پروفیسر محمد شفیع ملک: ٹریڈ یونین تحریک کی ایک عہد ساز اور نابغہ روزگار شخصیت

آپ کا درس و تدریس، ٹریڈ یونین تحریک، تحقیق،صحافت، تصنیف و تالیف میں علمی، فکری اور نظریاتی جدوجہد کا سفر سات دہائیوں پر محیط ہے

پروفیسر محمد شفیع ملک سے ہمارا اولین تعارف 1986ء میں اُس وقت ہوا تھا جب آپ ہمارے ادارے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں صوبہ سندھ کے ملازمین کی نمائندگی کررہے تھے۔آپ ایک عہد ساز، نابغۂ روزگار اور انتہائی شفیق شخصیت کے مالک اور ملک کی ٹریڈ یونین تحریک کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں، جو ہرچھوٹے بڑے سے بے حد خوش اخلاقی اور اپنی روایتی شفقت سے پیش آتے ہیں، اور ایک بار ملنے والا آپ کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آپ کی ملنسار طبیعت اور شفقت کے باعث آپ کی شخصیت سے تعلق کی بنیادیں مستحکم تر ہوتی چلی گئیں۔ اسی دوران آپ نے ہماری قلم نگاری اور رپورٹنگ کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ہمیں بڑی شفقت اور محبت سے نیشنل لیبر فیڈریشن (NLF)کے زیراہتمام شائع ہونے والے جریدے ’’الکاسب‘‘ کو مزید بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی جسے ہم نے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہوئے بخوشی قبول کرلیا تھا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں ایک عرصے تک پروفیسر محمد شفیع ملک جیسی جید اور دانشور شخصیت کی براہِ راست نگرانی میں ماہنامہ الکاسب کراچی کے لیے خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا۔ اُس دور میں نیشنل لیبر فیڈریشن کا مرکزی دفتر الآمنہ پلازہ، ایم اے جناح روڈ کی بالائی منزل پر قائم تھا۔

ماہنامہ الکاسب کراچی کے بانی اور مدیر اعلیٰ پروفیسر محمد شفیع ملک، ملک کے ایک کہنہ مشق مزدور رہنما اور دانشور کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر اپنے عمیق مطالعے کی بدولت ٹریڈ یونین تحریک کے لیے بے حد قیمتی اثاثہ اور اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا شمار ملک میں ٹریڈ یونین تحریک کے چند درخشندہ ستاروں میں کیا جاتا ہے۔ آپ ٹریڈ یونین تحریک میں صنعتی تعلقات کے اسلامی ماڈل کے داعی ہیں، جس میں ملک کے صنعتی، پیداواری، تجارتی اور کاروباری اداروں میں آجر اور اجیر کے درمیان برسوں سے جاری صنعتی تنازعات اور کشمکش کی کیفیت اور مقدمہ بازی کے مکمل خاتمے اورآجر واجیر کے دیرینہ مسئلے کے پائیدار حل کے لیے حقوق و فرائض میں توازن پر زور دیا گیا ہے۔ آپ نے اپنے منفرد صنعتی تعلقات کے اسلامی ماڈل (جس میں اول فرائض اور دوم حقوق پر زور دیا جاتا ہے) کا آزمائشی تجربہ سیمینس انجینئرنگ کمپنی پاکستان(Siemens Pakistan) سائٹ،کراچی میں کیا تھا، جس میں کمپنی اور یونین کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف طویل عرصے سے جاری قانونی چارہ جوئی(Litigation) رفتہ رفتہ صفر پر پہنچ گئی تھی، جس پر کمپنی کی جرمن انتظامیہ حیران رہ گئی تھی اور انہوں نے اس منفرد نظریے کو متعارف کرانے والی غیر معمولی شخصیت پروفیسر محمد شفیع ملک سے بنفس نفیس ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔

گزشتہ دنوں ہماری محترم پروفیسر محمد شفیع ملک کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی، جس کے دوران ہم نے آپ سے تعلیم، ٹریڈ یونین تحریک، سیاست، صحافت اور تصنیف و تالیف کے شعبوں میں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد پر محیط طویل اور غیر معمولی خدمات اورآپ کی بصیرت افروز شخصیت کے متعلق ایک تفصیلی گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

پروفیسر محمد شفیع ملک نے 20 اگست1928ء کو تحصیل تجارہ، ریاست الور، راجپوتانہ (موجودہ راجستھان) میں ایک متوسط اور باعزت گھرانے میں جنم لیا۔آپ کے والدِ محترم محمد ابراہیم خان محکمہ ریونیو میں پٹواری تھے اور اپنا کاروبار بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ اگرچہ ایک گھریلو خاتون تھیں لیکن آپ کو مقامی زبان کی لوک شاعری یاد تھی۔ آپ پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں آپ سب سے بڑے ہیں۔ آپ کے دو چھوٹے بھائی محمد اصغر اور محمد اقبال بچپن میں ہندوستان میں ہی وفات پاگئے تھے، جبکہ مزید دو چھوٹے بھائی محمد انوار احمد خان اور رفیق احمد خان تھے، جن میں سے محمد انواراحمد خان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی حیدر آباد ریجن سے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور بعد ازاں انتقال کرچکے ہیں۔ جبکہ دوسرے بھائی محمد رفیق احمد خان گورنمنٹ ہائی اسکول لطیف آباد کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

آپ نے اپنی ابتدائی اور انٹر میڈیٹ تک تعلیم ریاست الور (غیر منقسم ہندوستان) میں حاصل کی۔ آپ 1946ء کے اوائل میں دورانِ تعلیم اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، تجارہ کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے، لیکن اگست 1947ء میں تقسیم ہند کے باعث آپ کا تعلیمی سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہوگیا۔

تقسیم ہند کے دوران رونما ہونے والے فسادات کے دوران آپ اپنے والد کی سرکردگی میں اگست1947ء میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ آپ کے گھرانے نے پہلے چھ ماہ کراچی میں قیام کیا اور بعد ازاںچھوٹی گٹی، حیدر آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔

اگرچہ آپ نے اپنی ابتدائی اور انٹر میڈیٹ تک تعلیم ریاست الور میں ہی حاصل کی تھی جو تقسیم ہند کے باعث منقطع ہوگئی تھی۔ لہٰذا آپ نے نئے وطن پاکستان میں ہجرت کے بعد حالت سازگار ہوتے ہی اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کردیا تھا، جس کے نتیجے میں آپ نے گورنمنٹ کالج حیدرآباد سے بی اے کا امتحان اول درجے میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا، اوربعد ازاں 1954ء میں سندھ یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ آپ نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ایم اے انگریزی میں بھی داخلہ لیا تھا لیکن بعض وجوہات کی بناء پر اسے نامکمل چھوڑنا پڑا۔

ہندوستان سیہجرت کے بعد نہایت بے سروسامانی کا عالم تھا اور اہلِ خانہ کی باعزت گزربسر کے لیے کسی مناسب آمدنی کی فوری ضرورت تھی۔ لہٰذا آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز معروف برطانوی تیل کمپنی پاکستان برما شیل (PBS) کراچی میں اکائونٹس کلرک کی حیثیت سے کیا۔ اس کے بعد محکمہ ریلوے کے کیرج اینڈ ورکس ڈپارٹمنٹ(C&W) حیدرآباد میں ملازمت اختیار کی، اور پھر پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ (PWD) ہیر آباد، حیدرآباد میں عرصۂ 6ماہ تک ملازمت کرتے رہے۔ بعد ازاں آپ نے اپنی تعلیمی قابلیت اور تدریس کے ذوق و شوق کی بدولت درس وتدریس سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا اور جامعہ عربیہ اسکول، تلک چاڑی حیدرآباد میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ بعد ازاں1954ء سے1958ء تک میمن انجمن ہائی اسکول، حیدرآباد میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔

پروفیسر محمد شفیع ملک اپنے دورِ طالب علمی کے ابتدائی برسوں میں ہی مقبول و معروف طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے تھے، آپ حیدرآباد شہر کے پہلے ناظم ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ بعد ازاں مؤثر تنظیمی صلاحیت اور قوتِ اظہار کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کا ناظم مقرر کردیا گیا تھا، آپ 1951ء سے 1956ء تک اس اہم ذمہ داری پر فائز رہے۔

اقتصادیات کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ 1960ء سے 1965ء تک ایس ایم آرٹس کالج ٹنڈو الہ یار میں پرنسپل اور معاشیات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی طرح آپ نے حیدرآباد شہر میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے ایک معیاری تعلیمی ادارے غزالی ڈگری کالج کی بنیاد ڈالی جس کا افتتاح 5ستمبر1965ء کوملک کے ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی نے کیا تھا۔ آپ1965ء سے1970ء تک اس موقر تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران آپ نے دور دراز کے شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو مناسب رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک بوائز ہاسٹل بھی قائم کیا تھا۔ اسی طرح آپ نے حیدرآباد میں ثانوی تعلیم کے لیے معروف تعلیمی ادارے علامہ اقبال ہائی اسکول کی داغ بیل بھی ڈالی تھی۔ غزالی کالج کو1972ء میں حکومت نے قومیا لیا تھا۔ الحمدللہ! اپنے قیام کے برسوں بعد آپ کی زبردست کاوشوں کی بدولت قائم ہونے والا غزالی کالج اب گورنمنٹ غزالی ڈگری کالج اینڈ پوسٹ گریجویٹ سینٹر کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ آپ کے حیدرآباد کے ساتھیوں میں معروف بیوروکریٹ ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر انوار احمد صدیقی سابق وائس چانسلر اسلام آباد یونیورسٹی شامل ہیں۔

1956ء میں پروفیسر محمد شفیع ملک کے سامنے دو راستے تھے: شعبۂ تعلیم سے وابستگی یا ٹریڈ یونین تحریک میں شمولیت۔ چنانچہ آپ نے حیدرآباد میں اپنے بہترین تدریسی کیریئر کو قربان کرتے ہوئے ملک کے سب سے کمزور طبقے لاکھوں محنت کشوں کو اخلاقی و فکری تربیت اور نظریاتی رہنمائی فراہم کرنے کو ترجیح دی، اور اس عظیم مقصد کی خاطر 1956ء میں مستقل طور پر مزدور تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ آپ اپنی خودنوشت ’’اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’مزدور فیلڈ میں حیدرآباد شہر میری پہلی تجربہ گاہ اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری حیدر آباد، پہلا ٹریڈ یونین پروجیکٹ تھا۔ زیل پاک سیمنٹ فیکٹری پاکستان اور نیوزی لینڈ کے اشتراک اور پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (PIDC) کے تحت سیمنٹ سازی کا ایک بڑا کارخانہ تھا، جس نے 1956ء میں پیداواری عمل کا آغاز کیا تھا۔‘‘

چنانچہ آپ نے مزدور تحریک میں شمولیت کے فوراً بعد1956ء میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری حیدرآباد میں سیمنٹ لیبر ایسوسی ایشن کے نام سے ٹریڈ یونین کی بنیاد ڈالی اور اس فیکٹری کی یونین کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ بعد ازاں یہ یونین 1957ء میں اجتماعی سوداکار ایجنٹ (CBA)کا درجہ اختیار کرگئی تھی۔ یہ درجہ ملنے کے بعد زیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں ایک ریفرنڈم کا بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں آپ کو98 فیصد ووٹوں سے ریکارڈ فتح حاصل ہوئی تھی، اور اس غیر معمولی کامیابی کے نتیجے میں آپ زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی یونین کے صدر اور مقبول احمد جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ اس یونین کی مجلس عاملہ12ارکان پر مشتمل تھی۔

پروفیسر محمد شفیع ملک بتاتے ہیں کہ 1957ء میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی یونین کو CBAکا درجہ حاصل ہونے کے بعد انہوں نے امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سےCBAکے منتخب عہدیداران کی تقریب حلف برداری میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت اور منتخب عہدیداران سے حلف لینے کی درخواست کی تھی جو مولانا نے ازراہِ نوازش قبول کرلی تھی اوروہ اس تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر حیدر آباد تشریف لائے تھے۔ یہ تقریب زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی کینٹین میں منعقد کی گئی تھیجس میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے فیکٹری کے جنرل منیجر مسٹر پی ایس پیڈرسن نے بھی شرکت کی تھی۔ لہٰذا اس موقع کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے انگریزی میں خطاب کیا تھا۔

اُس وقت ملک میں سیاسی گہماگہمی عروج پر تھی اور1956ء کے عبوری آئین کے تحت عام انتخابات منعقد ہونے جارہے تھے جس کے لیے ماہ فروری1959ء کی کوئی تاریخ طے ہوچکی تھی۔ چنانچہ پروفیسر محمد شفیع ملک کی شہری، سیاسی، اور ٹریڈ یونین تحریک میں غیر معمولی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن ابھی انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی کہ فوجی آمرجنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر1958ء میں حکومت کو برطرف کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی سرگرمیاں یکدم بند ہوگئی تھیں۔ مارشل لا کے نفاذ اور سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندی کے بعد پروفیسر محمد شفیع ملک کی مکمل توجہ ٹریڈ یونین تحریک کی جانب مرکوز ہوگئی تھی۔ لیکن فوجی حکومت ملک میں سیاسی سرگرمیوں سمیت ٹریڈ یونین تحریک کی سرگرمیوں کو بھی سخت ناپسند کرتی تھی۔ خصوصاً اسے مزدور تحریک میں جماعت اسلامی کا عمل دخل سرے سے پسند ہی نہیں تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد پروفیسرمحمد شفیع ملک کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر جماعت اسلامی کراچی کے ایک اہم رہنما پروفیسر عبدالغفور احمدؒ کی طرف سے دعوت ملی کہ وہ حیدرآباد سے کراچی منتقل ہوجائیں اور یہاں بھرپور انداز میں ٹریڈ یونین تحریک کے لیے کام کریں۔ پروفیسر محمد شفیع ملک اُن دنوں غزالی ڈگری کالج حیدرآباد کے پرنسپل کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ آپ اس دعوت پر اپنے تابناک تعلیمی کیریئر کو قربان کرکے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔

فوجی حکومت کے سیاہ دور میں محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کو ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا پروفیسر محمد شفیع ملک کو بھی ایوب دورِ آمریت میں ابتلا اور آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ آپ یہ واقعہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’غالباً مئی/جون1959ء کی بات ہے، عیدالاضحی میں کوئی دس دن باقی تھے، میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوا تھا کہ گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ اُس وقت میری رہائش شاہی بازار سے متصل ایڈوانی اسٹریٹ میں تھی۔ معلوم ہوا کہ سٹی پولیس اسٹیشن کے دو سادہ لباس پولیس اہلکار میری گرفتاری کا پروانہ لائے ہیں، جبکہ وجۂ گرفتاری فتح ٹیکسٹائل ملز کے محنت کشوں کے مسائل کے متعلق میرا ایک اخباری بیان تھا۔ چنانچہ اس بیان کی پاداش میں دوسرے روز ہم ہتھکڑی پہنے حیدرآباد جیل میں قید تھے۔ میرے ساتھ اس جرم میں ملوث اخبار کے ایڈیٹر اور رپورٹر بھی جیل میں تھے۔ دوسرے روز ہمیں خبر ملی کہ ہمارے خلاف بغاوت کے جرم میں خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ اس دوران محمد احمد میمن ایڈووکیٹ نے ہماری وکالت کی ہامی بھرلی تھی۔ ایک ہفتہ جیل میں رہنے کے بعد ہمیں زبردست پہرے میں فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں مختصر سماعت کے بعد ہمارا مقدمہ سرسری سماعت کی فوجی عدالت کو بھیج دیا گیا۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالت میں مقدمے کی پہلی پیشی پر ہمارے وکیل محمد احمد میمن نے پیشہ ورانہ انداز میں اپنے دلائل پیش کیے، لیکن اس دوران میں نے آئندہ پیشی پر اپنے کیس کی ازخود پیروی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس فیصلے سے امیر جماعت اسلامی کو مطلع کردیا۔ فوجی عدالت کے سامنے اپنی اگلی پیشی پر میں نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا:

’’میرا خیال ہے کہ مارشل لا عدالت کو اس بات کا پورا علم ہوگا کہ فتح ٹیکسٹائل ملز کے محنت کشوں کو فیکٹری کی انتظامیہ سے کچھ جائز شکایات اور مسائل درپیش ہیں۔ لیبر فیڈریشن آف پاکستان، جس کا میں سینئر نائب صدر ہوں، ان شکایات کے حل کے لیے ڈائریکٹر لیبر کے ذریعے فیکٹری کی انتظامیہ کو متوجہ کرتی رہی ہے، لیکن اس کے باوجود فیکٹری انتظامیہ نے ابھی تک محنت کشوں کے جائز مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر لیبر اس وقت ٹریننگ پر ملک سے باہر ہیں اور ہمارا براہِ راست فیکٹری کی انتظامیہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگر ڈائریکٹر لیبر ٹریننگ کے سلسلے میں بیرونِ ملک نہ گئے ہوتے تو ہمیں اس مسئلے کے متعلق اخباری بیان جاری کرنے کی نوبت پیش نہ آتی۔ فتح ٹیکسٹائل ملز کی انتظامیہ کو ضلعی انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے، اس لیے وہ محکمہ محنت کے کسی افسر کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتی۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ ہمارے اخباری بیان نے فیکٹری کے محنت کشوں کی ڈھارس بندھائی ہے کہ ان کے جائز مسائل حل کرانے کے لیے کچھ ہمدرد لوگ موجود ہیں اور انہیں قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں۔‘‘

لیکن اس کیس میں استغاثہ کا پورا زور اخباری بیان کے اُس حصے پر تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اگر فتح ٹیکسٹائل ملز کی انتظامیہ نے محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش نہ کی تو نتائج کی ذمہ داری فیکٹری انتظامیہ پر ہوگی!‘‘

چنانچہ پروفیسر محمد شفیع ملک کے دلائل سننے کے بعد فوجی عدالت نے 200 روپے جرمانہ عائد کرکے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ فیصلے کے بعد عدالت کے باہر زیل پاک سیمنٹ، انڈس گلاس فیکٹری اور فتح ٹیکسٹائل ملزکے محنت کشوں کی بڑی تعداد نے پھولوں کے ہار پہناکر آپ کا استقبال کیا۔ یہ حیدرآباد کی تاریخ میں مارشل لا کے دوران پہلی گرفتاری اور بالآخر باعزت رہائی تھی۔ فتح ٹیکسٹائل ملز کے ناخوشگوار واقعے اور سرسری سماعت کی عدالت سے رہائی کے بعد پروفیسر محمد شفیع ملک لاہور منتقل ہوگئے تھے کہ مئی1960ء کے ایک دن آپ کو مارشل لا ایڈمنسٹریشن، حیدرآباد کی جانب سے ایک دلچسپ خط موصول ہوا جس میں انگریزی زبان میں تحریر تھا:۔

“You are hereby summoned to collect an amount of Rs, 200 from the Office of Summary Military Court Hyderabad.The punishment awarded to you has been quashed.”

حکومتِ وقت کو پروفیسر محمد شفیع ملک کی لاہور منتقلی کے باوجود حیدرآباد میں مزدور تحریک میں بھرپور طور سے حصہ لینا اور حیدر آباد کے محنت کشوں اورشہریوں کو درپیش مختلف مسائل کے حل کے لیے مقامی سیاست میں بھی سرگرم کردار پسند نہ آیا۔ چنانچہ حکومتِ وقت نے آپ کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیں اورآپ اور آپ کے ساتھی یاور حسین کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حیدر آباد کے حکم پربدنام زمانہ غنڈہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرادیا گیا۔ اس دوران جب آپ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حیدر آباد کی جانب سے نوٹس لے کر مولانا مودودیؒ کے کمرے میں داخل ہوئے تو مولانا نے اونچی آواز میں ازراہِ تفنن کہا’’ارے بھئی ملک غلام علی صاحب! دیکھیے میرے کمرے میں دو غنڈے داخل ہوگئے ہیں،ذرا انہیں روکیں‘‘۔ اس موقع پرمولانا مودودیؒ کے اس ہلکے پھلکے مذاق نے سخت تنائو کی کیفیت میں مبتلا ان دونوں حضرات کے ذہنی بوجھ کو خاصا کم کردیا تھا۔ اس طرح پروفیسر محمد شفیع ملک کو عوامی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں حکومت کی جانب سے بدنام زمانہ غنڈہ ایکٹ سمیت متعدد بار جھوٹے مقدمات اور قید وبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔

ملک میں ٹریڈ یونین تحریک میں نظریاتی کشمکش کے دور میں پروفیسر محمد شفیع ملک نے ملک کے لاکھوں محنت کشوں کو ایک نظریاتی پلیٹ فارم پر جمع اور منظم کرنے کی غرض سے 9 نومبر1969ء کو ایک ملک گیر مزدور تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن (NLF)کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس فیڈریشن کا پہلا اجلاسِ عام 9 نومبر1969ء کو اس کے مرکزی دفترواقع 250۔ النور چیمبرز پریڈی اسٹریٹ کراچی میں منعقد ہوا تھا۔ پروفیسرمحمد شفیع ملک بتاتے ہیں کہ اجلاسِ عام میں اس فیڈریشن کے

دستور اور اوّلین عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا تھا جس کے صدر کی ذمہ داری مجھ خاکسار کے سپرد کی گئی تھی، جبکہ شبیر حسین جنرل سیکریٹری اور مجید جیلانی سینئر نائب صدر مقرر کیے گئے تھے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کی پوری ٹیم انتہائی باصلاحیت، مستعد اور بے لوث ساتھیوں پر مشتمل تھی، جس کی بدولت نیشنل لیبر فیڈریشن نے آنے والے وقت میں ملک کے مختلف شہروں میں قائم بڑے بڑے صنعتی اور پیداواری اداروں میں اپنی مزدور تنظیمیں قائم کرکے محنت کشوں کے حقوق کے لیے سخت جدوجہد کی، اور ان محنت کشوں کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی تھی۔ الحمد للہ! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل لیبر فیڈریشن اب ملک کی صنعت و حرفت کے میدان میں لاکھوں محنت کشوں کے لیے ایک شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ حال ہی میں قومی صنعتی تعلقات کمیشن(NIRC)،اسلام آباد حکومتِ پاکستان نے ملک کی جملہ لیبر فیڈریشنز کے ارکان کی تعداد کا تفصیلی طور سے جائزہ لینے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں نیشنل لیبر فیڈریشن کو سب سے زیادہ تعداد میں محنت کشوں کی رکنیت کی حامل اور اس فیڈریشن سے وابستہ ٹریڈ یونینوں کے لحاظ سے اسے ملک کی سب سے بڑی لیبر فیڈریشن قرار دیا ہے، جو اس ملک گیر فیڈریشن کے بانی پروفیسر محمد شفیع ملک اور نیشنل لیبر فیڈریشن کے لیے ایک نمایاں اعزاز کا درجہ رکھتا ہے۔
(جاری ہے)