ایک طرف اقبال کا تصورِ فقر ہے اور دوسری طرف توشہ خانہ کی خبر
وفاقی حکومت نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھ دیں۔ توشہ خانہ کا سال 2002ء سے 2023ء تک کا 466 صفحات پر مشتمل ریکارڈ پبلک کردیا گیا۔ ویب سائٹ کے مطابق توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، وفاقی وزراء اور سرکاری افسران کے نام شامل ہیں، ان اہم شخصیات میں سابق صدر پرویزمشرف، سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، نوازشریف، راجا پرویزاشرف اور عمران خان کے نام شامل ہیں۔ ویب سائٹ پر موجودہ وزیراعظم شہبازشریف اور صدر عارف علوی کا توشہ خانہ ریکارڈ بھی اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے تیسرے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں توشہ خانہ سے مرسڈیز بینز گاڑی لی، جس کی قیمت اُس وقت42 لاکھ 55ہزار تھی، نوازشریف نے 6 لاکھ 36 روپے دے کر یہ مرسڈیز رکھ لی۔ نوازشریف نے 43 ہزار روپے کا گلاس سیٹ اور کارپٹ 6 ہزار میں رکھے، انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے12لاکھ کی گھڑی اور کف لنک 2 لاکھ 40 ہزار دے کر رکھے، جبکہ 8 ہزار کا گلدان مفت میں رکھ لیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو جیوانی واچ، ہارس ماڈل، مجموعی مالیت 5 لاکھ 40 ہزار کے ملے جس کے انہوں نے 79 ہزار 5 روپے ادا کیے، سابق صدر کو 5 کروڑ 78لاکھ کی بی ایم ڈبلیو اور 5کروڑ کی ٹویوٹا لیکسس تحفے میں ملیں، انہوں نے ان دونوں گاڑیوں کے ایک کروڑ61لاکھ روپے ادا کیے۔ اس کے علاوہ آصف زرداری نے10ہزار روپے کی پینٹنگ مفت میں رکھی۔ آصف زرداری کو سال 2009ء میں 2کروڑ 73لاکھ روپے مالیت کی بی ایم ڈبلیو تحفے میں ملی، جو انہوں نے 41لاکھ میں خریدی اور بلاول زرداری نے ساڑھے 6 ہزار روپے کا گلدان مفت میں رکھا۔ وزیراعظم شہبازشریف کو تحائف میں درجنوں چیزیں ملیں جو انہوں نے مفت میں رکھ لیں، ان میں گائے کا ماڈل، صراحی، وال ہنگنگ، باؤل اور خنجر شامل ہیں۔ گائے کا ماڈل 8 ہزار، صراحی 25ہزار، وال ہنگنگ 17ہزار اور خنجر50ہزار روپے مالیت کے تھے۔ دستاویز کے مطابق شہبازشریف نے بُک لیٹ 10ہزار، اسٹیڈیم ماڈل 15ہزار توشہ خانہ سے لے کر مفت میں رکھ لیے۔ شہبازشریف نے پلیٹ کے ساتھ صراحی 22 ہزار روپے اور آنکس پلیٹ جس کی مالیت 2200روپے تھی، فری میں رکھ لی۔ شہبازشریف نے گھوڑے کا 28ہزار روپے مالیت کا دھاتی مجسمہ فری میں رکھ لیا،چاکلیٹ اور شہد 12ہزار، جار 10ہزار روپے کا فری میں رکھ لیا، ازبک مصنوعات کی کتابیں 33ہزار، پینٹنگ 28 ہزار روپے کی فری میں رکھ لیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 4لاکھ روپے مالیت کا طلائی گلدان توشہ خانہ سے لیا، انہوں نے طلائی گلدان کے لیے ایک لاکھ85ہزار روپے ادائیگی کی، اس کے علاوہ انہوں نے2013ء میں بطور وزیراعلیٰ 35ہزار کا ڈیکوریشن پیس 5ہزار میں لیا۔ دستاویز کے مطابق شہبازشریف نے کپ طشتری باؤل 10ہزار، قالین 30 ہزار کا فری میں رکھ لیا، انہوں نے عربی کافی دان 26ہزار، عربی قہوہ دان26ہزار کا فری میں رکھ لیا۔ اس کے علاوہ مریم نواز، کلثوم نواز اور نوازشریف نے پائن ایپل کا باکس مفت میں رکھا۔ سال 2013ء میں نوازشریف کے سمدھی اور موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے15 ہزار روپے مالیت کی بیڈ شیٹ ایک ہزار روپے میں رکھی۔ سال 2018ء میں شاہد خاقان عباسی کو 2 کروڑ 50 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی، اسی سال اُن کے بیٹے نادر عباسی کو ایک کروڑ70لاکھ کی گھڑی تحفے میں ملی۔ 2018ء میں وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو 19 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی ملی، گھڑی کی قیمت 3لاکھ 74ہزار روپے توشہ خانہ میں جمع کرائی گئی۔ 2004ء میں پرویزمشرف کو ملنے والے تحائف 65لاکھ روپے سے زائد کے ظاہر کیے گئے۔ دستاویز کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک عدد ڈائمنڈ گولڈ گھڑی مالیت ساڑھے8 کروڑ روپے، کلف لنکس مالیت 56 لاکھ 70 ہزار روپے، ایک عدد پین مالیت 15 لاکھ روپے، ایک عدد انگوٹھی جس کی مالیت87 لاکھ 5 ہزار ہے، یہ تمام چیزیں 2 کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے میں خریدیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے عود کی لکڑی سے تیارشدہ بکس اور2 پرفیوم مالیت 5 لاکھ روپے بغیر ادائیگی کے حاصل کیے۔ ایک عدد رولیکس گھڑی مالیت 15 لاکھ روپے صرف2 لاکھ 94 ہزار روپے ادا کرکے حاصل کی گئی۔ ایک اور لیڈیز رولیکس گھڑی مالیت 4 لاکھ، ایک آئی فون مالیت 2 لاکھ 10 ہزار، دو جینٹس سوٹس مالیت 30 ہزار،4 عدد پرفیوم مالیت 35 ہزار، 30 ہزار، 26ہزار، 40 ہزار روپے، ایک پرس مالیت 6ہزار،ایک لیڈیز پرس مالیت18 ہزار، ایک عدد بال پین مالیت28 ہزار روپے صرف3 لاکھ 38 ہزار 600 روپے ادا کرکے حاصل کیے۔ سال 2023ء میں حکومت نے59تحائف وصول کیے، 2022ء میں مجموعی طور پر 224اور2021ء میں توشہ خانہ میں 116تحائف وصول ہوئے۔ کم مالیت کے بیشتر تحائف وصول کنندگان نے قانون کے مطابق بغیر ادائیگی کے رکھ لیے، شوکت عزیز نے سیکڑوں تحائف10ہزار سے کم مالیت ظاہر کرکے بغیر ادائیگی پاس رکھے۔ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے، مئی2006ء میں سابق وزیرخزانہ عمر ایوب نے ساڑھے4 لاکھ کی گھڑی توشہ خانہ میں دی، 2007ء میں شوکت عزیز کو ملنے والی ساڑھے 8لاکھ روپے کی گھڑی 3 لاکھ 55 ہزار میں نیلام ہوئی، میرظفراللہ جمالی مرحوم نے خانہ کعبہ کے ماڈل کا تحفہ وزیراعظم ہاؤس میں نصب کرا دیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی والدہ نے 2009ء میں ایک لاکھ 15ہزار کی 2گھڑیاں30ہزارمیں لیں، فروری 2023ء میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو بھی رولیکس گھڑی تحفے میں ملی۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی بھی توشہ خانہ سے گھڑی لینے والوں میں شامل ہیں، انہیں 31جنوری 2023ء کو رولیکس گھڑی تحفے میں ملی۔ توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق وزارتِ خارجہ کے چیف پروٹوکول آفیسر مراد جنجوعہ کو 29 جنوری 2019ء کو 20لاکھ روپے مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی، جو انہوں نے رقم کی ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھ لی۔ ستمبر 2018ء میں سابق وزیراعظم کے چیف سیکورٹی آفیسر رانا شعیب کو 29 لاکھ روپے کی رولیکس گھڑی تحفے میں ملی، نون لیگ کے رہنما امیر مقام کو 2005ء میں گھڑی ملی جس کی قیمت ساڑھے پانچ لاکھ روپے ظاہر کی گئی تھی، جبکہ 16 اگست 2006ء کو جہانگیر ترین نے ملنے والا تحفہ توشہ خانہ میں جمع کروایا۔ اس کے علاوہ توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق صدر ِمملکت عارف علوی کو دسمبر 2018ء میں ایک کروڑ 75 لاکھ روپے کی گھڑی، قرآن پاک اور دیگر تحائف ملے، جس میں سے انہوں نے قرآن مجید اپنے پاس رکھا اور دیگر تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے۔ اسی طرح دسمبر 2018ء میں خاتونِ اول بیگم ثمینہ علوی کو بھی 8 لاکھ روپے مالیت کا ہار اور 51 لاکھ روپے مالیت کا بریسلٹ ملا جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کروا دیا۔ ریکارڈ کے مطابق 7 اگست 2006ء کو جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو تحائف ملے جو انہوں نے دس ہزار روپے ادا کرکے رکھ لیے، سابق سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق کو 29 فروری 2010ء کو سات لاکھ کی گھڑی ملی جو انہوں نے توشہ خانہ میں دے دی۔ 28 دسمبر2010ء کو صحافی رؤف کلاسرا نے ایک لاکھ بیس ہزار کی گھڑی توشہ خانہ میں جمع کروائی۔ (روزنامہ جسارت 13 مارچ 2023ء)
دیکھا جائے تو پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور فوجی حکمرانوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ میاں نوازشریف اور شہبازشریف عمران خان کی صورت بھی دیکھنے کے روادار نہیں۔ عمران خان شریفوں اور زرداریوں کو ڈاکو کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کرانے والے جرنیلوں کو معاف کرسکتا ہوں مگر شریفوں اور زرداریوں سے بات نہیں کرسکتا۔ جنرل پرویزمشرف اور جنرل اشفاق پرویزکیانی ایک دوسرے کے حریف تھے۔ جنرل پرویزمشرف کے خلاف وکلا کی پوری تحریک کی پشت پر جنرل کیانی موجود تھے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور شوکت عزیز بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ شاہد خاقان عباسی سیاست دان ہیں اور شوکت عزیز ایک ٹیکنو کریٹ تھے، مگر توشہ خانہ کے حمام نے ان تمام لوگوں کو ایک کردیا۔ اس لیے کہ نوازشریف، شہبازشریف اور مریم نواز نے توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تو عمران خان نے بھی اس گنگا میں وضو فرمایا۔ جنرل پرویزمشرف نے توشہ خانہ سے مال اڑایا تو جنرل کیانی نے بھی توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے توشہ خانہ سے کروڑوں کا مال ہتھیایا تو شوکت عزیز نے بھی اس سلسلے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
مذاہب کی تاریخ کو دیکھا جائے تو سیاست ایک پیغمبرانہ کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو اقتدار سے نوازا، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو ریاست کا مالک بنایا، حضرت یوسفؑ نے اقتدار کے ایوانوں میں زندگی بسر کی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا اعزاز بخشا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پیغمبر نہیں تھے مگر وہ ہر اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثے کے امین تھے۔ چنانچہ عہدِ رسالت کے بعد ان کا زمانہ بہترین ہے۔ ہندو ازم میں رام اور کرشن کو ریاست چلانے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ دونوں ہندوؤں کی تاریخ کے عظیم ترین لوگ ہیں۔ افلاطون کے زمانے تک آتے آتے سیاست کا مرتبہ بہت گر چکا تھا مگر اس کے باوجود افلاطون نے کہا ہے کہ ریاست اور سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو، یا حکمران کو فلسفی۔ اس کے معنی یہ تھے کہ افلاطون کے زمانے تک سیاست کا تعلق علم اور دانش کی محبت سے تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اسی لیے ہمارے تمام بڑے مفکرین نے سیاست کو دین کے تابع کہا ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ”احیاءالعلوم“ میں سیاست کو مذہب کے تابع کہا ہے۔ ابن خلدونؒ نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں صاف لکھا ہے کہ سیاست دین کے تابع ہے۔ ہمارے زمانے میں اقبال نے صاف کہا ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
عہد ِحاضر کے مجدد مولانا مودودیؒ کی پوری زندگی ہی ریاست اور سیاست کو اسلام کے تابع کرنے کی جدوجہد میں بسر ہوگئی۔ تاریخ کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے کہ جب تک سیاست مذہب کے تابع رہی اُس وقت تک حکمران اور سیاست دان بدعنوانی سے پاک رہے۔ لوٹ مار سے کنارہ کش رہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو توشہ خانہ میں ہونے والی لوٹ مار اس امر کا اظہار ہے کہ ہماری سیاست دین سے یکسر بے نیاز ہوچکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ توشہ خانہ کی اس لوٹ مار کے دیگر اسباب کیا ہیں؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک حکمرانوں اور عام انسانوں میں خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس موجود ہوتا ہے وہ ایک مثالی زندگی بسر کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ ایک عظیم ریاست کے حکمران تھے مگر ان کے لباس میں سترہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ مصر فتح ہوا تو اہلِ مصر نے کہاکہ ہم اپنے شہر کی کنجی حضرت عمرؓ کے حوالے کریں گے۔ چنانچہ مصر کے گورنر نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ مصر تشریف لے آیئے۔ حضرت عمرؓ مصر پہنچے تو گورنر نے شہر سے کچھ فاصلے پر ان کا استقبال کیا۔ گورنر نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ کا لباس پیوند زدہ اور گرد آلود ہے۔ گورنر نے حضرت عمرؓ سے کہا: اہلِ مصر نفاست پسند ہیں، آپ اگر لباس تبدیل کرلیں تو اچھا ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ اس واقعے کے بہت عرصے بعد حضرت عائشہؓ نے ایک دن حضرت عمرؓ کو بلایا اور کہا کہ فتح خیبر تک مسلمانوں کی مالی حالت اچھی نہ تھی، ہم کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے، مگر اب آپ ایک بڑی ریاست کے حکمران ہیں، آپ سے دوسری ریاستوں کے سفیر اور بڑے بڑے لوگ ملنے آتے ہیں، اگر آپ بہتر لباس پہننے لگیں تو اچھا ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہا: میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ حضرت عمرؓ کے دس برسوں میں پانچ سال قحط رہا۔ اس زمانے میں حضرت عمرؓ نے گندم کا آٹا تک استعمال کرنا بند کر دیا تھا۔حضرت عمرؓ کے پاس وسائل کی کمی نہیں تھی مگر آپؓ کی خدا ترسی آپؓ کو سرکاری وسائل سے استفادے پر مائل نہیں ہونے دیتی تھی۔ جبکہ ہمارے شریفوں اور زرداریوں، جرنیلوں اور عمران خانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے خدا کوئی زندہ وجود ہی نہیں، ان کے لیے خدا صرف ایک تصور ہے، انہیں یقین ہی نہیں کہ وہ مریں گے اور ایک دن خدا کے سامنے حاضر ہوں گے۔ یہ تمام لوگ دنیا کے کتے ہیں، انہیں دنیا کے سوا اور کچھ مطلب نہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی کوئی نمونہ نہیں۔ ایک دن حضرت عمرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ آپؐ کھجور کے پتوں کے بستر پر سو رہے ہیں اور آپؐ کے جسمِ اطہر پر پتوں کے نشانات پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر رونے لگے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں روتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے کہا: قیصر و کسریٰ تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپؐ کے لیے آرام دہ بستر تک نہیں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فکر نہ کرو، اُن کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت۔
ایک زمانہ تھا کہ حکمرانوں کے لیے یہ بات بہت اہم ہوتی تھی کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ اچھے بادشاہ تک تاریخ کے فیصلوں کو اہمیت دیتے تھے۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تو یاسر عرفات اور کئی عرب ریاستوں کے سربراہوں نے انہیں جیل سے فرار کرانے کی پیش کش کی مگر بھٹو نے کہا کہ وہ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ شاہ فیصل امریکہ پرستی میں ایک حد سے آگے نہیں گئے چنانچہ امریکہ نے انہیں شہید کرادیا۔ جنرل ضیا الحق نے ایک مرحلے پر افغانستان اور کشمیر کے سلسلے میں آزاد پالیسی اختیار کی اور اسی لیے اُن کا طیارہ تباہ کر دیا گیا۔ لیکن میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کے لیے تاریخ میں زندہ رہنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔ ان کے لیے لمحہ موجود ہی سب کچھ ہے،چنانچہ یہ لوگ جو کچھ کر گزریں، کم ہے۔
مغربی دنیا نے خود کو خدا سے آزاد کر لیا ہے مگر عوام کے سامنے جواب دہی کا احساس ایسی چیز ہے جو اچھے اچھے مغربی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا پتاّ پانی کر دیتا ہے۔ نکسن امریکہ کے مقبول صدر تھے مگر واٹر گیٹ اسکینڈل نے ان کی عوامی ساکھ کو تباہ کردیا اور انہیں بالآخر مستعفی ہونا پڑا۔ امریکہ میں آزادانہ جنسی تعلقات کوئی مسئلہ ہی نہیں مگر امریکہ میں مونیکا لیونسکی کیس بل کلنٹن کے اقتدار کو لے ڈوبا۔ بل کلنٹن پر اصل الزام مونیکا سے تعلقات کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ انہوں نے مونیکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے قوم سے جھوٹ بولا۔ مگر پاکستان کے حکمران اور سیاست دان قوم کے سامنے جواب دہی کا کوئی احساس نہیں رکھتے۔ میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف اور آصف علی زرداری نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی مگر قوم نے ان سے کچھ بھی نہیں پوچھا۔ توشہ خانہ کے حوالے سے عمران خان کی لوٹ مار سامنے آئے عرصہ ہوگیا مگر ان کی مقبولیت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ تک نے شریفوں اور زرداریوں کی لوٹ مار اور عمران خان کے توشہ خانہ اسکینڈل کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر توشہ خانہ کے حمام کے ننگے گھبرائیں تو کیوں؟
اقبال مصورِ پاکستان ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری میں دنیا پرستی اور دولت پرستی کے بجائے فقر کی تعلیم دی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے فقر کو علم پر بھی فوقیت دی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقیہ و حکیم فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستیِ گناہ
علم کا موجود اور فقر کا موجود اور
اشہد ان لا الٰہ اشہد ان لا الٰہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
ایک طرف اقبال کا تصورِ فقر ہے اور دوسری طرف توشہ خانہ کی خبر ہے۔ ایک طرف انسان بنانے کی جدوجہد ہےاور دوسری طرف ڈاکوؤں کی دھماچوکڑی ہے۔ ان دونوں میں سیکڑوں میل کا نہیں کروڑوں میل کا فاصلہ ہے۔