بحرالکاہل پر کسی کی بالادستی قابل قبول نہیں بیجنگ سخت ناراض
کمیونسٹ اور سرمایہ دار دنیا کی کشیدگی کو ایک صدی بیت گئی۔ افغانستان میں شرمناک شکست اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین (USSR)کی تحلیل کے بعد چچا سام دنیا کی واحد بڑی طاقت رہ گئے کہ اس دوران چین کی ساری توجہ معیشت کی تعمیرنو کی طرف تھی، چینی سیانوں کا خیال ہے کہ بارودی گولوں کا زمانہ گیا، اب طلائی گولیوں کا دور ہے۔ بیجنگ کا تجزیہ کچھ غلط بھی نہیں کہ طنزو تحقیر کے باوجود امریکہ کے بازاروں میں سوئی سے سلائی مشین تک ہر چیز چین ساختہ ہے۔ ٹیلی ویژن، فرنیچر، تعمیراتی سامان، ملبوسات، حتیٰ کہ مُردوں کی تدفین کے لیے تابوت بھی چین سے آرہے ہیں۔
آئیں گے غسّال لندن سے کفن جاپان سے
اپنی یک قطبی (Uni Polar) حیثیت کا امریکہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور چاردانگ عالم پر پنجے گاڑ دیے۔ 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک پر ہونے والے حملے المعروف نائن الیون کے خلاف امریکہ کی قیادت میں بے رحم و سفاکانہ ردعمل نے امریکہ کی حیثیت کو مزید مستحکم کردیا۔ دو سال بعد عراق پر حملے اور ہنستے بستے ملک کو اجاڑ کر چچاسام عالمی مافیا کے ٖ ڈان بن گئے۔
امریکہ کو بالادستی حاصل کرنے کی جدوجہد میں کسی منظم و مضبوط مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا، اور چین بھی اس سکھا شاہی کی زبانی و سفارتی مخالفت سے آگے نہ بڑھا، لیکن امریکی قیادت اور ان کے مراکزِ دانش نے چین، شمالی کوریا اور ایران کا نام اپنے تین بڑے دشمنوں کی سرکاری فہرست میں شامل کررکھا ہے، جن میں سے بیجنگ ان کی ٹکر کا دشمن ہے۔
بحراوقیانوس اور اس سے متصل سمندروں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برتری حاصل ہے، جبکہ بحرالکاہل کا مشرقی ساحل چین سے لگتا ہے اور دنیا کے اس سب سے بڑے سمندر میں امریکہ چین کا ناطقہ بند کرکے اسے محدود کردینا چاہتا ہے۔ بحرالکاہل کے شمال کی جانب چین کو کوئی پریشانی نہیں کیونکہ روس سے بیجنگ کے دوستانہ تعلقات ہیں اور ماسکو بھی قتیلِ واشنگٹن ہے۔ تاہم جنوب کی جانب بحرالکاہل کا ذیلی یا Marginal سمندر، بحیرہ جنوبی چین کا ساحل ویت نام، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور فلپائن سے ملتا ہے، اور یہاں جزائر کی ملکیت پر چھوٹے موٹے تنازعات بھی ہیں جنھیں ہوا دے کر واشنگٹن، چین کو الجھائے ہوئے ہے۔
گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحیرہ جنوبی اور بحیرہ مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے تعمیر کرکے وہاں فوجی اڈے قائم کردیے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لینا آسان نہیں کہ کچھ اڈوں پر جوہری ہتھیار نصب ہیں۔ چنانچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔
ملائشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل سے بھی کم ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحرہند سے ملاتی ہے۔
اس راستے کی نگرانی اور جنوبی سمت سے چین کے گھیرائو کے لیے 2007ء میں جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے، ان کے ہندوستانی ہم منصب من موہن سنگھ، آسٹریلیا کے وزیراعظم جان ہاورڈ اور امریکی نائب صدر ڈک چینی نے گفتگو کا آغاز کیا جسے چار طرفہ دفاعی مکالمے یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUAD کا نام دیا گیا۔ یہ چاروں ممالک اپنی عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کے لیے وقتاً فوقتاً بحری مشقیں کرتے رہے ہیں۔ اس نوعیت کی پہلی مشق 1992ء میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت سے اسے ”مالابار بحری مشق“ پکارا گیا۔ کواڈ بننے کے بعد ان مشقوں میں باقاعدگی آگئی۔ اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ کواڈ کا تزویراتی ہدف بحرالکاہل خاص طور سے بحیرہ جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کو غیر مؤثر کرنا ہے۔ اسی بنا پر سیاسیات کے علما کواڈ کو ایشیائی نیٹو (Asian NATO)کہتے ہیں۔
کواڈ کو تقویت دینے اور چین کے گھیرائو کو مؤثر و مستحکم بنانے کے لیے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین ستمبر 2021ء میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جسے ان ممالک کے نام کی مناسبت سے آکس (AUKUS)کہا جاتا ہے۔ ہم نے ازراہِ تفنن سرنامہ کلام میں اسے آنکُس لکھا ہے۔
آکس معاہدے کی ولادت کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ چار سال پہلے آسٹریلیا نے فرانس سے53 ارب 50 کروڑ ڈالرکے حساب سے 12جوہری آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ شپ یارڈ پر کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ان آبدوزوں کی تکمیل میں تاخیر کے ساتھ لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا اور قیمت 96 ارب 30کروڑ ڈالر تک جاپہنچی۔ تاخیر اور قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہوکر آسٹریلیا نے متبادل کی تلاش شروع کردی اور گزشتہ برس برطانیہ اور امریکہ نے مشترکہ طورپر ان آبدوزں کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کردی۔ معاہدے کے تحت 2050ء تک آسٹریلیا کو 8 جدید ترین SSN-AUKUS جوہری آبدوزیں فراہم کی جائیں گی جن کی کُل قیمت 286 ارب ڈالر ہوگی۔ آبدوزوں کے ساتھ تربیت اور سمندری سراغ رسانی کا پورا نظام معاہدے کا حصہ ہے۔ سودا ہوتے ہی آسٹریلیا نے فرانس سے خریداری منسوخ کردی جس پر پیرس سخت بدمزہ ہوا۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے اسے اپنے اتحادی کی جانب سے پشت میں خنجر گھونپنا قرار دیتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلالیے۔ اِس سال کے آغاز پر جب آسٹریلیا میں وزیراعظم انتھونی البانیز نے اقتدار سنبھالا تو ناراض فرانسیسیوں کا غصہ کم ہوا اور آسٹریلیا نے معاہدہ منسوخی کے عوض 58 کروڑ چالیس لاکھ ڈالر تاوان ادا کرکے پیرس کو راضی کرلیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جوہری آبدوز ایٹمی اسلحے سے لیس نہیں بلکہ یہ جوہری ایندھن استعمال کرتی ہیں جس کی بنا پر روایتی آبدوزوں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی اور زیادہ عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہے۔ اس وقت دنیا کے صرف 6 ملکوں یعنی امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور ہندوستان کے پاس جوہری آبدوزیں ہیں۔
بادی النظر میں آکس جوہری آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ پیر کو معاہدے پر دستخط کی سرکاری تقریب امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں ہوئی، جس میں برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک، آسٹریلیا کے انتھونی البانیز اور میزبان صدر بائیڈن شریک ہوئے۔ ان رہنمائوں کی تقریروں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ محض ایک سودا نہیں بلکہ ایک مربوط دفاعی بلکہ ممکنہ جارحیت کا معاہدہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ایک خطرناک دہائی کا سامنا ہے اور سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے بھرپور تیاری ضروری ہے۔ آکس معاہدے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق یہ بحرہند اور بحرالکاہل کے علاقے میں چینی بحریہ کے خلاف سہ رکنی دفاعی اور سلامتی اتحاد ہے۔ آکُس کا بنیادی ہدف بحیرہ جنوبی چین اور اس سے نکلنے کے راستوں کی نگرانی کے لیے ہند نائو سینا کو مدد فراہم کرنا ہے۔
بیجنگ میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژائو لیجیان (Zhao Lijian) نے کہا کہ اس اتحاد سے علاقے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہونے اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے علاقے کا امن و استحکام متاثر ہوسکتا ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کواڈ اور آکُس معاہدوں کو امریکی توسیع پسندی کا آلہ کار اور اپنے گھیرائو کی کوشش سمجھتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ سرد جنگ کے راستے پر گامزن ہے جس کا اقوام متحدہ اور علاقے کے ممالک کو نوٹس لینا چاہیے۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر صدر شی جن پنگ نے دفاعی اخراجات میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے خیال میں آکس اور کواڈ پر چین کے تحفظات غیر ضروری ہیں۔ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ آکس کا مقصد آسٹریلیا کے دفاع کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے۔ 8 ہزار 2 سو سے زیادہ جزائر پر مشتمل اس ملک کے ساحلوں کی لمبائی 47000 کلومیٹر ہے جس کی نگرانی کے لیے بحری دفاع کا مؤثر نظام ضروری ہے۔ آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی کہا کہ ان کا ملک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور جوہری آبدوزوں کا حصول دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔
امن و استحکام کے بھاشن اپنی جگہ، لیکن امریکہ بہادر تسلسل سے چین کو اشتعال دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ اگست میں اسپیکر نینسی پلوسی کی زیرِ قیادت امریکی پارلیمانی وفد کے دورہ تائیوان پر چین نے شدید احتجاج کیا تھا۔ بیجنگ کے لیے تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اس حقیقت کو عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملکوں اور ویٹیکن کو ملاکر صرف 14 ممالک کے لیے تائیوان ایک آزادو خودمختار ملک ہے۔
چین نے ایران اور سعودی کے مابین کامیاب ثالثی کا جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں۔ چچا سام برابر اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین یوکرین جنگ کے لیے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین اور روس دونوں ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔ صدر ژی جن پنگ نے امریکہ پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس اور یوکرین دونوں ہمارے دوست ہیں اور ان میں سے کسی کو اسلحے کی ضرورت نہیں۔ اپنا مال فروخت کرنے کے لیے مغرب نے جنگ کی بھٹی دہکائی ہے۔
امریکی بار بار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین کسی بھی وقت تائیوان پر قبضہ کرلے گا، جبکہ چین کا مؤقف ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے، لہٰذا قبضے کی کیا ضرورت؟ بحیرہ جنوبی چین میں چینی جہازوں سے امریکی بحریہ کی چھیڑ چھاڑ وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ مغرب چین پر دانش ورانہ املاک کی چوری کا الزام بھی لگارہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا خیال ہے کہ مختصر دورانیے کے بصری تراشوں کا پلیٹ فام Tic Tock چین کا ایک جاسوسی ہتھیار ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے دھمکی دی کہ اگر ٹک ٹاک کی ملکیت کسی امریکی ادارے کو فروخت نہ کی گئی تو اس پر پابندی لگادی جائے گی۔
کشیدگی اور اشتعال کے اس تناظر میں آنکس کی چبھن نے چین کو بے چین کردیا ہے۔ تاہم چینی وزارتِ خارجہ کے تندو تیز بیانات کے باوجود امریکہ چین عسکری کشیدگی بڑھنے کا امکان بہت زیادہ نہیں، کہ بیجنگ کی ترجیحِ اول معیشت و تجارت ہے جس کے لیے تصادم کے بجائے تعاون کی حکمت عملی چینی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔ دوسری طرف بیجنگ دشمنی امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں کہ چین اقتصادی دیو، عالمی زنجیر فراہمی (سپلائی چین) کا کلیدی حلقہ اور ساری دنیا کا اہم تجارتی شراکت دار ہے۔
………………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔