۔ زمان و مکاں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کردار کی خاکہ گری اچھی طرح سے کریں۔ کردار کی بُری عادات کم، اور اچھی عادات زیادہ واضح کریں۔ لکھنے کا جنون ہونا چاہیے۔ بار بار لکھیں، پڑھیں۔ زبان صاف ہوگی اور ناول میں عمدگی آئے گی۔ ناول لکھنے کے بعد اسے رکھ دیں اور پھر اسے ایک قاری اور ناقد کی حیثیت سے پڑھیں اور اس میں غلطیاں تلاش کریں۔

’’سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال‘‘ کے حوالے سے معروف عالمی تربیت کار اور محقق، سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر محسن زاہد نے سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے لیے چند تراکیب بتائیں جن میں پہلے تو اپنا مقصد جاننا ہے کہ آپ کیوں اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد کے بعد اپنے ناظرین و سامعین کی پہچان کریں اور ہدف کریں۔ ان سے بات چیت کریں اور ان کے ساتھ منسلک رہیں۔ مستقل رہیں۔ تحریر کے ساتھ تصاویر کا استعمال کریں۔ پروفیشنل ذرائع کا استعمال کریں۔

سہ ماہی ”ادبیاتِ اطفال“ کے مدیر ڈاکٹر ریاض عادل نے ’’ادب اور ابلاغ کا تقابلی جائزہ‘‘ لیتے ہوئے کہا کہ ادب کے لغوی معنی شائستگی اور تہذیب کے ہیں، جبکہ اصطلاحی معنی قاعدہ، قرینہ اور حفظِ مراتب کے ہیں۔ اسی طرح ابلاغ کا لفظ بلغ سے نکلا ہے جس کا معنی تبلیغ، پھیلانا اور نشر واشاعت کے ہیں۔ ادب وابلاغ کا معنی اپنی بات اور علم لوگوں تک پہنچانا ہے۔ لکھنے کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ بہت ضروری ہے۔ آپ کے جملوں کا تنوع، ترتیب اور اجزاء آپ کی تحریر کو منفرد بناتے ہیں۔ اُنھوں نے لکھنے کے چار عناصر بتائے:مصنف، تحریر، ذریعہ ابلاغ اور قاری۔ اسی طرح پُر اثر تحریر کے لیے بھی کچھ گُر بتائے جن میں زبان کی سادہ فہمی، کردار و معاشرے سے انصاف، سماجی ماحول سے مناسبت اور قاری سے ہم آہنگی، زبان کا خیال اور آخر میں جوابی پیغام یعنی فیڈبیک۔

دوسرے دن کے پہلے پروگرام میں راقم الحروف اعظم طارق کوہستانی نے ’’اصنافِ ادب.. ایک تعارف“ میں اصناف کا تعارف کروایا۔ حصہ نظم میں بہ لحاظِ موضوع حمد، نعت، غزل، قصیدہ، مرثیہ، شہرِ آشوب، واسوخت، ریختی، پیروڈی، گیت کا تفصیلی تعارف کروایا۔ اسی طرح بہ لحاظِ ہیئت مثنوی، رُباعی، قطعہ، مسمط، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد کا تعارف کروایا۔ نظم جدید کو اس سے الگ رکھا۔ اصناف نثر کا تعارف کرواتے ہوئے نوجوان قلم کاروں سے کہا کہ ادیبوں کو ان بنیادی باتوں کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ جو لکھیں اس کی تفہیم بھی اچھے انداز سے کرسکیں۔

نامور اُدبا کے اسلوب کے موضوع پر مشہور نثر نگار، مدیر اور مصنف محمد فیصل شہزاد نے کہا کہ ایک فرانسیسی ادیب نے اسلوب کی تعریف میں یہ تک کہا ہے کہ اسلوب ہی خود انسان ہے۔ اس تعریف پر غور کیا جائے تو گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جیسے ہر شخص منفرد ہوتا ہے، اسی طرح ہر لکھاری کا اسلوب بھی منفرد ہوتا ہے۔ یعنی وہ تمام اشخاص جو اپنے واضح نظریات اور سوچ رکھتے ہیں اور ان کا اظہار تحریر و گفتگو کے ذریعے کرسکتے ہیں، اتنے ہی اسالیب بھی وجود رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزاد، شبلی، مستنصر حسین تارڑ، مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسلوب مصنف کی داخلی اور خارجی انفرادیت پر استوار ہوتا ہے۔ انفرادی خصوصیت، یعنی طبعاً آپ بہت سنجیدہ ہیں یا شوخ و شریر اور شگفتہ مزاج ہیں؟ اسی طرح آپ بہت زیادہ معروضی ذہن رکھتے ہیں یا تخیل کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ نیز آپ کے نظریات، آپ کے احساسات وغیرہ کیسے ہیں؟ اور آپ کسی بھی بات کو کس ڈھنگ سے سوچتے ہیں؟ یہ ہوئی ادیب کی داخلی انفرادیت! اس کے ساتھ ساتھ مصنف کا خارجی پہلو بھی اس کے اسلوب پر واضح اثر ڈالتا ہے، جس ماحول میں وہ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ماحول، اس کی لفظیات، اس کا رہن سہن، وضع قطع، اس سب کو اس کا ذہن خارج میں بھی ایک واضح شکل دے دیتا ہے۔ اور یہ دونوں یعنی داخلی اور خارجی پہلو مل کر مصنف کے اسلوب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

’’مثالی انٹرویو کی خصوصیات‘‘ کے ضمن میں اُستاد، معروف مصنف، شاعر ڈاکٹر طاہر مسعود نے صحافتی صنف انٹرویو نگاری پر جامع گفتگو فرمائی۔ انھوں نے انٹرویو نگاری سے متعلق اپنے تجربات اور تاثرات کو مختصراً بیان کیا۔ اُنھوں نے مثالی انٹرویو کے تین مراحل: انٹرویو سے پہلے، انٹرویو کے درمیان اور انٹرویو لکھنا، سے متعلق راہنما نکات بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی شخصیت کے انٹرویو سے قبل اس سے متعلق تحقیق اور ضروری معلومات حاصل کرنا بنیادی لوازمات میں سے ہے۔ دورانِ انٹرویو حاضر دماغی، خود اعتمادی اور بین السطور نکتہ آرائی مثالی انٹرویو نگار کی خصوصیات ہیں۔ انٹرویو لکھتے ہوئے ایمان داری، شائستگی اور احترام کو پیش نظر رکھا جائے۔ انٹرویو میں ایسے سوالات ہونے چاہئیں جن میں انٹرویو دینے والے کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر روشنی پڑے اور قارئین کو نئی باتیں پتا چلیں۔

بابائے ادبِ اطفال، دعوۃ اکیڈمی کے ’شعبہ بچوں کا ادب‘ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے ’’کامیاب ادیب کی بنیادی خصوصیات‘‘ کا تذکرہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کامیاب ادیب کے لیے مستقل مزاجی ضروری ہے۔ مطالعے کی فراوانی اور لکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر وقت نکالنا بہت اہم ہے۔ کامیاب ادیب بننے کے لیے ضروری ہے کہ ادیب کو باکردار اور اچھے اخلاق سے متصف ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر آپ ایک مشہور ادیب تو بن سکتے ہیں لیکن اچھے ادیب اور انسان شمار نہیں کیے جائیں گے۔

کئی سفرنامے لکھنے والے سفرنامہ نگار عبیداللہ کیہر نے ’’اچھے سفرنامے کی خصوصیات‘‘پر نوجوانوں کی رہنمائی کی۔ اُنھوں نے نہ صرف سفرنامے کی تاریخ پر بھرپور روشنی ڈالی بلکہ سفرنامہ لکھنے کے بنیادی لوازمات سے بھی آگاہ کیا۔ سفرنامہ اور ڈائری لکھنے میں فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اُردو میں سب سے زیادہ سفرنامے پڑھے جاتے ہیں اور فروخت ہوتے ہیں۔ عام قاری سفرنامے کو سچ اور ناول و افسانے کو جھوٹ سمجھتا ہے۔ سفرنامہ بہت دلچسپ ہو تو قاری کی نظر میں اس کی قدر فکشن سے بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح کہانی والا افسانہ تجریدی افسانے سے زیادہ مقبول ہوتا ہے اسی طرح دلچسپ واقعات والا افسانہ نرے معلوماتی سفرنامے سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔ جغرافیہ اور سوشل اسٹڈیز کی نصابی کتاب اور سفرنامے میں فرق ہونا چاہیے۔

تیسرے دن کی پہلی نشست میں تمغہ امتیاز پانے والے ملک کے ممتاز دانش ور، ادیب اور ابلاغ عامہ کے علوم کے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود نے ’’مطالعے میں تنوع‘‘ اور اس حوالے سے درپیش مشکلات پر گفتگو کی۔ عصرِ حاضر میں اسکرین کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اور اس کی حیثیت کے مقابلے میں کتاب سے اخذ شدہ علم کے دوررس اثرات بیان کیے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے مطالعے کی اقسام سمیت متنوع مطالعے کے فوائد کے مضمرات پر روشنی ڈالی۔ مختلف موضوعات کے مطالعے سے حاصل ہونے والے شخصی، ذہنی، حسی، جذباتی احساسات پر گفتگو کی۔

اگلی نشست میں ’’بامقصد شاعری کیسے‘‘ کے موضوع پر معروف شاعر، ادیب، کالم نگار اور مصنف جناب احمد حاطب صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس مقصد کے حصول کے لیے شاعری کررہے ہیں، ضروری ہے کہ اس مقصد سے آگاہی ہو، اور اگر وہ مقصد وجذبہ نہ ہوگا تو پروپیگنڈا شاعری کہلائے گی۔ ایسی صورت میں وہ کیفیت پیدا نہ ہوگی جو شاعری کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ جس کسی کو بھی متعین مقاصد کے لیے شاعری کرنی ہے تو شرط ہے کہ وہ مقاصد اس کی روح میں رچے بسے ہوں۔ گفتگو کے اختتام پر انھوں نے اپنی مشہور نظم ’’یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘‘ پیش کی جسے حاضرین نے بہت سراہا۔

’’قیاسی ادب اور اس کی وسعت و رجحانات‘‘ کے موضوع پر اسسٹنٹ پروفیسر اور سربراہ شعبہ انگریزی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر عروسہ کنول نے قیاسی ادب کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ پاکستان میں قیاسی ادب پہلے سے اپنی الگ پہچان کے ساتھ موجود ہے۔ یہ مغرب سے متاثرہ کاوش یا ماخوذ نہیں ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں اس کو تفریحی ادب سمجھا جاتا تھا لیکن اب سنجیدہ ادب سمجھا جانے لگا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے پر زور دیا تاکہ ہمارا یہ ادبی شاہکار دنیا تک پہنچ سکے۔

اگلی نشست میں پشاور سے آئے ہوئے معروف دانشور ڈاکٹر فخرالاسلام نے ’’پاکستان تشکیل سے تعمیر تک‘‘ کے عنوان پر تعمیری ادب کے توازن کو واضح کرتے ہوئے تعمیر کے عمل کے حوالے سے پُرمغز گفتگو کی، جس میں انسانی زندگی کے مختلف دائروں میں سے بحیثیت امت دائرے کے تحت ترجیحات پر زور دیا کہ یہی دائرہ بقیہ اور پھر ذات کے دائرے کو تقویت دینے والا ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کی تعمیر وترقی کے حوالے سے اُنھوں نے اپنے اسفار، مشاہدات، تجربات کی روشنی میں وحدتِ فکر، نظم و ضبط، احساسِ فرض، گڈ گورننس، صبرو تحمل اور صفائی ستھرائی کے اوصاف کو کسی بھی قوم کی ترقی کے کلیدی نکات قرار دیا اور کہا کہ میں نے دنیا میں کوئی ترقی یافتہ ملک گندا نہیں دیکھا اور کوئی پسماندہ ملک صاف نہیں دیکھا۔ انھوں نے نوجوان قلم کاروں کو بیدار کرتے ہوئے کہا کہ تمام تعمیری سفر قرآن مجید کی سورۃ العصر میں پوشیدہ ہے۔

فیکلٹی آف لینگویج اینڈ لٹریچر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی موجودہ ڈین ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’’فکشن اور فیکشن: نوعیت اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر حقیقت نگاری اور فکشن میں فرق اور فکشن لکھنے کے حوالے سے کلیدی نکات پر تفصیلی بحث کی، جس میں پلاٹ، کردار، راوی کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور جان دار کردار کے حوالے سے پیدا ہونے والے پانچ سوالوں کے جوابات دیے۔ ناول کی فنی حیثیت کے حوالے سے انھوں نے خاصی گتھیاں سلجھائیں۔ ناول لکھنے کی تکنیک کے ساتھ اُنھوں نے کردار وتخیل کی آزادی پر زور دیا۔

آخری مرحلے میں کراچی سے ماہنامہ ”ساتھی“ کے مدیر عبدالرحیم متقی نے کلام اقبال پیش کیا۔

اپنے تاثرات میں شرکا نے اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد ہوتے رہنا چاہیے۔ آئی آر ڈی کی اس ورکشاپ کی وجہ سے چھوٹے شہروں میں موجود لکھنے والوں کو نئی راہیں مل رہی ہیں اور ان کا کینوس بڑا ہورہا ہے۔
آخر میں مضمون نویسی کے انعامی مقابلے کے تین منتخب مضامین کو انعام سے نوازا گیا، جس میں اول انعام ’کامران خالد‘، دوم ’سید رحمٰن شاہ‘ اور سوم ’مشہود صدیقی‘ نے حاصل کیا۔ جب کہ ایک خصوصی انعام مانسہرہ کے ’سید رحمٰن شاہ‘ کو دیا گیا کہ اُنھوں نے مجموعی طور پر اس ورکشاپ میں سب سے زیادہ سوالات کے ذریعے دلچسپی کا اظہار کیا۔
مہمانان میں احمد حاطب صدیقی، ریاض عادل اور مہمانِ خصوصی ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی اس کاوش کا خیرمقدم کیا اور اُمید ظاہر کی کہ اس قسم کے پروگراموں کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ نئی نسل ادب میں نئے اور اچھے تجربات کرسکے۔
اس کے بعد شرکا میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں زبیر فرید، مشہود صدیقی اور کامران خالد کے نوٹس سے استفادہ کیا گیا۔