جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے اوپن نیٹ ورک میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جیسے ہی ہمارا اسٹریس بڑھتا ہے ویسے ہی یادداشت، ارتکاز، قوتِ فیصلہ اور دماغی افعال متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سے قبل ماہرین سائنسی تحقیق کے بعد خبردار کرچکے ہیں کہ اسٹریس پورے بدن کو متاثر کرتے ہیں۔
اب ایموری یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن، اٹلانٹا کی ایمبرکل شریشترا نے یہ مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زندگی سے تناؤ بالکل ختم کرنا ممکن نہیں لیکن ہم اسے کسی طرح کم کرسکتے ہیں، اور اسے اسٹریس مینجمنٹ کہتے ہیں۔ اُن کا مشورہ ہے کہ لوگ اپنا خیال رکھیں اور مراقبے اور مائنڈفلنیس سے اس تناؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف دماغ توانا رہ سکتا ہے بلکہ اس کی صلاحیتیں متاثر ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ذہنی تناؤ مسلسل جاری رہے تو اکتساب میں کمی کا خطرہ 37 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیاہ فام اور سفید فام افراد کا جائزہ لیا گیا جس میں 10 ہزار سے زائد لوگ شامل تھے۔ سیاہ و سفید فام افراد کی تعداد نصف تھی جبکہ 40 فیصد خواتین بھی شامل تھیں۔ 23 فیصد خواتین میں معمول سے زیادہ اسٹریس دیکھا گیا تھا۔ پہلی بات یہ سامنے آئی کہ خواتین میں اس کی شرح زیادہ تھی اور سیاہ فام عورتیں اس کا زیادہ شکار تھیں۔ لیکن جن مرد و خواتین میں تناؤ زیادہ تھا اُن میں امراضِ قلب کی شرح بھی زیادہ تھی۔ دوسری جانب جن خواتین و حضرات نے اپنے دماغی تناؤ پر قابو پالیا اُن کی ذہنی اور دماغی کیفیت بہتر رہی۔ ان افراد نے نیند کی تکمیل، سانس کی مشق، مراقبے اور مناسب غذا سے خود کو بہتر بنایا۔ اس کے برخلاف جن افراد نے خود کو اسٹریس کے حوالے کردیا اُن کی یادداشت، توجہ اور دیگر صلاحیتیں بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئیں۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ کسی بھی طرح اسٹریس کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں اور اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔